نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گھریلو دانشوروں کا المیہ۔۔۔حیدر جاوید سید

یہ ''حضرات'' اتنے ہی ماہر سیاسیات ہیں تو عملی سیاست کے میدان میں قدم کیوں نہیں رکھتے؟ پی ڈی ایم استعفوں کو آخری آپشن کہتی قرار دیتی ہے، اور یہ پہلا آپشن بنوانے پر بضد ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے کمرشل لبرل، فیس بکی مجاہدین کا بھی کوئی حال نہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی آل پارٹیز کانفرنس اور پی ڈی ایم کے اعلامئے پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور خود سے ڈھمکیری گھڑ لی۔ ”پی ڈی ایم سینیٹ الیکشن سے قبل اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر سینیٹ الیکشن ملتوی کرنے کا پروگرام رکھتی ہے۔ ان سے پوچھئے، پی ڈی ایم نے یہ کب اور کس کو کہا؟ جواب دینے کی بجائے کوسنے دینے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا کہ اپوزیشن کے ارکان اسمبلی 31 دسمبر تک اپنی جماعتوں کے سربراہوں کو استعفے دیدیں گے۔ اس مخلوق نے مندرجہ بالا نکتہ کی تفسیر یہ کی کہ پی ڈی ایم کے ارکان 31 دسمبر تک اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔ پچھلے چند دنوں سے سارے دانشور پیپلزپارٹی کی جان کو آئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کسی میں اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ ان دو شخصیات کا نام لے سے جن میں سے ایک نے سیکرٹری داخلہ کو فون کرکے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نام عارضی طور پر ای سی ایل سے نکال کر انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کی ہدایت کی اور دوسری شخصیت نے آئی جی جیل خانہ جات کو فون کر کے پگارا لیگ کے سیکرٹری محمد علی درانی کی میاں شہباز شریف سے ملاقات کروانے کیلئے کہا۔ لیکن دانش کے موتی رولتے ہوئے یہ صاحبان پیپلزپارٹی پر الزامات اُچھالنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے دکھائی دیں گے۔ آپ دیکھ لیجئے، منگل کے روز پیپلزپارٹی کی سنٹرل کمیٹی کا ابھی اجلاس جاری تھا کہ ذرائع خصوصی خبر نکال لائے۔ پیپلزپارٹی نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ہے اور آصف علی زرداری نے سی اے سی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف وطن واپس آکر جیل جائیں پھر ہم تحریک میں شامل ہوں گے، یہ بھی کہ نواز شریف لانگ مارچ کی قیادت کریں۔
اس ہوائی خبر کو پر لگ گئے اور سوشل میڈیا پر پانی پت کی آٹھویں جنگ شروع ہوگئی۔ حیرانی یہ تھی کہ اچھے بھلے سیاسی شعور کے حامل افراد نے اس ہوائی خبر کی بنیاد پر وہ سب کچھ کہا کہ جو عام زندگی میں کہتے ہوئے تین بار سوچتے ہیں۔ کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں کہ کمرشل لبرل، فیس بکی مجاہدین کو آخر پیپلزپارٹی سے دشمنی کیا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے کچھ سنجیدہ دوست اس ہوائی خبروں کو اپنی دانش کے موتی بنا کر لٹاتے ہیں۔ منگل کی شب سوا نو بجے کے قریب پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے پارٹی اجلاس ختم ہونے پر پریس بریفنگ میں کہا، ہماری پارٹی نے 31 دسمبر تک ارکان اسمبلی کے استعفے پارٹی صدور کے حوالے کر دینے اور 31جنوری تک عمران خان کو مستعفی ہونے کی پی ڈی ایم کی طرف سے دی گئی ڈیڈلائن کی تائید کر دی ہے۔ سینیٹ الیکشن کے حوالے سے ہماری رائے ہے کہ اس میں حصہ لینا چاہئے البتہ حتمی فیصلہ پی ڈی ایم میں اتفاق رائے سے ہوگا۔ منگل کو ہی اسلام آباد میں نون لیگ کا ہنگامہ خیز مشاورتی اجلاس ہوا، حرام ہے کہ کسی کمرشل لبرل، فیس بکی مجاہد نے اس ہنگامہ خیز مشاورتی اجلاس کے حوالے سے ہوائی خبر تو کیا اصلی خبر بھی دی ہو۔
سیاست وصحافت کے ہم ایسے طلباء کی رائے یہ ہے کہ سینیٹ الیکشن کامیدان کسی کی خواہش پر خالی نہیں چھوڑنا چاہئے۔ یہ ”حضرات” اتنے ہی ماہر سیاسیات ہیں تو عملی سیاست کے میدان میں قدم کیوں نہیں رکھتے؟ پی ڈی ایم استعفوں کو آخری آپشن کہتی قرار دیتی ہے، اور یہ پہلا آپشن بنوانے پر بضد ہیں۔ کیا یہ سارا پروپیگنڈہ اور ”جہاد” مالکان اور وفاقی وزارت اطلاعات کا حق خدمت ادا کرنے کیلئے کئے جارہے ہیں؟ کم از کم میرا جواب اثبات میں ہے، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت دونوں صورتحال سے پریشان ہیں۔ پچھلے چار دنوں (جمعہ سے سوموار تک) اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کیلئے نرم گوشہ رکھنے والی بعض شخصیات نے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے رابطہ کیا لیکن دونوں جماعتوں کے ان قائدین (جن سے رابطہ ہوا) نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ یہ پیغام قیادت تک نہیںپنچا سکتے۔ یہ بھی کہا کہ پی ڈی ایم کے فیصلے کی پابندی ہوگی کہ حکومت اور اس کے سرپرستوں سے مذاکرات نہیں کئے جائیں گے اب فیصلہ عوام کریں گے۔ میں ذاتی طور پر مذاکرات کا دروازہ بند کرکے بیٹھ جانے کا ناقد ہوں مگر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں سے ایک نے قبل ازیں مذاکرات کا مزاق اُڑایا اور دوسرے نے سنجیدہ مذاکرات کو ایک بھونڈے شخص کے توسط سے اس طرح پیش کیا جیسے اپوزیشن اس سے خیرات مانگنے گئی تھی۔ ایک اور دلچسپ بات سن لیجئے، مریم نواز سے سوال ہوا کہ ذرائع بتا رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے لانگ مارچ اور استعفوں کو میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط کر دیا ہے؟۔ مریم نواز نے جواب دیا ذرائع کی خبر پیپلزپارٹی کی نہیں ذرائع کی ہے۔ ذرائع کون ہیں یہ آپ بھی جانتے ہیں، سوال کرنے والا مجاہد بالکل شرمندہ نہیں ہوا، ہونا بھی نہیں چاہئے۔ حرف آخر یہ ہے کہ ایک دو دن بعد پی ڈی ایم کا اجلاس ہے، گھریلو دانشور اور رفقا اس اجلاس کا انتظار کرلیں ان کیلئے بڑی اچھی اور مصالے دار خبریں ہوں گی۔

 

یہ بھی پڑھیں:

About The Author