نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شیخ خالدزاہد،معاشی بدحالی

شیخ خالدزاہد،معاشی بدحالی

کتابی باتیں اور عملی لوگ۔۔۔شیخ خالد زاہد

ضرورت ایجاد کی ماں ہے،جب کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو ضرورت کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جانے لگتی ہے اورایک وقت پر وہ ضرورت طبعی صورت میں تیار ہوجاتی ہے۔
شیخ خالدزاہد،معاشی بدحالی
٫

شیخ خالد زاہد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر انسان اپنی پیدائش سے اپنے مذہب کو اور اسکے بارے میں سننا شروع کرتا ہے جیساکہ ہم مسلمان اللہ کی یکتائی، بڑائی اور حضرت محمد ﷺ کے نبی ہونے کی گواہی نومولود کی سماعتوں بلکہ اسکے تحت شعور کے حوالے کرتے ہیں (آذان دیتے ہیں)۔نومولود جو یکسوئی سے عاری ہوتا ہے انفرادی طور پراسے کچھ بھی سنایا نہیں جاسکتا بلکہ وہ تو گھر میں رہنے والوں کی عمومی گفتگو جو آپس میں کی جاتی ہے سنتا رہتا ہے اور عمر کے مراحل طے کرتا ہے۔ حقیقت ہے کہ عمر کے ایک مخصوص حصے میں پہنچ کر انسان کوانسان ہونے اور اپنے وجود کا احساس ہونا شروع ہوتا ہے، پھر اپنے خالق کی رضا سے خالق کھوج شروع ہوتی ہے (ورنہ کتنے تو ایسے ہی راندھائے درگاہ ہوجاتے ہیں)، پھر کہیں جا کر وہ دیکھائے اور بتائے گئے راستے پر انگلی پکڑ کر، نشادہی کئے گئے راستے پر چلنا شروع کرتا ہے۔ یہ سفر کی نامعلوم چاہ ہوتی ہے یا جسم میں موجود جبلت کہ جیسے ہی بچہ اپنی جگہ تبدیل کرنے کا طریقہ جان لیتا ہے ویسے ہی بس آگے بڑھنے کی جستجو میں لگ جاتا ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب بچے کو آگے بڑھنے سے روکا جاتا ہے اور بچہ کسی طرح بھی رکنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ پھر علم کی باتیں ہوتی ہیں اوررہتی دنیا تک کیلئے علم کا سرچشمہ قرآن کریم ہے۔ ہمارے گھرانوں میں تعلیم کی ابتداء قران کی تعلیم سے شروع ہوتی ہے اور تقریباً بچے علم کے باقاعدہ حصول کا آغاز دینی مدرسوں یا مسجدوں سے ہی کرتے ہیں جہاں وہ قرانی تعلیمات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا تہمید کا مقصد واضح کرتے چلیں کہ دنیا، بلکہ کائنات میں سب سے مستند اور جامع کتاب قران مجید فرقان حمیدجو کلام الہی ہے۔ اس کتاب کی خا ص الخاص خاصیت یہ ہے کہ ا س میں تحریر ہوا ایک حرف بھی کسی مخلوق نے رقم نہیں کیا۔اس سے پیشتر بھی یہ تحریر کر چکا ہوں کہ دنیا میں رائج تمام علوم کی بنیاد قرآن سے ہی ملتی ہے، یعنی جو کچھ کائنا ت میں ہے وہ اس قران میں ہے یا پھر قران سے ہے۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ ہمارا تعلق قران سے عمر کے پہلے حصے میں ہی جوڑدیا جاتا ہے اور بدقسمتی یہ کہ اس مقدس ترین کتاب سے ہمارا تعلق صرف ثواب کے حصول کیلئے وابسطہ کیا جاتا ہے۔ ہمیں یاد ہے جب ہم مدرسے جاتے تھے تو ہماری والدہ ہمیں باوضو رہنے کی تاکید کرتیں، قران کو چومتیں آنکھوں اور دل سے لگاتیں اور ہمیں بھی اس عمل کی شفقت سے تاکید کرتیں، یہ کچی عمر کی ایک اچھی عادت جو آج جبکہ بالوں میں سفیدی امڈچکی ہے ہمارے ساتھ ہے کہ جب قران پاک تلاوت کیلئے یا پھر جگہ بدلنے کیلئے بھی اٹھاتے ہیں تو ماں کا ذہن نشین کروایا ہوا وہی عمل دہراتے ہیں۔ ایک اضافی بات جو ذہن میں تحریر ہونے کیلئے جیسے مچل رہی ہو کہ محبت اپنا رنگ ضرور چھوڑتی ہے مگر رنگ کے ظاہر ہونے کا وقت بھی خود منتخب کرتی ہے۔جب ماں سمجھاتی تھی کہ بیٹا قران جب بھی اٹھانا تو ایسا ہی کرنا تو بڑی بے دلی سے جی کہہ دیا کرتے تھے لیکن اس پیدا کردہ محبت کا رنگ اپنے مخصوص وقت پر ظاہر ہوگیا اور اب یہ سب کچھ خودبخود ہوتا چلا جاتا ہے۔

ضرورت ایجاد کی ماں ہے،جب کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو ضرورت کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جانے لگتی ہے اورایک وقت پر وہ ضرورت طبعی صورت میں تیار ہوجاتی ہے۔انسان وقت کیساتھ ساتھ سیکھتا چلا گیا۔ مورخین کیمطابق تقریباً انسان نے پہلی لکھائی ساڑے پانچ ہزار سال قبل شروع کی اور ابتدائی لکھائی مختلف اشکال پر مبنی تھی جسکی جھلک آج بھی ہمیں بہت ساری رسم الخط میں ملتی ہیں۔ لکھنے کی فکر کی گئی یا ضرورت محسوس کی گئی یہ جاننا مشکل ہے لیکن اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تحریر کرنے کی فکر ہی کی گئی ہوگی تاکہ کسی بھی ایجاد کا طریقہ کر لکھ کر محفوظ کیا جاسکے یا پھر سماجی اقدار کی یادداشتیں رقم کر کے رکھی جاسکیں اور کچھ نہیں تو اپنی ہی آنے والی نسلوں کیلئے آسانیاں پیدا کی جاسکیں۔اگر وقت اجازت دے تو ذہن پر زور ڈالیں اوراس سے ملتے جلتے بہت سارے محرکات آپکے سامنے آسکتے ہیں۔

ایک طبقہ ہمیشہ ایسا رہا ہے جس کا کام قدرت کی بنائی کائنات پر نظر رکھنا ہوتا ہے اور وہ قدرت کی جانب سے ہونے والے فیصلوں پر نظر رکھتے ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ جتنے لوگ بھی انکی بات سے یا انکے مشاہدے سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں وہ اٹھائیں لیکن وہ اسے بیچا نہیں کرتے جو اس بات کی گواہی ہے کہ ایسے لوگوں کی اکثریت انتہائی مفلسی میں اپنی اپنی زندگیاں بسر کرتے رہے ہیں۔تاریخی تحریروں کو اندازوں سے سمجھا گیا اور پھر انہیں سمجھنے والے کے رحم و کرم سے ناصرف تحریر کیا گیا بلکہ اس تحریر کے لکھنے والوں کا پتہ لگایا گیا اور ان کے متعلقہ علاقوں یا خطوں یا قبلوں کا پتہ بھی دیا گیا۔ معلوم نہیں کہاں تک کی تاریخ درست ہے۔ کسی کی قابلیت پر تو شک نہیں کرسکتے لیکن مفادات کیمطابق قلم کو استعمال کرنے کی صفت سے بہت اچھی طرح سے واقف ہیں۔ جہاں کوئی بات مخالف کے فائدے کی ہو اسے فوراً حذف کرنے کا حکم جس طرح سے آج دیا جاتا ہے یقینا تب بھی دیا جاتا رہا ہوگا۔ اس بات کے امکانات کم ہیں کہ انسان کبھی بھی مکمل غیر جانبدار رہا ہو، ہمیشہ اسکا جھکاؤ اپنے دل دماغ یا خون کی رغبت کی جانب جھکتا ضرور ہے۔ دنیا تمھارے عمل سے تبدیل ہوسکتی ہے ناکہ تمھاری رائے سے اور رائے ہمیشہ تحریرکی جاتی ہے۔

کتابوں سے محبت کرنے والے کتابی باتیں کرتے ہیں اوروہ اس عملی زندگی کی سڑک پر دوڑنے والوں مفاد پرستوں کی دوڑ سے خود کو باز رکھتے ہیں۔ کتابی باتیں سمجھ لیں یا نصیحتیں ہر انسان کو چبھتی ہیں اور انا کو ٹھیس پہنچاتی، تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں۔کسی کو سمجھائیں تو وہ آپ کو یہ کہہ کر خاموش رہنے کی تلقین کرتا سنائی دے گا کہ جناب یہ باتیں کتابوں میں رکھی رہنے دیں یہ وہیں اچھی لگتی ہیں انکا عملی زندگی سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اب کوئی یہ پوچھ لے کہ ہزاروں سالوں سے تحریر وں کی شکل میں ہم تک یہ کتابی باتیں نا پہنچتی تو بھلا کیسے آج اچھے اور برے کی تمیز کی جاتی اور اس سے بڑھ کر اپنی سہولیات کیلئے اپنی آسائشوں کیلئے ایک سے بڑھ ایک چیز کو کس طرح سے طبعی شکل دے سکتے۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر انسان کوخالق کائنات نے اپنے تک رسائی کیلئے جو راستہ بتایا وہ بھی کتابی شکل میں رہتی دنیا تک کیلئے موجود رہے گا۔ جس طرح سے مسلمانوں کیلئے قران کریم مقدس ترین کتاب ہے ایسے ہی ہر مذہب میں کوئی نا کوئی کتاب یا صحیفہ مقدس ترین اہمیت کا حامل ہے۔

تکنیکی ترقی کے دور میں بالمشافہ ملاقاتوں کا سلسلہ پہلے ہی بہت کم ہوچکا تھا رہی سہی کسر کورونا نے پوری کردی اب تو زیادہ تر زندگی سماجی ابلاغ اور سب سے بڑھ کر واٹس ایپ اور فیس بک پر گزر رہی ہے جہاں سے اپنوں اوراپنوں سا کا حال باآسانی دستیاب ہوجاتا ہے۔ کتابی باتیں توکب کی ختم ہوچکیں لیکن اب ہم سب اپنے آپ کو کتابوں سے وابسطہ ثابت کرنے کیلئے سماجی ابلاغ پر ان باتوں سے رونق لگائے ہوئے ہیں، ہر بدلتی تصویر انہیں کتابی باتوں سے مزین ہوتی ہے۔یہی نہیں بلکہ پوری پوری کتابیں ہر موضوع پر سماجی ابلاغ پرمختلف زبانوں میں موجود ہیں اب اس بات تک پہنچنا ایک بارپھر مشکل ہے کہ ان میں سے پڑھی کتنی جاتی ہیں یہاں تک کہ سماجی ابلاغ پر شامل کرنے والے نے بھی انہیں دیکھا ہے یا نہیں۔

باتیں کتنی ہی کیوں نا ہوں اگر وہ جھوٹ، غیبت اور بھتان باندھنے کیلئے ہوں یا پھر کسی کا تمسخر بنانے کیلئے ہوں یہ سب دائمی خسارے کا باعث بنتی ہیں اور نا ہی ان میں کوئی علمی فراست ہوتی البتہ افراد کا پتہ ضرور کروادیتی ہیں، یہی باتیں انسان کی اصلاح اور قدرت کے خزانوں کیلئے ہوں تو تاقیامت کیلئے رہتی دنیا کیلئے بھی باعث نفع بن جاتی ہیں۔ باتیں کیجئے لیکن اس بات خیال رکھیں کہ آپ کہیں وقت گزاری کیلئے اپنے سرمایہ آخرت کیلئے گناہوں کا سودا تو نہیں کر رہے۔ ہم نے عمل سے عاری باتیں نہیں کرنی ہمیں اچھی باتوں کو عملی جامہ پہنانا ہے اور معاشرے کیلئے اپنے آپ کو قیمتی بنانا ہے تاکہ اللہ تعالی کے نائب ہونے کا کچھ تو حق ادا ہوسکے۔ گوکہ ابھی اس موضوع کو سمیٹنے کا دل تو نہیں چاہ رہا لیکن پھر کبھی ختم کر رہا ہوں کہ ہم کتابی باتوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی اور اپنی نسلوں کی بہترین پرورش کرینگے اور کسی سایہ دار درخت کی طرح راستے میں کھڑے مسافروں کو تپتی دھوپ میں سایہ فراہم کرتے رہینگے۔

یہ بھی پڑھیے:

یہ ہی چراغ جلینگے تو روشنی ہوگی!  (اساتذہ کے نام)۔۔۔شیخ خالد زاہد

الزامات کا سیاست سے گہرا تعلق!۔۔۔شیخ خالد زاہد

امریکا کا میڈیا بھی دو حصوں میں تقسیم ہے۔۔۔مبشرعلی زیدی

About The Author