دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

داد بھی پاتے ہیں۔۔۔رؤف کلاسرا

کالج سے یونیورسٹی دور تک دیکھا کہ ان سیاسی جماعتوں کے سٹوڈنٹ ونگز ہوتے تھے جو اپنے اپنے نظریات پر قائم تھے۔ پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ‘ جمعیت علمائے اسلام‘ اے این ایف‘ بلیک ایگلز یہ سب اپنے اپنے نظریات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیران ہوتا ہوں کہ آج مجھے الیکشن میں ووٹ ڈالنا پڑے تو کیا کوئی ایسی پارٹی بچ گئی ہے جس کے بارے میں کہہ سکوں کہ اس کی آئیڈیالوجی ہے‘ اس کا کردار ہے اور یہ دوسروں سے مختلف ہے‘ اس کا اپنا نظریہ ہے اور یہ ان نظریات پر سودا کرنے کو تیار نہیں۔

کالج سے یونیورسٹی دور تک دیکھا کہ ان سیاسی جماعتوں کے سٹوڈنٹ ونگز ہوتے تھے جو اپنے اپنے نظریات پر قائم تھے۔ پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ‘ جمعیت علمائے اسلام‘ اے این ایف‘ بلیک ایگلز یہ سب اپنے اپنے نظریات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔

ہمارے جیسے طالب علموں کیلئے بڑا آسان تھا کہ ہم خود کو رائٹ یا لیفٹ پر کہاں ایزی محسوس کرتے ہیں اور کس گروپ کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا یا ان کی میٹنگز اٹینڈ کرنا ہمیں اچھا لگتا تھا۔ جیسے بھی تھے 80ء اور 90 ء کے عشرے اس حوالے سے تو بہتر تھے کہ لوگ ابھی اپنے اپنے نظریات اور سیاسی خیالات پر زندگیاں گزار رہے تھے۔ انہیں اپنی سیاسی جماعتوں سے کوئی مالی فوائد نہیں چاہئیں تھ

ے۔سیاسی ورکرز محض اُن نظریات کیلئے جیل جانے اور سزائیں بھگتنے کو تیار تھا جسے وہ درست سمجھتا تھا۔ مجھے یاد ہے میرا کروڑ لیہ کا مرحوم دوست بندو خان پیپلز پارٹی کا جیالا تھا اور کہیں بھی‘ پاکستان کے کسی کونے میں جلسہ جلوس ہوتا تووہ اپنا ہوٹل بند کر کے وہاں پہنچ جاتا۔ سار سال جو کماتا وہ کرایوں پر خرچ کردیتا۔ پہلے ہوٹل بند ہوا اور پھر بندو خان رُل گیا‘اس کے بچے بھی رُل گئے لیکن بندو خان مرتے دم تک پارٹی کے ساتھ بندھا رہا۔

اسی طرح مجھے یاد ہے کہ لیہ کالج میں میرا کلاس فیلو اور روم میٹ کبریا خان ہمیں گھنٹوں پیپلز پارٹی کے فوائد پر لیکچر دیتا تھا‘جبکہ ہمارا ایک اور روم میٹ ضیا الحق اور مسلم لیگ کا دیوانہ تھا۔ ذوالفقار سرگانی اور میں اپنے ان روم میٹس کی باتیں سنتے اور آخر میں ذوالفقار سرگانی اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے مجھے کہتا :کرنے دے ان دونوں کو بحث‘ ہمیں ان سے کیا لینا دینا ہے‘ مہرصاحب۔

لیہ کالج میں الیکشن ہوئے تو پی ایس ایف اور ایم ایس ایف میں بڑا دنگل پڑا۔ ہمارا اپنا یار جاوید بلوچ بھی اس چکر میں ایک سال الیکشن جیت گیا۔اب مڑ کر دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ ہم واقعی سٹوڈنٹ لائف میں کچھ نظریات رکھتے تھے اور ان پر اچھے برے کا فیصلہ کرتے تھے۔

لیہ کالج اور ملتان یونیورسٹی کے ہوسٹلز میں کینٹین پر بیٹھ کر رات گئے ان نظریات پر گھنٹوں دوست بحث کرتے تھے۔آج اُن دنوں کو مِس کرتا ہوں جب ہم کسی کے نظریاتی مخالف تھے تو کوئی ہمارا مخالف تھا۔ کبھی سوچتا ہوں کہ بہتر ہوتا کہ ضیا الحق اور پرویز مشرف کے مارشل لا جاری رہتے‘ کم از کم ان لوگوں کا بھرم تو ہم پر قائم رہتا جنہیں ہم سیاستدان مانتے تھے‘ جن کی عزت کرتے تھے کہ یہ لوگ اور پارٹیاں زندگی میں کسی نظریے اور سوچ کیلئے کھڑے تھے۔جو لوگ بینظیر بھٹو کی 1986 ء میں وطن واپسی پر خوشی اور جوش سے بے حال تھے وہ دھیرے دھیرے مایوس ہوتے چلے گئے۔

رہی سہی کسر زرداری صاحب نے نکال دی جن کا خیال تھا کہ جو کچھ ہے وہ پیسہ ہے‘ نظریات‘ اصول اور عزتِ نفس یہ سب ناکام لوگوں کے بہانے ہیں‘ کامیاب لوگ بھلا کب ان صفات کو اپنی راہ میں حائل ہونے دیتے ہیں۔ زرداری ماڈل نے سب کا بیڑا غرق کیا۔ مفاہمت کے نام پر سب مل بیٹھے اور پھر سب نے مل کر بانٹنا شروع کیا۔ وہ سیاسی ورکر جو بھٹو کے نام پر خودسوزی کرتے تھے‘ شاہی قلعہ میں جوانیاں تباہ کرتے تھے وہ بھی اسی چکر میں پڑ گئے کہ اس دیگ میں ہمارا کتنا حصہ ہے اور ہمیں کیا ملے گا؟

شریف خاندان پہلے ہی سیاست میں کرپشن متعارف کرا چکا تھا۔ 1985 ء کے غیرجماعتی انتخابات نے ملک کا بیڑا غرق کیا‘ رہی سہی کسر بینظیر بھٹو اور دیگر سیاسی جماعتوں کے الیکشن بائیکاٹ نے پوری کر دی۔ یوں کونسلر لیول کی قیادت اسمبلیوں میں جا پہنچی۔ اللہ بھلا کرے ڈاکٹر محبوب الحق کا جس نے ان کونسلر لیول کے سیاستدانوں کو ترقیاتی فنڈز پر لگایا اور پھر ہر ایک کی چونچ گیلی ہونے لگی اور یوں کمیشن کا سسٹم سامنے آیا‘ نظریات کی موت ہوئی اور پھر ہر قیمت پر اقتدار میں جانا ہی مقصد ٹھہرا چاہے خاندان کی عزت خاک میں مل جائے۔

اس سوچ کے اثرات ہر جگہ پہنچے اور ہر شعبۂ زندگی ان نظریات اور اصولوں کو بکواس سمجھنے لگا۔ ایک دوڑ لگ گئی۔ نواز شریف نے وزیراعلیٰ بننے کیلئے اے ایس آئی اور نائب تحصیلدار کی نوکریاں ایم پی ایز کو دیں جنہوں نے دو دو لاکھ میں آگے بیچ دیں تو مرکز میں بینظیر بھٹو نے ایم این ایز کو پی آئی اے‘ او جی ڈی سی اور دیگر نوکریاں دیں تاکہ وہ بھی اپنا خرچہ پورا کریں۔

شروع میں بینظیر بھٹو ان کاموں سے دور تھیں لیکن پھر زرداری نے کرشمہ دکھایا اورسرے محل خرید لیا‘ سوئس بینکوں میں بھی چھ ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ دبئی کے محلات کی بات نہ کریں۔اب پیسہ ہی سب کا دین‘ ایمان تھا۔ اقتدار اور سیاست کا مقصد اب کمزور طبقات کی خدمت نہ تھا بلکہ خاندانوں کی دولت ہی مقصد ٹھہرا۔ پھر کسی نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اور تو اور محمود خان اچکزئی جیسا بندہ بھی اسی اقتدار کی گھنائونی دلدل میں پھنسا اور ہمارا سیاستدانوں سے جڑا آخری رومانس بھی اپنی موت مرگیا۔

