نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عقیدت مندوں اور تجزیئہ نگاروں کے لشکر۔۔۔حیدر جاوید سید

’’اخبار نویسوں کو چاہیے کہ وہ اپنی پسندوناپسند ضرور رکھیں انسان ہیں فرشتے نہیں لیکن معروضی حالات کے تقاضوں اور سیاسی اتحاد کی ٗضرورتوں اور مطلوبہ فضا کا بہرطور خیال رکھیںٔ‘‘۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاتی امراء نیوز کے ملازمین، ’’عقیدت مندوں‘‘ اور میڈیا منیجروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ سول سپر میسی سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں۔
ان کا من جملہ موقف یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ’’داو‘‘ پر کھڑی ہے۔ وزراء مشیر اور ترجمان جاتی امراء کے تجزیئہ نگاروں کی ہوائیوں سے رزق پاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اے آر ڈی کے قیام کے بعد دس سالہ معاہدہ جلاوطنی پیپلزپارٹی نے کیا تھا؟ سیاست آگے بڑھتی ہے۔ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں۔
نوازشریف تاثر دیتے ہیں کہ انہوں نے سبق سیکھااب ماضی کو نہیں دہرائیں گے ان کے ’’عقیدت مندوں‘‘ کا لشکر لیکن تلواریں نیاموں میں ڈالنے پر آمادہ نہیں۔
یہ بجا ہے کہ ظاہری طور پر پنجاب کی قیادت پہلی بار ثابت قدمی کا مظاہرہ کررہی ہے اس کے باوجود میاں برادران میں سے بڑے میاں صاحب انقلابی لیڈر کا علم بلند کئے ہوئے ہیں جبکہ چھوٹے میاں صاحب اب بھی مفاہمت کی سیاست کے علمبردار کے طور پر پیش کئے جارہے ہیں۔
مریم نواز جارحانہ انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ میں نے ظاہری طور پر اس لئے کہا کہ پچھلے دو دنوں (جمعہ اور ہفتہ) کے دوران اسلام آباد سے جاتی امراء کے مکینوں سے رابطہ کیا گیا۔ کیا جاتی امراء نیوز کے مورچہ بند عقیدت مند ان رابطوں پر روشنی ڈالیں گے کہ رابطہ کاروں اور مریم نواز کے درمیان کیا گفتگو ہوئی یا پھر خود مریم نواز ہی بتادیں کہ ان سے کیا کہا گیا اور انہوں نے کیاجواب دیا؟
ہم اصل میں اپنی پسند کے لوگوں کو فرشتہ بناکر پیش کرتے ہیں اور ناپسندیدہ کو شیطان۔
یہ فرشتوں اور شیطان والا معاملہ نہیں ایک طرف ریاست ہے اور دوسری طری پی ڈی ایم کے سیاستدان۔ دونوں پاکستانی ہیں۔ اگر رابطے ہوتے ہیں تو قیامت ٹوٹتی ہے نہ کوئی خلاف شرح کام ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ شریف خاندان اور ریاست کے درمیان براہ راست اور واسطوں سے ہونے والے رابطوں سے توجہ ہٹانے کے لئے
’’عقیدت مندوں‘‘ کا ہجوم اپنی اپنی کہانیاں بیچنے میں مصروف ہے۔
چاٹ مصالے والی ان کہانیوں کا مقصد وسطی پنجاب کے عوام کو یہ باور کروانا ہے کہ شریف خاندان تو ثابت قدمی کے ساتھ کھڑا ہے لیکن پیپلزپارٹی کا کچھ پتہ نہیں۔ یہ ویسی ہی صورتحال ہے جو نوازشریف کے دس سالہ معاہدہ جلاوطنی اور پھر میثاق جموہریت میں پی سی او ججز کے حوالے سے لکھی شق سے نون لیگ کے انحراف کے باوجود ’’عقیدت مندوں‘‘ اور تجزیئہ نگاروں کا ہجوم بناتا رہا۔
حالانکہ بنیادی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی یہ حقیقت سمجھنے کو تیار نہیں کہ پیپلزپارٹی کے لئے بدگمانیاں اور نفرتیں پیدا کرنے سے مسائل بڑھیں گے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ نون لیگ عملی جدوجہد کے میدان میں اب اتری ہے ابھی عشق کے امتحاں ہونے ہیں خود نون لیگ کو بھی یہ ثابت کرناہے کہ وہ تندوتیز بیانات اور جارحانہ حکمت عملی واقعتاً سول سپر میسی کے لئے اپنائے ہوئے ہے یا پھر مریم نواز اور شہباز شریف کے لئے نوازشریف جیسی سہولت کے حصول کے لئے۔
اپنی معلومات کی بنا پر یہ عرض کرسکتا ہوں کہ میاں شہبازشریف کسی بھی طرح کے پانچ سالہ ’’انتظامات‘‘ کا حصہ بننے پر آمادہ تھے لیکن ان کے بڑے بھائی اور بھتیجی مریم نواز نے اس کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔
محٗض جوابی کردار کشی مقصود ہو تو آسانی کے ساتھ یہ لکھا جاسکتاہے کہ
شہباز شریف کی حالیہ گرفتاری فرمائشی ہے کیونکہ وہ اپنی بھتیجی کی جارحانہ سیاست کے حامی نہیں۔
لیکن جاتی امراء نیوز کے عقیدت مندوں اور ترجمانوں و تجزیئہ نگاروں کا سا چلن غیر مناسب ہوگا۔
پی ڈی ایم کے فیصلے سب کے سامنے ہیں۔ نون لیگ بھی ضمنی انتخابات اور سینٹ انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش مند تھی چند دن قبل نون لیگ کی سنٹرل کمیٹی کے اجلاس کے بعد گرفتار ہونے والے خواجہ محمد آصف نے گرفتاری سے قبل سنٹرل کمیٹی کے اجلاس ہر دو امور پر دوٹوک انداز میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے
’’ایم آر ڈی کی جانب سے 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کو بطور مثال پیش کرکے کہا تھا کہ اداروں سے مکمل باہر ہوجانے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ حکومت وقت مزید طاقتور ہوکر ایسے فیصلے کرے گی جس سے ہمیں نقصان ہوگا‘‘۔
ثانیاً یہ کہ نون لیگ کی مجلس عاملہ میں 70فیصد ارکان ضمنی انتخابات میں حصہ لینے، سینٹ انتخابات کا میدان کھلا چھوڑنے کے ساتھ ساتھ استعفوں کے معاملے پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے رہے۔
چند ارکان نے تو یہاں تک کہا کہ ہم مولانا فٗضل الرحمن کی اطاعت کے حامی نہیں اتحاد کے فیصلے سربراہی اجلاس میں کرنے چاہئیں‘‘۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا جاتی امراء نیوز، عقیدت مندوں اور تجزیہ کاروں کو ان باتوں کی خبر نہیں ہوئی یا وہ درحقیقت ان باتوں کی پردہ پوشی کے لئے اپنی توپوں کا رخ حسب سابق پیپلزپارٹی کی طرف رکھنے پر ’’خلصت‘‘ کی وجہ سے مجبور ہیں؟
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ رویہ پروپیگنڈہ اور تنگ نظری نامناسب ہے۔ نون لیگی قائدین کو سوچنا ہوگا کہ اگر عقیدت مندوں اور تجزیہ نگاروں کو مزید کھل کھیلنے دیا گیا تو نقصان اپوزیشن اتحاد کو ہوگا۔
عجیب بات یہ ہے کہ نون لیگ کے فیصلے حلال ہیں اور اگر یہی فیصلے پیپلزپارٹی کرے تو کہا جائے کہ اتحاد کی پشت میں چھرا گھونپ دیا یا یہ کہ پی پی پی حکومت کے ساتھ ڈیل کی تیاریوں میں ہے۔
جاتی امراء نیوز والوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ تنخواہ حلال کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں جُتے ہوئے ہیں لیکن یہ عقیدت مندوں اور تجزیہ نگاروں کو کون سا شوق چین نہیں لینے دیتا۔
فقیر راحموں کہتے ہیں
’’اخبار نویسوں کو چاہیے کہ وہ اپنی پسندوناپسند ضرور رکھیں انسان ہیں فرشتے نہیں لیکن معروضی حالات کے تقاضوں اور سیاسی اتحاد کی ٗضرورتوں اور مطلوبہ فضا کا بہرطور خیال رکھیںٔ‘‘۔
بات تو فقیر راحموں کی درست ہے لیکن یہاں ہر شخص اپنا مرغا بغل میں دابے اپنا ساڑ نکال رہا ہے مثال کے طور پر وائسرائے آف سرائیکی وسیب کہلانے والے ایک صاحب چند برس اُدھر ایوان صدر کی ایک نشست میں اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری کے ہاتھوں اپنی دھلائی کا غم سینے پر لئے پھرتے ہیں اور جب کہیں موقع ملتا ہے ڈنگ مارنے سے باز نہیں آتے۔
فقیر راحموں کا موقف ہے کہ شاہ جی، عاصم سلیم باجوہ نے حالیہ نوکری دلوائی ہے اس لئے اتنا تو حق دیجئے کہ احسان مندی چکائے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author