رانامحبوب اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عِلم ،حِلم، نفاست ، محبت ، شفقت ، مینرازم، شائستگی، خوش خلقی اور سلامت روی کو مجسم کریں اور پورے سو سال خوشبو میں دم کریں، تو پروفیسر اے بی اشرف کی شخصیت کی دھندلی سی تصویر بنتی ہے۔خوشبو جو حسن و زیبائی، نیکی اور اچھائی کی صورت جامعہ ملتان کی روشوں کے ساتھ کیاریوں میں گلابوں کی صورت کھلتی ہے۔
راہداریوں میں اڑتی ہے۔یہ گذشتہ صدی کی ستر اور اسی کی دہائیوں کی بات ہے، صدی جو ہمارے ہجر سے ہزاریہ ہوئی۔ جامعہ ملتان کی شروعات کا زمانہ تھا۔ہم جوان تھے اور جوانی مارشل لاء کے سائے میں تھی۔شہر اداس تھا ویران نہیں تھا۔ دو چار دیوانے شہر کی رونق تھے۔
کچھ استادوں سے ملتان ایتھنز سے زیادہ معتبر تھا۔ہماری جامعہ، اے بی اشرف،عرش صدیقی، بدرالدین حیدر،ظفر اقبال فاروقی، مبارک مجوکہ، فرخ درانی، عاشق درانی،ظفر اقبال، انوار احمد، عبدالروف، نجیب جمال، اسد اریب، خالد ناصر، خرم قادر اور خیرات ابن ِرسا جیسے نابغوں کا ہاتھ پکڑ کر چلتی تھی۔سماجی علوم کی عمارت کو قدامت میں اولیت حاصل ہے۔
انگریزی، اردو،سیاسیات اور تاریخ کے شعبے ایک بلاک میں تھے۔عرش صدیقی انگریزی اور اے بی اشرف شعبہ اردو کے روح ِرواں تھے۔ہم شعبہ انگریزی میں پڑھتے تھے اور روزانہ صبح ایک خوش پوشاک طرحدار، سرو قامت استاد کو ویسپا سکوٹر پر یونیورسٹی آتے دیکھتے تھے۔
عرش صدیقی مرحوم اور فرخ درانی کے پاس بھی سکوٹر تھے۔ یہ کاروں کا زمانہ نہ تھا۔ہلکی سانولی رنگت والے استاد ، پروفیسراشرف بن سنور کر آتے تھے۔جامعہ میں کچھ پیڑ تھے جن پر نام لکھنا منع تھا اور نئی تنہا عمارت ہوا اور گرد کے درمیان نمایاں تھی۔
ذرا سی ہوا چلتی تو گرد اڑتی تھی۔زلفیں پریشان ہوتیں تو حسین لوگ انھیں سنوارنے کی فکر کرتے۔کبھی ، کہیں، کوئی دست ِحنا کا چراغ جلتا، تو روشنی ہو جاتی۔ سکوٹر سے اترنے کے بعد پروفیسر اشرف دائیں جیب سے کنگھی نکالتے ،ایک ہاتھ سے بال سنوارتے اور بائیں ہاتھ سے بالوں کو ایک انداز سے سیٹ کرتے اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے شعبہ اردو کی طرف چل پڑتے۔
سرو قد پروفیسر کی ٹانگیں لمبی، جسم متناسب اور سر کے بال ماتھے کے دونوں طرف پسپا ہو کر جبین کو بھاگ وند بناتے تھے۔داڑھی مونچھ صاف، کھلی کھلی آنکھیں ، ہاتھوں کی انگلیاں لمبی اور مضبوط تھیں ۔ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے وہ پروفیسر سے زیادہ ایکٹر لگتے تھے۔تب وہ چالیس کے پیٹے میں تھے اور خوش لباس اور خوش خصال تھے۔کسی اور شعبے میں ایسا سونہڑاں اور خوش پوشاک استاد نہ تھا!
شعبہ انگریزی کے عرش صدیقی ہیٹ پہن کر آتے تھے۔ان کے بال گھنے اور رنگ گورا تھا۔اپنے پہلے لیکچر میں ادب پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ادب جذبات کی عکاسی کرتا ہے اور انسان سے اس کے جذبات خارج کردیں تو وہ گوشت، پوست اور ہڈیوں کی بوری ہے۔بدرالدین حیدر رومانوی شاعری پڑھاتے اور کے-
ٹو کے سگریٹ "غنٹا چوٹ” کرتے تھے۔ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ دلآویز تھی۔مرحوم کیا اچھے استاد تھے۔ایمرسن کالج میں یہ طالب علم ان کا رفیقِ کار ہوا تو ان سے سگریٹ ادھار لے کر پینے کا لطف اور تھا۔سلیم طاہر، سلیم رضا آصف، محمد قریش، ملک بہادر، جاوید اقبال،تجمل الطاف،اکرم عاصی، زبیدہ جاوید، ثمینہ ترین، پرم روز سیموئیل اور اقصی بخش شعبہ انگریزی میں ہمارے ہم جماعت تھے۔
نسرین ترین اور خالدہ یاسمین کی دلچسپیاں دنیا سے زیادہ آخرت پر مرکوز تھیں۔شعبہ اردو میں بخارہ کے علمدار اور مشہد کے فاروق ہم عصر تھے۔نامور کالم نگار اور قدیم راجپوت دوست خالد مسعود خاں ایم بی اے میں ہمارے جونیئر تھے اور مزاحیہ شاعری کے علاوہ دائیں ہاتھ سے کرامتیں کرتے تھے۔ان کی نظم "پولکا” کلاسک تھی جو وہ خوف ِفسادِخلق سے ذرا شرما شرما کر سناتے تھے۔ارشد منظور اور مظفر محمود شعبہ تاریخ میں تھے۔امتیاز تاجور شعبہ شماریات کے سینئر تھے۔ منیر چوہدری،صوفی مشتاق بورانہ اور نجم اکبر جونیئر تھے۔کچھ ان میں سے سول سروس کو پدھارے اور افسری سے کھیت ہوئے۔پروفیسر اشرف مگر اس عہد کا معتبر ترین حوالہ ہیں!
زندگی پُر مہر دوستیوں اور گوسفانہ جذباتیت سے عبارت تھی۔ شفا بخش سرگرمیوں پر شیکسپیئر کے ہیملٹ کی تقریروں To be or not to be اور بین الکلیاتی مباحثوں کے” چائے لسی سے بہتر ہے” جیسے موضوعات کا سایہ تھا۔ہم لوگ جوانی کے خمار میں اپنی دُون کی لیتے ، شعبہ انگریزی میں ایک بدیسی کولونیل زبان سیکھتے تھے۔میر کا تصور غم پنکھڑی اک گلاب سی میں سمٹ آیا تھا۔غالب کی شاعری، پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیںپھر وہی زندگی ہماری ہے، تھی۔عالم تمام حلقہء دام ِخیال تھا۔
استادِمن عرش صدیقی کی نظم "اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے”، "اسے کہنا کہ لوٹ آئے” کا الاپ تھی۔بدرالدین حیدر نے کیٹس پڑھاتے ہوئے حسن کو لازوال انبساط بتایا تھا اور حسن ہمارے سامنے سچ میں بدل رہا تھا۔Yeats کی لائن،نزاکت سے چلو کہ تم میرے خوابوں پر چلتے ہو، سے ہمارے خواب پا پرست تھے۔کولونیل زبان کے طالب علموں کو اندازہ نہ تھا کہ کولونیل زبانیں استعماری اداروں کا ہتھیار ہیں۔انگریزی ادب میں مقامی آدمی جانور ہیں۔
شیکسپیئر کے ہاں نیگرو اور کپلنگ کے ہاں ہندوستانی غیر مہذب وحشی ہیں۔سامراجی زبانیں طالب علموں کے ذہن کو کند کرکے انھیں اپنے کلچر سے نفرت کرنا سکھاتی ہیں۔افسری کی سیڑھی ہیں۔مقامیوں کو ایجنٹ، ٹوڈی اور کلرک بناتی ہیں۔ بالآخر سخت لسانی گرائمر کے نتیجے میں خلقت سے کٹتی ہیں اورسنسکرت اور لاطینی کی طرح مر جاتی ہیں۔اردو بے شمار مقامی زبانوں، عربی ، فارسی ، ترکی ، پرتگیزی اور انگریزی کا امتزاج ہے اور ہندوستان کے بر اعظم میں رابطے کی زبان ہے۔
کولونیل کم اور مقامی زیادہ ہے۔اسی لئے کئی مقامی زبانیں دعوی کرتی ہیں کہ اردو ان کی بہو بیٹی ہے۔پاکستانی ریاست کی زبان انگریزی ہے اور اردو حاشیے پر ہے کہ ریاستی اشرافیہ اپنے سامراجی پس منظر کی وجہ سے انگریزی کی مرعوبیت کا شکار ہے۔
ایک زمانے میں روسی اور جرمن اشرافیہ فرانسیسی اور ہندوستانی اشرافیہ فارسی پر اتراتی تھی۔پروفیسر اے بی اشرف ہمارے خطے میں اردو زبان و ادب کے عظیم استاد اور محسن ہیں۔اصغر ندیم سید، انوار احمد، نجیب جمال، عبدالروف ، علمدار بخاری، اسلم ادیب ، روبینہ ترین، فخر بلوچ اور محسن نقوی سے نابغے پروفیسر ان کے شاگرد تھے۔اصغر ندیم سید یونیورسٹی کے شعبہ اکنامکس میں داخلہ لے کر فیس جمع کرانے آئے تھے کہ پروفیسر اشرف نے اپنی روایتی شفقت سے انھیں شعبہ اردو میں داخلے کا حکم دیا۔
باقی تاریخ ہے۔اگر اشرف صاحب اصغر ندیم سید کو یہ مشورہ نہ دیتے تو ادب کی دنیا ان کی تحریروں اور ڈراموں سے محروم رہتی۔شاہ جی گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ میں ہمارے استاد تھے اور یوں پروفیسر اشرف ہمارے دادا استاد ہیں۔محسن نقوی نے پہلے دن پروفیسر اشرف کی کلاس میں انھیں شاعری کی کتاب ” بندِقبا” پیش کی تھی۔انوار احمد کے کارناموں، نجیب جمال کی علمیت اور علمدار بخاری کی عالمانہ تحریروں کا قصہ قرض ہے!1986 میں ڈاکٹر اشرف ترکی چلے گئے اور آٹھ سال تک شعبہ اردو اور پاکستان سٹڈیز کے سربراہ رہے۔
ترکی کی پروفیسر ڈاکٹر آسمان بیلن کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر جلال صوئیدان، پروفیسر درمش اور پروفیسرداؤد جیسے ترک عالموں کو ان کے شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔چونتیس سالہ طویل قیام کے بعدترکی پروفیسر اشرف کا دوسرا وطن ہے۔ان کی 26تصانیف میں سے کئی کتابیں ترکی پر اور "کیسے کیسے لوگ” جیسی نادر کتابیں ہیں۔سفر نامے ذوقِ سفر کی کہانیاں کہتے ہیں ۔سچ یہ ہے ان کی تصانیف، علمی اور ادبی کام کا احاطہ کرنے کے لئے ایک دفتر درکار ہے۔بلا مبالغہ ان کے ہزاروں شاگرد اس وقت پوری دنیا میں علم کے چراغ روشن کئے بیٹھے ہیں اور ان کے کام پر کام کرتے ہیں۔
ستاروں کی نئی کہکشاں ان کی کشادہ جبین سے طلوع ہوئی ہے اور کئی ستارے مہ ِکامل بن گئے ہیں!زندگی کی ناپائیداری ان کی شفقت سے پائیدار ہے۔پروفیسر اے بی اشرف ہر سال دسمبر میں پاکستان آتے ہیں۔ان کے بیٹے اور میرے یار پروفیسر نعیم اشرف مطلع کرتے ہیں اور ہم چرن چھونے ان کے "ہم آواز” بیٹے اسد خاں اور خوبصورت نوجوان فہیم خان کے ہاں جاتے ہیں۔ان کے فیاض اور فیض رساں دل میں جھانکتے ہیں اور باعمل عالم سے فیض پاتے ہیں۔
وہاں اردو کے مایہ ناز شاعر اور مصور پروفیسر انور جمال، جاوید اختر بھٹی،فیاض تحسین، اعجاز چشتی اور اسلم خان کی زیارت ہوتی ہے کہ یہ لوگ اشرف صاحب کے قدیمی دوست ہیں اور دوستوں کی دلبری اس مردِخلیق کا خاصہ ہے۔چند سال سے ان سے سال بہ سال ملناہمارا معمول ہے۔
اس بار ان کی آمد کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ انقرہ کے ہسپتال میں اپنے چوڑے سینے میں رکھے گداز دل کی نازبرداری کرتے ہیں۔بے شمار شاگرد، دوست اور سانول سمیت ایک خوبصورت پریوار کے پیارے لوگ ان کی صحت اور سلامتی کی دعا کرتے ہیں اور ان کی بخیر آمد کے بے چینی سے منتظر ہیں!
میڈا پیر فرید کئی پھل لکھ ڈے ، ڈینہہ لہنڑ توں پہلے ول آوے
میں اکھیاں نوٹ کے بہندی ھاں ، میڈے بہنڑ توں پہلے ول آوے
ڈر لگدے بھانڑیبھک تیہن،بھک ڈھہنڑ توں پہلے ول آوے
متاں "طارق”جٹیاں ڈیکھ گھنن ، ھنج وہنڑ توں پہلے ول آوے
یہ بھی پڑھیے:
محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر