گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
آج سے پندرہ سال پہلے ڈیرہ کے ایک دانشور اور ماہر نفسیات ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک نے ۔۔پاکستانی معاشرہ ۔۔کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں قوم کے سماجی اور نفسیاتی مسائیل کا تجزیہ کیا گیا۔ میں اس کتاب کو اس زاوئیے سے پڑھ رہا ہوں کہ گزشتہ پندرہ سالوں میں ہم نے ان مسائیل سے باہر نکلنے اور ان کو حل کرنے میں کتنی پراگرس دکھائی ہے ۔اس کتاب کے صفحہ نمبر 7 پر وہ لکھتے ہیں
” اگر ہم موجودہ پاکستانی معاشرے کا جائیزہ لیں تو یہ ایک منظم مربوط اور صحت مند معاشرے کے بجاے ایک بے ہنگم گروہ کا منظرپیش کرتا ہے ۔ ایک کاروان راہ گم کردہ کہ نہ منزل کا نشان ہے نہ ہی منزل کا تعین ۔بس ایک بے سمت سفر جاری ہے ۔ قوم مذھبی ۔لسانی ۔ معاشی ۔سیاسی اور طبقاتی سطح پر تقسیم در تقسیم ہجوم کا منظر پیش کر رہی ہے ۔معاشرے میں کسی سطح پر کوئی اجتماعی کوشش نظر نہیں آتی ۔محض شخصی صلاحیتوں کی بنیاد پر ذاتی بلند مراتب اور زیادہ سے زیادہ آسائیشوں کا حصول مقصد زندگی بن کے رہ گیا ہے ۔ابن خلدون نے کسی تہزیب کی ترقی کے لیے ایک اعلی و ارفع مقصد کو لازمی قرار دیا ہے ۔پاکستانی معاشرے میں ایک بے مقصدیت ہے ۔ ذھن میں نہ کوئی سمت ہے نہ جہت اور نہ مقصد۔عام پاکستانی کنفیوژن کا شکار ہے ۔ہر دل میں اعلی اخلاقی اور مذھبی اقدار کی فتح کی خواہش ہےاور ذاتی حرص اور لالچ و مفادات کی تکمیل کی آرزو بھی ۔ معاشرے سے رواداری ۔خوش اخلاقی ۔ برداشت اور تحمل کے جزبات ختم ہو رہے ہیں ۔ ہر ایک تشدد اور بلند آواز سے اپنی بات منوانے پر تلا ہوا ہے ۔دوسرے کے نقطہ نظر اور اختلاف راے کو کسی سطح پر برداشت کی سطح معدوم ہو کر رہ گئی ہے اور جزباتیت اور خوش اعتقادی اور آدھے سچ کا معاشرے میں چلن ہے ۔۔“
ڈاکٹر صاحب کے 15 سال پرانے تجزئے کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے سوچا 21ویں صدی میں بڑی تیز ترین تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔ 500 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بلٹ ٹرینیں دوڑ رہی ہیں تو ہم بھی 15 سالوں میں بہت آگے نکل گیے ہونگے مگر جب غور کیا تو ہمارا ہر پیرامیٹر ترقی معکوس کا شکار نکلا ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے چل رہے ہیں ۔ساٹھ کی دہائی میں ہماری گروتھ سات آٹھ فیصد سالانہ تھی جو اب ایک سے نیچے جا لگی ہے ۔کرپشن سیکڑوں فیصد بڑھ گئی تعلیم کا معیار اور شرح خواندگی مایوس کن ہے ۔عدم برداشت ۔فرقہ واریت لسانی و صوبائی جھگڑے سیاسی کشمکش زوروں پر ہے نظر یہ آتا ہے کہ ہم الٹا سفر کر رہے ہیں ۔ کوئی شخص ایمانداری سے ڈیوٹی کرنے اور کاروبار کرنے کے قابل نہیں چھوڑا کیونکہ پورا تالاب گندہ ہے اگر کوئی اچھا کام کرنا چاہتا ہے تو ہم اسے اکھاڑ پھینکتے ہیں ایسے حالات میں ہم نئی نسل کو کیا رہنمائی فراہم کرینگے۔درد دل رکھنے والے لوگوں کو ہم سزا دے کر کھڈے لائین لگا دیتے ہیں تاکہ گلیاں سنجیاں ہو جائیں اور وہاں کرپٹ لوگوں کے گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔جب تک ہم من حیث القوم توبہ کر کے ایمانداری سے سفر نہیں شروع کرتے اس وقت تک بھٹکتے رہینگے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کی کتاب میں اور بھی بہت کام کی باتیں ہیں ۔مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے اب تو ملک سے سچ اور حق بیان کرنے والوں کی بھی آوازیں مدھم ہو رہی ہیں کیونکہ نہ کوئی سنتا ہے نہ عمل کرتا ہے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر