مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

27دسمبر۔غیرمتوازن پاکستان اور سوہانا کے خواب۔۔۔رازش لیاقت پوری

ایک سٹوری کے سلسلے میں ان کے گاوں جانے کااتفاق ھواتو راستے میں گلی میں موجود یہ بچی دوسرے بچوں سے منفرد لگی تو اس سے بات کرنے کودل چاہا۔معلوم کرنے پر پتاچلاکہ وہ کراچی میں چوتھی کلاس میں پڑھتی ھے

رازش لیاقت پوری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوہانا جمالدین والی کے قریب رونتی کی ایک بستی کے غریب ماچھی کی نواسی ھے۔کئی سال سے کراچی میں اپنے مزدور والدین کے ساتھ رہتی ھے۔آج کل چھٹیاں گزارنے وسیب آئی ھوئی ھے۔

ایک سٹوری کے سلسلے میں ان کے گاوں جانے کااتفاق ھواتو راستے میں گلی میں موجود یہ بچی دوسرے بچوں سے منفرد لگی تو اس سے بات کرنے کودل چاہا۔معلوم کرنے پر پتاچلاکہ وہ کراچی میں چوتھی کلاس میں پڑھتی ھے۔

بڑی ھوکرڈاکٹر بننے کی خواہش بتائی تومیری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں سوچنے لگا کہ کراچی کی ایک”ماسی "کی بیٹی کیسے ڈاکٹر بنے گی؟پوچھا ڈاکٹر کیوں بننا چاہتی ھوتو توبتانے لگی۔

سب لوگوں کی خدمت کروں گی۔معصوم بچی کے یہ الفاظ سن کردل مزید اداس ھوگیااور مجھے وسیب سمیت پاکستان بھر کے وہ لوگ یاد آنے لگے جوتمام ملکی وسائل پرقابض ہیں جس کی وجہ سے سوہانا ایسی بچیوں کے خواب خواب ہی رہ جاتے ہیں۔مجھے اپنے علاقے کے جاگیردار بھی یاد آنے لگے جن کی جاگیریں اتنی زیادہ ہیں کہ صبح سے نکلیں توشام تک ختم ہی نہیں ھوں گی

مگر ان کے اکثر ہمسائے دوگز زمین کے لئے بھی ترستے مرجاتے ہیں۔جیسے اس بچی کے نانانانی کسی اور کی عطاءکردہ زمین میں گھربنائے زندگی کے دن پورے کررھے ھیں۔جیسے جیسے سوہانابولتی جارہی تھیں ویسے ویسےمیں سوچ کی پنجندنہر میں ڈبکیاں کھاتے بہت دور جاچکاتھا۔کہ کیسے اس نہر کے میٹھے پانیوں سے فصلیں توتیار ہوتی ہیں مگر یہاں کے غریبوں کے پیٹ خالی رہتے ہیں۔

اپنے پیٹ کادوزخ بھرنے کے لئے کبھی انہیں بلوچستان توکبھی سندھ جاکرمرنا بھی پڑتا ھے۔شاکر شجاع آبادی کا یہ شعر بہت یاد آرھا ھے۔

کہیں دے کتے کھیرپیون۔کہیں دے بچے بکھ مرن۔

رزق دی تقسیم۔تے ہک وار ول کجھ غور کر

مگر میں سمجھتا ھوں کہ رب کائنات رزق کی غیر منصفانہ تقسیم ہرگز نہیں کرتا یہ کام۔ہم۔ایسے انسان ہی کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ دنیا غیرمتوازن پاکستان سے غیرمتوازن دنیا کی جانب گامزن ہے۔جس میں سوہانہ ایسے ہزاروں لاکھوں بیٹوں بیٹیوں کے خواب اور خواہشیں مررہی ہیں۔

مگر میں سوہانہ کی پرعزم باتیں سن کر بالکل مایوس نہیں اور امید رکھتا ہوں کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے اچھے اور عظیم انسان سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور اس دنیا کو توازن میں لاکر سوہانہ ایسی ہر نیک روح کے خوابوں کوتعبیر کاروپ دینے کی راہ ہموار کریں گے۔

مجھے یہ بھی امید ھے کہ آج گڑھی خدابخش میں بھی عام عوام کی بھلائی کے بارے سوچاجائے گا۔تاکہ سوہانہ ایسے ذہین اور پرعزم لوگ اپنے اپنے علاقوں میں رہ کر اچھی زندگیاں گزار کر پاکستان کی ترقی میں اپنااپنا رول پلے کرتے رہیں

یہ بھی پڑھیے: 

ازہر منیر کی آخری قسط جھوٹ کا پلندہ ۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیلی سویل بیٹھک: لون دا جیون گھر۔۔ناول رفعت عباس ۔۔چوتھی دری

 

 

%d bloggers like this: