دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیویں ساکوں یاد نہ رہسی…۔۔۔رؤف کلاسرا

ملتان سے آپ جان نہیں چھڑا سکتے۔ یہ آپ کے اندر دور تک بستا ہے۔ ملتان کے دوستوں کی محبت نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ کہیں سے کسی بھی رسی میں لچک پیدا نہیں ہوتی کہ بندہ خود کو ان بندھنوں سے آزاد کر لے۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

دسمبر میں دو دفعہ ملتان جانا پڑا۔
ملتان سے آپ جان نہیں چھڑا سکتے۔ یہ آپ کے اندر دور تک بستا ہے۔ ملتان کے دوستوں کی محبت نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ کہیں سے کسی بھی رسی میں لچک پیدا نہیں ہوتی کہ بندہ خود کو ان بندھنوں سے آزاد کر لے۔
ویسے بعض بندھن اور رسیاں ایسی ہوتی ہیں کہ بندے کا دل چاہتا ہے کہ عمر بھر جکڑا رہے۔ ملتان وہی رسی ہے جس سے بندھا ہوا ہوں۔
پہلے علی شیخ کی بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ ملا تو اس شہزادی کی طرح پہلے ہنس اور پھر رو پڑا جس نے برسوں ایک جن کی قید میں رہنے کے بعد ایک آدم زاد کو دیکھا تھا۔ آدم زاد نے پوچھا: ہنسی کیوں اور روئی کیوں؟ بولی: مدت بعد کسی آدم زادے کو دیکھا ہے اس لیے ہنس پڑی‘ روئی اس لیے کہ وہ جن آپ کو ابھی آکر کھا جائے گا۔ میں بھی علی شیخ کی بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ دیکھ کر ہنساکہ چلیں ملتانی دوستوں سے مل بیٹھیں گے۔ وہی پرانے یارِ غار جمشید رضوانی، طاہر ندیم، سجاد جہانیہ، انجم کاظمی، ریاض گمب، فیاض انور، شعیب رضوانی، ناصر شیخ سے محفل جم جائے گی۔ علی شیخ سے بھی دو دو ہاتھ ہو جائیں گے۔ ہمارے درویش باقر شاہ جی اور چوہدری نیاز کا ملتان۔
پھر خیال آیا کورونا کے دن ہیں‘ گھر سے نکلنا ہی مشکل ہوگا۔ بڑے بیٹے نے کہا: بابا آپ کے دوست کچھ ماہ بعد بچوں کی شادی نہیں کرسکتے تھے؟ اس نے ایک لمبا چوڑا لیکچر دیا۔ میں نے سب سن لیا اور کہا: بیٹا جی‘ علی اس وقت کا دوست ہے جب آپ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ علی شیخ نے ملتان میں تمہارے باپ کا بڑا خیال رکھا۔ وہاں میرا ٹھکانہ یارِ غار شکیل انجم کے گھر ہوتا ہے۔ اس کے گھر کا ایک کمرہ میرے لیے مختص ہے۔ وہیں شکیل بے چارہ میری خدمت کرتا رہے گا۔ یوں لگے گا کسی فائیو سٹار ہوٹل میں ہوں۔
ملتان میں تھا تو بڑا دل کیا‘ ذوالکفل بخاری مرحوم کے بچوں سے ملا جائے۔ خالد مسعود کو فون کیا تو بولے: کفیل بخاری کو بتا دیا تھا‘ طے ہوا تھا ناشتہ ان کے گھر ہوگا۔ جیسا ناشتے کا اہتمام ذوالکفل بخاری اور کفیل کے گھر ہوتا تھا (اب بھی ہوتا ہوگا) وہ پھر زندگی میں کہیں دیکھنے کو نہ ملا۔ کمال کے میزبان اور ناشتے میں چھپی ہوئی محبت اور مروت۔ ذوالکفل بخاری سے دوستی بھی عجیب انداز میں ہوئی تھی۔ مختار پارس ایک شام مجھے یہ کہہ کر ان کے گھر لے گیا کہ بڑی شاندار محفل ہے‘ عطااللہ شاہ بخاری کا نواسہ ہے‘ ذرا زبان کو قابو میں رکھنا‘ میزبانی سے لطف اندوز ہوں گے۔ پارس گھنٹہ بھر اس گھرانے کا تعارف کراتا رہا۔ جب وہاں پہنچے تو ایک باریش نوجوان سے سامنا ہوا۔ وہاں سب ہی باریش تھے۔ پارس اس نوجوان کا تعارف کرا چکا تو میں نے دھیمے لہجے میں سرائیکی میں ایک بے ضرر سی گالی اسے دی۔ نوجوان نے مجھے جواباً دی۔ پارس ہکا بکا کہ یہ کیا چل رہا ہے۔ اس نوجوان نے اپنی عینک کے شیشوں سے اپنی ذہانت بھری گہری آنکھوں سے مجھے دیکھا اور مسکرا کر پارس کو کہا: تم ایک طرف ہو جائو۔ ہم دونوں گلے لگے‘ یوں ایک طویل دوستی کا تعلق شروع ہوا۔ سب دوست حیران کہ ذوالکفل جیسا بندہ رئوف ساتھ ایسی زبان میں گپ مارتا ہے۔ یہ وہ راز تھا جو دوست کبھی نہ سمجھ پائے۔
ذوالکفل کے والد صاحب سے ملا تو زندگی میں پہلی بار پتا چلا نورانی چہرہ کسے کہتے ہیں۔ پورا گھرانہ ہی مروت اور محبت سے لبریز۔ ذوالکفل کی اچانک وفات پر ملتان جا کر تعزیت کی تو کفیل نے اس کے بچوں سے ملایا۔ پیارے پیارے چھوٹے بچے‘ باپ کی طرح ذہین آنکھوں کے مالک‘ میرے سامنے کھڑے تھے۔ آنکھیں بھر آئیں۔ انہیں گلے لگایا۔ ان کے مرحوم باپ کی خوشبو ان میں محسوس کی۔ میرا دل مچل گیاکہ ملتان جا رہا ہوں تو ذوالکفل کے گھر چکر لگائوں۔ اس کے بچے اب بڑے ہوگئے ہوں گے۔ کفیل بخاری سے ملے مدتیں گزر گئیں۔ اس گھر کے درودیوار دیکھے عرصہ ہوا جہاں کبھی دوپہریں اور شامیں گزرتی تھیں۔ جہاں ذوالکفل ان دنوں چپکے سے مجھے رات کو فون کراتا تھا اور پھر ہر پانچ منٹ بعد آ کر دور سے ہاتھ جوڑتا کہ اب بند کر دو ورنہ گھر والے اگلے ماہ بل دیکھ کر شک کریں گے کہ ان کا نمازی پرہیزی بیٹا رات گئے اتنی لمبی کالیں کس کو کرتا ہے۔
خالد مسعود کم ہی ملتان پایا جاتا ہے۔ وہ ملتان کا مارکو پولو ہے جو ہر وقت پاکستان سے باہر ملے گا۔ کبھی کبھار ملتان کے دورے پر آجاتا ہے۔ یہ تو موصوف کورونا کے سبب بندھے بیٹھے ہیں۔ طے ہوا شاکر حسین شاکر کے ہاں اکٹھے ہوتے ہیں۔ شاکر جیسا ادب اور ادیب نواز دوست ملتان کی شان ہے۔ یونیورسٹی دور میں ان سے ناول خریدتے، ادھار پہ کہ اگلے ماہ پیسے دیں گے۔ اگلے ماہ پھر ادھارلیکن مجال ہے ان کے ماتھے پر کبھی بل پڑا ہو۔ اسلام آباد شفٹ ہوئے تو بھی بہت ادھار رہتا تھا۔ نہ انہوں نے کبھی مانگا نہ میں نے ادا کرنے کی کوشش کی۔ ہر ادھار ہی محبت کی قینچی نہیں ہوتا۔
دل چاہ رہا تھا‘ سرائیکی کے بڑے شاعر رفعت عباس سے ملا جائے۔ خالد مسعود رفعت عباس کو ڈھونڈ لایا اور پھر ایک کیفے پر بیٹھ کر وہ محفل جمی کہ برسوں یاد رہے۔ رفعت عباس کو بتایا کہ مجھے زندگی میں جو تیں شعر پورے اور زبانی یاد ہیں ان میں سے دو ان کے ہیں اور ایک ظفر اقبال صاحب کا ہے‘ بلکہ یاد آیا‘ جب زکریا یونیورسٹی میں داخلہ ہوا اور گیٹ ٹو گیدر ہوئی تو سب کو کہا گیا کوئی بات کوئی لطیفہ یا شعر سنائو تو میں نے رفعت عباس کا شعر سنایا تھا کیونکہ مجھے اس وقت ایک ہی شعر زبانی یاد تھا اور ان تیس برسوں میں ایک اور شعر یاد ہوا ہے۔ اور وہ بھی رفعت کا ہے:
کیویں ساکوں یاد نہ رہسی تیڈے گھر دا رستہ
ڈو تاں سارے جنگل آسن ترائے تاں سارے دریا
رفعت عباس ایک ملنگ اور درویش انسان ہے اور اپنے نظریات میں اتنا سچا اور کھرا شاعر کہ آپ کو حیرت ہو کہ پاکستان اور سرائیکی دھرتی میں ایسے سپوت بھی پائے جاتے ہیں۔ رفعت عباس کے لئے چند برس پہلے لاہور کے ایک سرکاری ادارے‘ جو پنجابی ادیبوں اور شاعروں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں نقد انعام اورعزت سے نوازتا ہے، کی طرف سے تین لاکھ روپے انعام اور ایوارڈ کا اعلان ہوا۔ رفعت عباس نے وہ ایوارڈ اور انعام لینے سے انکار کر دیاکہ وہ خود کو پنجابی نہیں سرائیکی شاعر سمجھتا ہے۔ سب نے سمجھایا کہ انعام مل رہا ہے تو لے لیں‘ لیکن نہ مانے۔
اب پتہ چلا ہے کہ رفعت عباس نے ایک سرائیکی ناول لکھا ہے ”لون دی جاگیر‘‘۔ میں نے کہا: کمال ہوگیا‘ سرائیکی شاعری تو عروج پہ ہے اب سرائیکی نثر اور ناول نگاری کی طرف توجہ کی ضرورت تھی۔ رفعت نے ناول پیش کیا تو دل مچل گیا کہ وہ اس کا ایک باب ہمیں پڑھ کر سنائیں۔ انہوں نے ایک باب اس انداز میں سنایاکہ وہاں موجود سب دوست اش اش کر اٹھے۔ میں نے کہا: آپ اس ناول کو اپنی زبان میں آڈیو ریکارڈ کرائیں اور یوٹیوب پر چڑھا دیں۔ اس ناول کی جو چَس آپ کی زبان سے سن کر آ رہی ہے وہ پڑھتے وقت اور ہوگی۔ پھر جو سرائیکی نہیں پڑھ سکتے ان کے لیے تحفہ ہوگا اور پوری دنیا میں اس ناول کو انجوائے کیا جائے گا۔ جمشید رضوانی نے فوراً کہا: وہ اس پروجیکٹ کے لیے حاضر ہے۔ رفعت سائیں تیار ہوگئے۔
اب خالد مسعود ہو اور محفل بور ہو‘ یہ ممکن ہی نہیں۔ وہ ہر قسمی گفتگو کرسکتا ہے اور ایسی کہ ہر بات میں لاجواب کر دے۔ رفعت کے ناول کا باب سننے کے بعدان کی مشہور زمانہ پنجابی شاعری کا دور چلا۔ واپس چلنے لگے تو مجھے کہا: حضرت صاحب، رفعت عباس کا دوسرا شعر جو آپ نے تیس سال کی محنت اور ریاضت کے بعد زبانی یاد کیا ہے وہ بھی ذرا سناتے جائیں۔
اساں تاں پہلے ڈیہنہ دے رفعت جیویں ہاسے ہاسے
کینجھا ہک او سوہنڑا بندہ نال اساڈے رلیا

یہ بھی پڑھیے:

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

About The Author