پرویز مشرف نے ‘کرپشن کے خلاف تحریک‘ کے نام پر کرپشن کو اگلے لیول تک پہنچایا۔ ہر کرپٹ کو ڈیل دی گئی اور اسے حکومت میں شامل کیا گیا۔ نیا قانون لایا گیا کہ آپ نے ایک ارب لوٹ لیا ہے تو بیس کروڑ دے کر گھر جائو‘ اسی کروڑ روپے سے عیاشی کرو۔

یوں کرپٹ اور کرپشن جو کبھی برے سمجھے جاتے تھے پرویز مشرف دور میں یہ فرق بھی مٹ گیا۔ اب کرپٹ بھی وکٹری کا نشان بناتے جیل جاتے اور فاتح کی طرح باہر آتے۔ٹی وی اینکرز بھی ان سب لوگوں کے آگے بچھ گئے جو بڑے سکینڈلز میں ملوث تھے۔

ایک دن جیل سے چھوٹا اور اگلے دن قوم کو بھاشن شروع۔ ساتھ ہی پوری قوم کو یہ سمجھانا شروع کردیا گیا کہ بغیر کرپشن نہ سیاست ہوسکتی ہے نہ جمہوریت بچ پائے گی۔ یوں عوام کی برین واشنگ کی گئی کہ کرپشن اور کرپٹ اس معاشرے اور ملک کیلئے کتنے اہم ہیں۔ اس معاملے میں ہمارے ٹی وی اینکرز نے بھی خوب کردار ادا کیا اور آخرکار قوم کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔ نہ کوئی نظریہ اہم رہا‘ نہ کوئی اصول‘ نہ عزت ِنفس‘نہ ہی کردار۔

اب آپ ٹی وی آن کریں تو ایک ہی بات سننے کو ملے گی کہ تم کرپٹ ہو تو وہ کہے گا تم بھی تو کرپٹ ہو اور اینکر کہے گا کہ جناب بغیر کرپشن کوئی جمہوریت نہیں چلتی۔کل تک ایک دوسرے کو کرپٹ کہنے والے ایک ہوگئے ہیں کہ جمہوریت کا حُسن ہے۔ عمران خان بھی اس رنگ میں رنگے گئے۔ جن کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے انہی کے ساتھ مل گئے۔کمال ہے ضیااور بھٹو کے سیاسی وارث آج اکٹھے ہوگئے ہیں۔

کل کو انہیں ایک دوسرے کے خلاف پھر الیکشن لڑنا ہوگا تو دیکھئے گا کیسے سرعام ایک دوسرے کا حشر کریں گے‘ جیسے ماضی میں چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد کیا تھا۔

ایک حسن تھا‘ ایک سیاسی رومانس تھا کہ ہماری پارٹیاں نظریے اور اصول پر زندہ تھیں‘ لیکن صرف دس سال کے اندر پتا چلا کہ نمک کی کان میں سب نمک بن گئے ہیں‘ اب ان کے چہرے پہنچانا ناممکن ہوگیا ہے۔ دولت اور اقتدار کی ہوس نے کردار چھینا سو چھینا‘ ساتھ میں عزتِ نفس بھی چھین لی اور دکھ یہ ہے کہ کسی کو اس زیاں کا احساس نہیں۔

یہ سب باری باری ایک دن ایک دوسرے کو ننگا کرتے ہیں اور اگلے دن اسے جمہوریت کا حسن قرار دے کر ایک دوسرے کو وہی گندے کپڑے جھاڑ پونچھ کر پہننا دیتے ہیں اور ہم سے داد بھی پاتے ہیں

یہ بھی پڑھیے:

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

About The Author