ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راولپنڈی بھٹو خاندان کے لیے کسی کربلا سے کم نہیں ہے۔اسی شہرمیں 4اپریل 1979 کو ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دی گئی اوران کے تابوت کو گڑھی خدا بخش روانہ کیا گیا اور اسی شہر کے لیاقت باغ میں ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو ایک قاتلانہ حملہ میں شہید کردیا گیا اور ان کے جسد خاکی کو گڑھی خدا بخش روانہ کیا گیا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ضیاالحق کا عہد آمریت ہویا پھر مشرف کا نیم مارشل لا کا دور حکومت ہو ان ادوار میں جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں بھٹو خاندان نے ہی دی ہیں۔6افراد پر مشتمل بھٹو خاندان کے سربراہ کو پھانسی دی گی ،27 سالہ شاہ نواز بھٹو کی پراسرار حالات میں زندگی کا خاتمہ ہوا ، 42 سالہ میر مرتضیٰ بھٹو کو نامعلوم افراد نے قتل کردیا۔
میرمرتضیٰ کے قتل کے بعد بیگم نصرت بھٹو دنیا سے لاتعلق ہوگئیں اور اسی حالت میں چل بسیں۔ایک بیٹی صنم بھٹو اس لیئے زندہ ہیں کہ اُن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پاکستان کی سیاست اور اس کی اسٹیبلشمنٹ سے بھٹوز کا عجیب وغریب رشتہ رہا ہے ۔جب ملک کو سنبھالنے کی ضرورت پڑی تو ناچاہتے ہوئے بھی اقتدار بھٹوز کے سپرد کردیا جاتا رہا اور جب ضرورت پوری ہو گئی تو الزامات لگا کراقتدار چھین لیا گیا مگر اس سب کے باوجود بھٹوز کا پاکستان کی عوام سے نا ختم ہونے والا رومانس جاری رہا۔
اور یہ کوئی یکطرفہ محبت نہیں تھی بلکہ پاکستان کی عوام نے بھی بھٹو خاندان سے اپنی محبت کی مثالیں قائم کیں۔10 اپریل 1986 کو جب محترمہ واشنگٹن سے لاہور پہنچیں توپاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا استقبال کیا گیا اور اپنے ہی ریکارڈ کو محترمہ نے اس وقت خود توڑا جب وہ 18 اکتوبر 2007 کو کراچی ائیرپورٹ پر اتریں تو ان کے استقبال کے لیے بھٹو کے فلسفہ پر یقین رکھنے والے لاکھوں لوگ کراچی کی سڑکوں پر موجود تھے۔
یہ وہ تھے جن کو یقین تھا کہ بھٹو کی بیٹی ان کے حقوق کی جنگ لڑے گی۔اس جنگ میں وہ محترمہ کے ساتھی بن کر میدان میں اترے تھے۔یہ لوگ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرچکے تھے۔ان کو یقین تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ہی اپنے والد کے مشن کو پورا کرے گی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی پیاری صاحبزادی بے نظیر بھٹو جس کو وہ پیار سے پنکی پکارتے تھے کی سالگرہ پرجیل سے آخری خط لکھا جس میں انہوں نے جمہوریت کی بحالی کی جنگ کا پرچم سپرد کرتے ہوے کہا کہ ”زندگی محبت کاملہ ہے۔نیچر کی ہر خوبصورتی کے ساتھ اظہار عشق کیا جاتا ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی پس وپیش نہیں ہے کہ میرا سب سے زیادہ جذباتی عشق اور جذبات کو تیز یاجسم میں جھرجھری پیدا کردینے والا رومانس عوام کے ساتھ رہا ہے۔سیاست اور عوام کے درمیان کبھی نہ ختم ہونے والی شادی ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ”آدمی ایک سیاسی جانور ہے“اور ریاست یا مملکت ایک سیاسی تھیٹر ہے،میں بیس سال سے زائد ہنگامہ خیز سالوں سے سٹیج پر رہا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ مجھے اب بھی کوئی رول ادا کرنا ہے۔
لوگ اب بھی چاہتے ہیں کہ میں سیاست کے سٹیج پر موجود رہوں۔لیکن اگر مجبورا مجھے اس سٹیج سے علیحدہ ہونا پڑا تو میں تمہیں اپنے احساسات کا تحفہ دیتا ہوں۔میرے مقابلہ میں تم زیادہ بہتر طورپر یہ جنگ لڑسکو گی۔تمہاری تقاریر میری تقاریر کے مقابلہ میں زیادہ فصیح وبلیغ ہوں گی۔عوام کے ساتھ تمہاری وابستگی مکمل ہوگی۔تمہاری جدوجہد میں زیادہ توانائی اور جوانی کا جوش ہوگا۔تمہارے اقدامات زیادہ جرات مندانہ ہوں گے۔میں اس انتہائی مقدس مشن کی برکتیں تمہیں منتقل کرتا ہوں۔صرف یہی تحفہ میں تمہیں تمہاری پیدائش کی سالگرہ پر دے سکتا ہوں۔
مشرقی بیٹی نے والد کی طرف سے دئیے گئے تحفے کو سینے سے لگا کر رکھا اور اپنے والد کے خوابوں کو سچ کرنے کے لیے جدوجہد شروع کردی۔یہی وجہ ہے کہ والد کی شہادت کے وقت 24 سالہ بے نظیر بھٹو نے آئندہ کی تین دہائیاں عوام کے حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گذار دیں۔
دو بار اقتدار حاصل کیا تاہم مجموعی مدت اقتدار 4 سال اور چند ماہ رہی اور جمہوری حکومت سے ہر بار اقتدار غیر جمہوری انداز میں چھین لیا گیا۔سلسلہ یہاں پر نہیں رکا بلکہ 18اکتوبر کو سانحہ کارساز میں جان لینے کی کوشش کی گئی۔
تاہم 140 جانثاران بے نظیر نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔تاہم 27 دسمبر کو یہ کوشش کامیاب ہوئی اور چاروں صوبوں کی زنجیر اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گی ۔ محترمہ کو گڑھی خدا بخش میں سپرد خاک کردیا گیا۔
یہ وہ قبرستان ہے جس کے متعلق محترمہ بے نظیر بھٹو لکھتی ہیں کہ میرے والد اس سرزمین پر مجھے اس وقت لائے جب میں 1969میں پاکستان سے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخل ہونے کے لئے جانے والی تھی۔”تم دور دراز جگہ پر امریکہ میں جارہی ہو“میرے والد نے یہ بات اس وقت کہی جب ہم اپنے آبائی قبرستان میں کھڑے تھے۔
”تم متعدد حیرت انگیز چیزیں دیکھو گی اور ایسی ایسی جگہوں تک سفر کرو گی جو تم نے پہلے کبھی سنی تک نہیں۔لیکن یاد رکھو زندگی میں جن واقعات سے بھی واسطہ پڑے آخر کار تمہیں واپس یہیں آنا ہے تمہاری جگہ یہی ہے۔تمہاری جڑیں یہاں ہیں۔لاڑکانہ کی مٹی، گرد اور گرمی تمہاری ہڈیوں میں موجود ہے اور یہی جگہ ہے جہاں تمہیں دفن بھی ہونا ہے۔
27دسمبر 2007کو محترمہ کی شہادت کے بعد ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ایسے حالات میں عوامی غیض وغضب اپنے عروج پر تھا اور کچھ بھی خلاف توقع ہوسکتا تھا تو ان حالات میں پیپلزپارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ایک بارپھر پارٹی کی ملک سے بے لوث محبت کا ثبوت دے دیا۔
اتنی قربانیوں کے باوجود بھی بھٹوز کا پاکستان اور اس کی عوام سے رومانس ختم نہیں ہوا۔اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے نانا کا دیا ہواپرچم سنبھالا ہوا ہے اور عکس بے نظیر آصفہ بھٹو زرداری اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوے جمہوریت اور انسانی حقوق کے حصول کے لیئے میدان عمل میں آ چکی ہیں۔
حرف آخر یہ کہ بھٹو کا قافلہ رکا نہیں ، بھٹو کا قافلہ تھما نہیں۔جمہوریت کے لیے کی جانے والی یہ بے نظیر جدوجہد کل بھی جاری تھی اور آج بھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک خلق خدا کا راج قائم نہیں ہوجاتا۔
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر