گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
1958 میں دریائے سندھ کا پانی سیلاب کی صورت ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب ” ہٹھاڑ” کے علاقے کی بہت سی بستیاں بہا لے گیا۔” ہٹھاڑ” دراصل دریا کے کنارے نچلی سطح کا علاقہ کہلاتا ہے، جو ہوتا تو دریا کا نشیبی علاقہ ہے لیکن وہاں کئی کئی سال دریا کا پانی نہیں آتا۔ اسی جگہ لوگ کچے گھر بنا کے کھیتوں کو آباد کر لیتے تھے۔ پھر اس کے ساتھ ڈیرہ شہر کا اونچا علاقہ” اُتاڑ” شروع ہوتا ہے، جس پر شہری آبادی ہے۔ جب دریا کا” چاڑا” چڑھا تو اس نے” ڈھاء” شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے بستیاں دریا برد ہوتی گئیں۔
پہاڑوں سے بہتے بہتے پانی جب دریاؤں کی وسعتوں سے آبادی سے دور کناروں پر آباد گھروں کی اوور بڑھتا ہے تو وہ مکین دریا کے پانی میں نہیں بلکہ اپنے آنسوؤں میں ہی ڈوب جاتے ہیں۔ لیکن دریا سے دور رہنے والوں کو ان کے چار اطراف کا پانی تو نظر آ جاتا ہے، لیکن آنسو نہیں۔
جب یہی مکین قافلے کی صورت میں بے سروسامانی کے نشان بن کر، سر پہ گھٹڑیاں بندھی زندگی بھر کی پونجی اور سوال کرتی آنکھوں کے ساتھ، کبھی آنے والے پانی اور کبھی اپنے جنت نما گھر کو دیکھتے ہیں تو ان کے سوا کوئی نہیں جان سکتا کہ ان کے دل کی کیا حالت ہوتی ہے۔ نہ جانے کیوں زندگی ایسا کھیل کھیل جاتی ہے۔
پتھروں جیسا حوصلہ رکھنے والے اپنے ہی آنسوؤں میں بہہ جاتے ہیں۔کوئی نہیں جان سکتا کہ دریا کے قریب گھروں سے ایک روز بھی باہرنہ رہنے والے، نہ جانے کب گھروں کو واپس لوٹیں گے۔بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے پانی کے ٹلنے کے انتظار میں شب و روز کیسے گزاریں گے، کوئی نہیں جان سکتا۔
اسی طرح دریائے سندھ کے کنارے ان بستیوں کے لوگ بھی جو مال اسباب اٹھا سکتے تھے اٹھا کر مویشیوں سمیت "اتاڑ ” کی طرف چل پڑے۔ کچے گھروں کو جنت کا روپ دے کر جینے والے، سکون سے مٹی کی گھروندوں میں رہنے والے اب "اُتاڑ” میں پرانے کپڑوںاور گھاس پھوس کی خیمہ بستی بسا کر بے چینی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔
اپنے رشتہ داروں اور دیگر بستی والوں کے ساتھ ایک خیمے میں "پارو” کا خاندان بھی خیمہ زن ہوا۔”پارو” تیرہ سال کی اٹھتی جوانی کی الہڑ حسینہ تھی جس نے دریا کے کھلتے ہوئے کنول کے پھولوں کے درمیان ایک کھلتی کلی کی مانند پرورش پائی تھی۔
"پارو ” نرم،گدازمرمریں بدن اور الہڑ شوخ جوانی کی حامل، شاخہِ گل کی طرح لچکیلی، سرخ و سفید رنگ کی دبلی پتلی سی لڑکی تھی، جس کے مہین ہونٹ کابلی انار کے دانے کی طرح سرخ۔ کالے شمور لمبے اور سر کے چاروں طرف بکھرے تار تار بال۔ پتلی کمان ابرو، تیکھی نگاہیں اس کے اپسرا ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔
پیدا تو وہ "ہٹھاڑ” کے کچے گھروندے میں تھی لیکن اوصاف مکمل "حوری” تھے۔ جب چال چلتی تو "ہرنی” کا گماں ہوتا۔ سفید چمکتی باہوں میں کھنکتی چوڑیاں اسکی ہر ادا پر شور مچا تیں۔
جب بھی اٹھا کے ہاتھ مجھے مانگتی تھی وہ۔۔
کہتی تھیں زور زور سے آمین چوڑیاں۔۔۔
پارو جوانی کی دہلیز پہ کھڑی حسن خداداد کی حامل ایک الہڑ دو شیزہ تھی، حالات کی ستم ظریفی کے باوجود اسے جوانی کی امنگوں، ترنگوں اور سنہرے سپنوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، وہی دریا کنارے والی شوخیاں اور معصومانہ ادائیں۔
پارو کا والد سرکنڈوں کے "کانوں ” کی” چقیں "بنا کے فروخت کرتا اور گھر کا خرچہ چلاتا۔ اس عارضی خیمہ بستی کے قریب کی شہری آبادی کا ایک "ہیرا” نامی لڑکا جو ابھی دسویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ایک دن اپنے دالان کی رنگین "چقیں ” بنوانے کی خاطر پتہ کرتے کرتے پارو کے دروازے پر جا پہنچا۔
پارو کا والد گھر پر نہیں تھا۔اس کی ماں چولہا جلانے کی خاطر آس پاس خود رو گھاس پھوس اور لکڑیاں اکٹھی کرنے چلی گئی تھی۔ خیمے کے باہر ہہیرا نے آواز لگائی تو پارو قدم اٹھاتی خیمے سے باہر آئی۔
ہیرے نے جب پہلی نظر پارو کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ ہیرے نے اس کے باپ کے متعلق پوچھا تو پارو ایسے لب کشا ہوئی جیسے گلاب کی پنکھڑیاں حرکت کرتے جھڑنے لگی ہوں۔ لہجہ ایسا کہ مصری کی ڈلی منہ میں دھیرے دھیرے پگھل رہی ہو۔ پارو کا سراپا، لہجہ، انداز، نشیلے نین ہیرے کے اندر شراب ڈولنے لگے۔
وہ اٹک اٹک کے بولنے لگا۔ تھوڑی دیر وہ خیمے کے مہاڑی کے بانس کو پکڑ کر مبہوت کھڑا رہا جیسے ہوش اڑا بیٹھا ہو۔ پھر اس نے پارو سے کہا میں "چقیں ” بنانے کا کام تمہارے باپ سے سیکھنا چاہتا ہوں کیا وہ مجھے شاگرد بنا لے گا۔
پارو اپنے "کرمچی” دوپٹے کے پلو کو اپنے چہرے پہ رکھ کر ہنسنے لگی۔ ہیرے کو اس وقت پارو اس انداز سے یونانی دیو مالائی داستان کا رنگ و آہن لیئے محسوس ہوئی۔ ہیرے کو ایسا لگنے لگا گویا جاڑے کی راتوں میں دھوپ نکل آئی ہو۔ پارو نے ہیرے کو کھویا ہوا دیکھا تو زور سے چٹکی بجا کے دوبارہ زور سے ہنستے ہوئے کہنے لگی تو” شہری بابو” ہمارے والا سخت کام کیسے کرے گا؟
پارو کے دوبارہ ہنسنے سے اس کے موتیوں جیسے دانت ستاروں کی طرح چمکنے لگے اور لبوں کی مٹھاس نے ایک گلستان کی شکل اختیار کر لی۔ ہیرے نے اچانک اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر پاروکے ہاتھ پر رکھا اور بغیر سوچے سمجھے کہنے لگا۔ تم وعدہ کرو اپنے والد کو میری سفارش کر کے اپنی شاگردی میں لینے کا کہو گی !
جب پارو کا ہاتھ ہیرے کی انگلیوں میں آیا تو پارو کا لمس گلاب بن کر ہیرے کے دل میں مہکنے لگا بلکہ اس کے ریشمی ہاتھوں کا لمس ہیرے کی پیشانی پر شیریں سیال نشہ بن کر بہنے لگا۔ایسے موقعوں پر ہاتھ پکڑ لینے کی ہمت کبھی کبھی ہی آتی ہے اور اس کے بعد کی تند و تیز لہریں دوڑ کر دماغ میں ایسا دھماکا کرتی ہیں کہ کچھ سمجھ بوجھ ہی نہیں رہتی۔
اس لمس میں بلا کا مقناطیس تھا۔ مقناطیس کی یہ طاقت اسے پارو سے لپٹنے پر مجبور کر رہی تھی۔ پارو نے سختی سے ہاتھ پیچھے کھینچتے ہوئے لیکن جادو بھری آواز میں سرگوشی انداز میں کہنے لگی ” تم اپنا نام بتا جاؤ ” ہاتھ چھڑا کر ہنستے ہوئے کہنے لگی ! فکر نہ کرو میرا باپ میری بات نہیں ٹالتا تمھیں شاگرد بنا لے گا۔
ہیرا تو یہ سن کر اسی جگہ اسی وقت اسی لمحے یہیں بیٹھنا چاہتا تھا اور ہکلاتے ہوے نام بتایا۔ پھر چپ ہو گیا۔خاموشی کو توڑتے ہوئے جب پارو نے کہا "ہیرا” اب تم جاؤ مجھے بکریوں کا دودھ دوھنا ہے۔ ہیرا بغیر کچھ کلام کیئے پارو پر نظریں جمائے الٹے پاؤں ایسے چلنے لگا جیسے کسی دربار کے احترام میں چل رہا ہو۔؎
ہمارے پاؤں الٹے تھے فقط چلنے سے کیا ہوتا…بہت آ گے گئے لیکن بہت پیچھے نکل آئے
کسی نے سچ کہا کہ تپتی تڑپتی سلگتی ریت پر گرجتے برستے بادل بوند بوند پانی سے زرے زرے کی تشنگی مٹانے سے قاصر رہتے ہیں، لیکن جب پہلی نظر کا پہلا حسن رگ رگ میں سمو دے تو انسانی قلب محبت کے مجسموں میں ڈھل جاتے ہیں اورپہلی محبت تو وجود کی تشنگی مٹانے سے قاصر رہتی ہیں۔۔۔۔
جاری ہے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