رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2 ، جنوری 1978ء سانحہ کالونی ٹیکسٹائل ملزملتان۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک شکاگو ، ایک جلیانوالہ باغ کہ جس کا بدلہ ابھی قرض بھی ھے اور فرض بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کا دن ملکی تاریخ میں اس سیاہ دن کے طور پر تاریخِ انسانی کے ماتھے پر ایک بدنما داغ اور ضیاءالحقی آمریت کے منہ پر ایک کالک کے طور پر ثبت ھے۔۔۔۔ یہ سانحہ ایسے وقت ظہور پذیر ہوا کہ جب ضیاءالحقی آمریت کی نحوست کے پھیلتے سائے کو ابھی بمشکل چھ ماہ ھی ہوئے تھے۔۔۔۔ اس المناک سانحے کا پس منظر کچھ اس طرح ھے کہ کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کے مزدور اپنی اجرتوں میں اضافے اور بونس کی ادائیگی کیلئے مل مالک مغیث اے شیخ سے مطالبہ کر رھے تھے۔ مگر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
مطالبات کے حق میں مزدوروں کے پروگرام ہو رھے تھے کہ مل مالک مغیث اے شیخ کی بیٹی کی شادی ہونا طے پائی۔ مل مالک نے مزدوروں کے خالی پیٹ بچوں کی آہوں اور کراہوں سے بے نیاز ہوکر ان مزدوروں کے خون پسینے سے نچوڑی محنت کے منافعے پر اپنی بیٹی کو دھوم دھام سے رخصت کرنے کا پروگرام بنایا۔ مغیث اے شیخ نے اس شادی میں شرکت کرنے کیلئے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاءالحق کو دعوت دی ۔۔۔۔ کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کے مزدوروں نے ضیاءالحق کی اس شادی میں آمد کے موقع پر اپنی تنخواہوں میں اضافے اور بونس وغیرہ کی ادائیگی کیلئے احتجاج کی کال دی۔۔۔۔۔۔۔
مزدوروں کے اس احتجاج کو ایک طرف مل کے مالک مغیث اے شیخ نے اپنی بیٹی کی شادی کے رنگ میں بھنگ ڈالنے سے تشبیہہ دی تو دوسری طرف مارشل لائی طاقت کے ہاتھوں تازہ تازہ بپھرے ہوئے ڈکٹیٹر ضیاءالحق نے اسے اپنی شان میں گستاخی سمجھا۔۔۔۔ اور پھر ان دونوں دوستوں نے اپنی بیہودہ خباثت اور کمینگی کے تحت مل کے مزدوروں کو سبق سکھانے کی ٹھان لی۔۔۔۔۔۔ اس خونی کھیل رچانے کیلئے مل انتظامیہ نے ایک طرف مل مزدوروں کو ایک جگہ اکٹھا ہو کر مطالبہ پیش کرنے کو کہا اور دوسری طرف مل کے دروازے بند کر کے مزدوروں کے فرار کے سب راستے مسدود کردئیے اور پھر بندوقوں کی فائرنگ سے نہتے مزدوروں کے سینے چھلنی کردئیے۔ مزدور نعرے لگاتے رھے اور باری باری اپنے ساتھیوں کے اوپر گر گر کر لہو کے فوارے چھوڑتی لاشوں میں اضافہ کرتے رھے۔ اور یہ فائرنگ مل انتظامیہ اور سرکاری اہلکاروں کے کلیجے ٹھنڈے ہونے تک جاری رھی۔۔۔۔۔۔۔۔
سرکاری اعلان کیمطابق دو سو سے زائد مزدوروں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ جبکہ مزدور نمائندوں کیمطابق ان شہداء کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ تھی اور زخمی ہونے والے مزدور ان کے علاوہ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضیاء کی ننگی آمریت کو ختم ہوئے تینتس سال ہونے کو ہیں۔ مگر ضیاءالحقی نحوست اب بھی ملکی سیاست، معیشت، معاشرت اور ثقافت پر سایہ فگن ہے۔ اور ضیاءالحقی گماشتے اور سرمائے کے دلال ملک کی تقریباً تمام چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ اس وقت تک ان شہید مزدوروں کو شاید صرف ان لفظوں میں یاد کیا جاتا ھے کہ ” خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا”۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر ان مزدوروں کے حقیقی وارثوں پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں کے دلوں میں اپنے بھائیوں کے گرتی لاشوں کی یاد اب بھی باقی ھے۔ مسئلہ اس یاد کو ضیاءالحقی گماشتے اور سرمائے کے ہر دلال کے خلاف نفرت میں بدلنے کا ھے۔ نفرت کو طبقاتی جدوجہد میں بدلنا ھے۔ اور اس جدوجہد سے سوشلسٹ سویرے کا سورج اگانا ھے۔ ایسا سورج کہ جس کی روشنی میں صدیوں سے لہو نچوڑتے سب چہرے پہچانے جائینگے اور اس روشنی میں نہ صرف ان قاتلوں سے سب محنت کش اپنے ہر قتل، اپنے ہر زخم اور اپنے ہر دکھ کا بدلہ لینگے بلکہ ہر قسم کے ظلم و استحصال سے پاک سماج قائم کرکے اس میں اپنے اپنے مقدر خود اپنے ہاتھوں تحریر کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر