نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قومی ڈائیلاگ مگر کن کے درمیان؟۔۔۔حیدر جاوید سید

بہرطور محترمہ شیریں مزاری نے تو آدھی بات کی لیکن پھر بھی سمجھنے والوں کےلئے اس میں بہت ساری نشانشاں ہیں۔ اب اگر کوئی سمجھنا نہ چاہے تو اس کے لئے دستِ دعا بلند کرنا بے فائدہ ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو تین دن سے سمجھ نہیں آرہی پیپلزپارٹی کونسی ہے، گڑھی خدا بخش والی یا جس کے قصیدے وفاقی وزراء پڑھ رہے ہیں۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ حکمران اتحاد میں پی ٹی آئی،جی ڈی اے، بلوچستان عوامی پارٹی، شیخ رشید، ق لیگ، ایم کیو ایم بہادر آباد، ایک کالعدم تنظیم کے علاوہ ایم ڈبلیو ایم بھی شامل ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کہا یہ جارہا ہے کہ سارے چور تحریک انصاف کیخلاف متحد ہوگئے ہیں۔

سادہ سا فارمولہ ہے، بھٹوز کی نفرت پر مبنی مسلم لیگ(ن) کو زمینی حقائق سمجھنے میں سوا تین عشرے لگے، وقت تحریک انصاف کو اگلے مراحل سے بھی لے گزرے گا۔ ہم آگے بڑھتے ہیں، پچھلے کچھ عرصہ سے مجموعی صورتحال پر جس قومی ڈائیلاگ کی بات ہورہی ہے، یہ ضرورت تو ہے لیکن نفرت اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب شاید ہی کوئی اس کیلئے آمادہ ہو پائے۔

پیر پگاڑا کی مسلم لیگ کے نومولود جنرل سیکرٹری محمد علی درانی نے چند دن قبل لاہور جیل میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف سے ملاقات کی۔ واقفان حال کہہ رہے ہیں کہ صوبائی وزیر جیل خانہ جات نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو بتایا کہ درانی کی شہباز شریف سے ملاقات کیلئے ہوم سیکرٹری یا آئی جی جیل خانہ جات کو کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی تھی بلکہ محمد علی درانی کی شہباز شریف سے ملاقات کروانے کیلئے جیل حکام کو ٹیلیفون پر کہا گیا۔

وزیراعلیٰ نے اپنے ماتحتوں اور آئی جی جیل خانہ جات سے دریافت کروایا فون کس نے کیا تھا۔سبھی چپ ہیں، کوئی بھی ”مالک” کا نام لینے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف احسن اقبال کہتے ہیں قومی ڈائیلاگ کی تجویز انہوں نے سال بھر قبل پیش کی تھی، ان کے بقول پارلیمان، عدلیہ اور جی ایچ کیو کو نئے رولز آف گیم طے کرنے چاہئیں۔

بنیادی سوال جسے انہوں نے نظرانداز کر دیا وہ یہ ہے کہ کیا دستوری طور پر سپریم ادارے پارلیمان کو وزارت انصاف اور وزارت دفاع کے ماتحت آنے والے محکموں سے مذاکرات کرنے چاہئیں یا پارلیمان کو خود جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے دستور کی بالادستی کو بہرصورت یقینی بنانا چاہئے؟

صحافت وسیاست کے اس ادنیٰ طالب علم کی رائے بہرطور یہ ہے کہ قومی ڈائیلاگ پارلیمان اور پارلیمان سے باہر کی سیاسی وقوم پرست جماعتوں کے درمیان ہونے چاہئیں۔ تاریخی، ثقافتی، تہذیبی اور قومیتی بنیادوں پر صوبوں کی ازسرنو تشکیل، قومیتوں کی تاریخی جغرافیائی حدود کو قومی اکائیوں کے طور پر تسلیم کرنے کیساتھ ساتھ مملکت کے تمام اداروں اور محکموں میں قوموں کی مساوی نمائندگی، سینیٹ اور صدارتی انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کروانے، صدر مملکت کا منصب ہر پانچ سال بعد دوسری قوم اکائی کو منتقل کرنے اور دیگر امور پر قانون سازی کی ضرورت ہے۔

یہ قانون سازی قومی ڈائیلاگ میں ہوئے عمرانی معاہدہ کی روشنی میں ہو لیکن اس سے قبل نظریہ سازی اور تجربوں کے شوق سے برأت کا اظہار ضروری ہے۔ نظریہ سازی اور تجربوں کے شوق نے ہمیں بطور مملکت جہاں لاکھڑا کیا ہے یہ کوئی قابل فخر مقام ہرگز نہیں۔ سو دو تین باتیں بہت اہم ہیں، اولاً یہ کہ کھلے دل سے تسلیم کیا جائے کہ پاکستان یک قومی فیڈریشن نہیں تاریخی شناختیں رکھنے والی قومیتوں کی فیڈریشن ہے۔

شدت پسندی کو بڑھاوا دینے والے نظریات پر قائم جماعتوں کے قیام پر پارلیمان پابندی لگائے۔ یہاں ساعت بھر کیلئے رک کر یہ سمجھ لیجئے کہ ”1973ء کا دستور بھی یہ کہتا ہے کہ سماجی وحدت کے منافی شدت پسندی کی ترویج کیلئے تنظیم سازی کی اجازت نہیں ہوگی” اس امر کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دستور کے اس واضع اعلان کے باوجود آخر کیوں منافرتوں کا کاروبار کرنے والی تنظیمیں معرض وجود میں آئیں اور ”کس کس” نے ان کی سرپرستی کی۔

یہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ جب تک تاریخی شناختوں کی حامل قومیتوں کے درمیان قومی ڈائیلاگ نہیں ہوتا مصنوعی پن سے نجات نہیں مل سکتی۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی ایک قومی پارلیمانی ڈائیلاگ کمیٹی بنائی جائے، جو بڑی سیاسی جماعتوں کیساتھ ساتھ غیرپارلیمانی سیاسی وقوم پرست جماعتوں سے ڈائیلاگ کرے اور اس ڈائیلاگ میں طے پانے والے امور کو دستوری تحفظ دیا جائے۔ عین ممکن ہے آپ یا کوئی اور اس رائے پر حیران ہوں لیکن اگر آپ معروضی حالات ومسائل کیساتھ دیگر معاملات کا جائزہ لیں تو یہ امر روز روشن کی طرح دوچند ہو جائے گا کہ جب تک زمینی حقائق کی روشنی میں قومی ڈائیلاگ کی شروعات نہیں ہوگی ابہام اور تحفظات رہیں گے۔

ہماری پارلیمان اور ملکی سطح کی سیاسی جماعتیں اس تلخ حقیقت کو مسلسل نظرانداز کر رہے ہیں کہ پارلیمان ہر گزرنے والے دن کیساتھ غیرمؤثر ہوتی جارہی ہے، اس کی وجہ سے وفاق اور اکائیوں کے درمیان بداعتمادی بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف قوموں کی تاریخی، تہذیبی شناخت اور فیڈریشن میں مساوی حقوق سے انحراف کی روش سے انگنت مسائل پیدا ہوئے اور ان کی سنگینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا ان حقائق کو نظرانداز کر کے آگے بڑھا جا سکتا ہے؟ ہماری دانست میں تو ایسا ممکن نہیں، حرف آخر یہ ہے کہ حقیقی معنوں میں قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے یہ کن کے درمیان ہونا چاہئے بالائی سطور میں تفصیل کیساتھ عرض کر دیا ہے ہمارے بس میں تو فقط یہی ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

About The Author