عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dead Reckoning-Memories of 1971 Bangladesh War
کلکتا کی شرمیلا بوس ہندوستان کی تحریک آزادی کے رہنما سبھاش چندر بوس کی پوتی ہیں۔ان کی کتاب
(ہلاکت شماری: 1971ء کی بنگلا دیش جنگ کی یادیں) مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کے ان واقعات کی تحقیق پر مبنی ہے جس میں پاکستانی فوج کو جنگی جرائم اور بنگالی خواتین کی بے حرمتی کے ان گنت واقعات کے لیے مورد الزام ٹہرایا گیا تھا۔
یہ کتاب آکسفورڈ پریس پاکستان سے شائع ہوئی۔
سوشل میڈیا پر مشعل نام کا پیج مبینہ طور پہ جماعت اسلامی کا سوشل میڈیا ونگ چلاتا ہے۔اگرچہ جماعت اسلامی حسب معمول اس پیج کے چند ایک ایڈمن کی شناخت اسلامی جمعیت طلبا کے ارکان کے طور پہ ہو جانے کے باوجود اس کو اپنا آفیشل پیج قرار نہیں دیتی، تو ہم کہہ سکتے ہیں یہ پیج مبینہ طور پہ جماعت اسلامی کی سوشل میڈیا پراکسی ہے۔
جماعت اسلامی یا یہ مبینہ سوشل پیج پاکستان میں دائیں بازو کے مشرقی پاکستان/بنگلہ دیش اور 71ء کی جنگ کے اس غالب بیانیے کو تقویت فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے جسے دلچسپ بات یہ ہے کہ خود شرمیلا بوس State of denial (انکار کی کیفیت) اور Refusal to confront what happened in East Pakistan ( مشرقی پاکستان میں ہونے والے واقعات کی تردید) کہتی ہیں (دیکھیے کتاب کا تعارف صفحہ 14، دوسرا پیرا گراف)۔
بنگالی صحافی شرمیلا بوس نے اپنی کتاب کے دیباچے میں بہت تفصیل سے بتایا ہے کہ وہ بی بی سی لندن بش ہاؤس میں ساؤتھ ایشیا نیوز پروگرام میں صدا کار کے طور پہ کام کررہی تھیں۔ انہوں نے ایک ایک انٹر ویو ریکارڈ کرنا تھا، اس وقت بنگلا دیش کو وجود میں آئے 20 سال بیت چکے تھے۔ انہوں نے دلّی سے جس مہمان کا انٹرویو کیا وہ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا تھے۔
شرمیلا بوس نے ٹیلی فون پر جنرل کو بتایا کہ وہ کلکتا سے ہیں اور بطور وار ہیرو کے ان کی معترف ہیں، جس پہ جنرل نے ان کا شکریہ ادا کیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ جنرل نے ’تھینک یو، مائی ڈئیر‘ کہہ کر ان کا سواگت کیا اور خراب ٹیلی فون لائن پہ دوسری طرف سے ان کی آواز بہت مشفقانہ تھی۔
انہوں نے بتایا کہ جنرل سے ان کا یہ انٹرویو ہندوستانی پنجاب میں سکھوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی اور ٹاڈا جیسے ڈریکولائی قانون بارے تھا۔
’اس انٹرویو کے اکثر حصے میں جنرل نے کافی احتجاج کیا جبکہ میں اس ایشو پہ سکھوں سے ہمدردی رکھتی تھی لیکن پھر بھی انٹرویو بہت ہموار طریقے سے ہوا۔ بعد میں، میں نے سنا ہندی زبان میں ہوئے پروگرام میں ایسا نہ ہوسکا اور جنرل اروڑا اپ سیٹ ہو گئے‘۔
شرمیلا بوس کا کہنا ہے کہ انہیں تعجب ہوا کہ ایک آدمی جو 1971ء کی جنگ کا ہیرو تھا اور بنگلا دیش کی آزادی کا کریڈٹ لیتا تھا اور ان کے حقوق کی بازیابی کا علمبردار بنتا تھا، وہ اپنی سرزمین پہ اپنے لوگوں کے حقوق کی پامالی جیسی حقیقت سے انکاری ہو رہا تھا۔
وہ اس واقعے کے سبب 1971ء کی جنگ بارے سنجیدگی سے تحقیق کرنے کی جانب مائل ہوئيں۔
جماعت اسلامی کے پیچ پہ 16 دسمبر 1971ء کے حوالے سے کچھ پوسٹرز اپ لوڈ کیے گئے ہیں جن میں سے دو شرمیلا بوس کے نام منسوب کر کے شائع کیے گئے ہیں جبکہ شرمیلا بوس کی کتاب میں ان دونوں پوسٹرز کی عبارتوں کا متن نہیں ملتا۔
دو جعلی پوسٹر بناکر جماعت اسلامی نے خود شرمیلا بوس پہ بہت بڑا ظلم کیا ہے کیونکہ مس بوس نے اپنی اس کتاب کے ’تعارف‘ میں بہت تفصیل سے بتایا ہے کہ انھون نے یہ کتاب کیوں لکھی؟ یہ ان کا ایک ریسرچ ورک پہ مبنی سٹڈی کا نتیجہ ہے۔
صفحہ نمبر 12تا 13 پہ وہ لکھتی ہیں:
’میں نے یہ تحقیق بنگلا دیشیوں سے انتہائی ہمدردی کے ساتھ شروع کی تھی کیونکہ وہ اس لڑائی مین متاثرہ و مظلوم فریق تھے اور ان کی طرف انصاف تھا ۔۔۔ دوسری طرف، بہرحال ایک ملٹری رجیم تھا جس نے جائز طور پہ منتخب جماعت کو حکومتی اختیارات سنبھالنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا اور (اس انکار پہ) بنگالی بغاوت کو فوجی طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔
میں اس شکایت سے متفق تھی کہ بنگلا دییش کی ٹراما سی حالت میں پیدائش نے عالمی سیاسیات کے ڈسکورس میں اسے کمتر بنادیا لیکن اس کی وجوہات بارے مجھے اچھے سے یقین نہ تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بنگلا دیش ایک ڈرپوک اور غریب ملک تھا اور وہ باقی کی سرد جنگ کی دنیا میں کوئی کردار ادا کرنے والا نہیں تھا۔
تاہم بنگلا دیشی خود کو کمتر بنا دیے جانے کے اس طور پہ ذمہ دار تھے کہ وہ آزادی کے 30 سال گزرنے کے بعد بھی 1971ء کے تنازعے کی اچھے سے ڈاکومنٹ کی گئی تجزیاتی تاریخ پیدا کرنے میں ناکام رہے تھے۔
مجھے توقع تھی کہ میرا کام نہایت احتیاط سے واقعات کو اکٹھا کرنے اور ان کے معنی خیز تجزیے کو پورا کرنے کے پروسس کا آغاز ثابت ہوگا تاکہ اس کمی کو پورا کیا جاسکے اور یہ تحقیق مجموعی طور پہ اس تنازعے بارے بصیرت فراہم کرے گی‘۔
صفحہ 13 پہ ہی وہ آگے چل کر اپنی جملہ تحقیق بارے نتیجہ اخذ کرتی ہیں:
’اس تحقیق کے آخر میں، میں اب بھی ان سے بہت ہمدردی رکھتی ہوں جنھوں نے واقعی 1971ء کے تنازعے میں دکھ اٹھائے، لیکن وہ (متاثرین) سٹوری۔لائن بدل جانے کے ساتھ بڑی حد تک بدل گئے ہیں۔
بنگالی کئی ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں۔ وہ جو آزاد بنگلا دیش چاہتے تھے، وہ جو متحدہ پاکستان کے حامی تھے، وہ جن کی خواہش خود مختاری تھی مگر علیحدگی نہ تھی، وہ جو سرگرمی کے ساتھ جو وہ چاہتے تھے اس کے لیے لڑے، وہ جو ڈاکٹر ژواگو کی طرح بس’جینا‘ چاہتے تھے لیکن یہ سب ناگزیر گرداب میں پھنس گئے۔
وہاں لڑنے والے اور نہ لڑنے، وائلنس کے متاثرہ اور اس کا ارتکاب کرنے والے، سب تھے۔
مغربی پاکستانی بھی سیاسی یا فوجی اعتبار سے ایک فرنٹ پہ نہ تھے۔ آرمڈ فورسز نے وہی کیا جو مارشل لا میں کیا جاتا ہے یا ان کو مشرقی پاکستان میں کاؤنٹر انسرجنسی آپریشنز کو سر انجام دینے کو کہا گیا۔
شرمیلا بوس اس سے اگلے پیراگراف میں ایک اصطلاح استعمال کرتی ہیں: The Terrible violence of a fratricidal war (برادر کشی کی جنگ کا خوفناک تشدد) وہ لکھتی ہیں:
’برادر کشی کی جنگ کے دوران خوفناک تشدد سے متاثرہ ہر نسل اور مذہبی گروپ کے لوگ تھے۔ ان کا تعلق سیاسی تقسیم کے ہر فریق سے تھا، ایسے ہی اس تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کا معاملہ تھا، ان سب کے لیے جیسے یہ معمول کی بات ہو۔انسانیت بھی ایسے ہی معمول کے انداز میں تقسیم ہوگئی تھی۔
دونوں اطراف کے پاس جائز سیاسی دلائل اور اپنے اپنے مثالیت پسند پیروکار تھے۔ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو موقعہ پرستی میں مبتلا ہوگئے تھے اور غیر انسانی افعال کے مرتکب ہوئے۔
بہت سے بنگالی جو اپنے تئیں آزادی اور وقار کے لیے لڑ رہے تھے، انہوں نے دہلا دینے والے مظالم کا ارتکاب کیا۔جبکہ بہت سے پاکستانی فوجی افسر جو ایک سیاسی بغاوت کے خلاف فوجی ایکشن کر رہے تھے، انہوں نے بھلے لوگوں کی طرح لڑائی کے قاعدے قوانین کے اندر بہترین غیر روایتی جنگ لڑی۔
یہ جنگ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان نہیں رہی تھی اور نہ ہی جمہوریت بمقابلہ مطلق العنانیت کے خلاف رہی تھی۔ بلکہ یہ کسی کے بس میں نہیں رہی تھی اور خاص طور پہ ان کی خواہشات سے بالکل الگ ڈھب پہ چل پڑی تھی جنہیں اچھائی اور برائی میں تمیز کا شعور تھا۔
اگر کچھ لوگوں کو تنازعات کی یہ یہ ساخت فطری لگتی ہے تو وہ 1971ء کی جنگ کے ڈسکورس کو سمجھتے ہی نہیں۔
جن غالب بیانیوں کے ساتھ میں پل کر جوان ہوئی اور جنہیں میں ’ٹھوس حقائق‘ سمجھتی تھی، وہ یا تو غلط ثابت ہوئیں یا بہت زیادہ مسخ شدہ ۔
یہ تحقیق ان واقعات یا پہلوؤں کو منکشف کرتی ہے جو اب تک کے ڈسکورس سے غائب رہے ہیں‘۔
صفحہ 14 پہ شرمیلا بوس دوسرے پیراگراف میں کہتی ہیں:
’1971ء میں وہاں دراصل ہوا کیا تھا؟ یہ تنازعے کا بحث طلب اور طویل موضوع ہے۔ میری تحقیقات کے دوران پاکستان ان واقعات کے بارے میں بطور ریاست انکار کی کیفیت میں رہا۔ تنازعے کی اصل نوعیت کے بارے میں بنگلا دیش مکمل طور پر اور کچھ حد تک بھارت بھی انکار کی کیفیت میں نظر آیا‘۔
شرمیلا بوس مزید کہتی ہیں:
’اس (انکار کے) رجحان کا پریشان کن ترین پہلو شاید حریت پسند بنگالی قوم پرستوں کی جانب سے 1971ء کے دوران غیر بنگالیوں اور آزادی کی جنگ میں ساتھ نہ دینے والوں کے خلاف کیے گئے جرائم کا انکار یا اس کو کم کرکے دکھانا یا اس کا جواز پیش کرنا ہے۔
تشدد کا جو کلچر 1971ء میں پروان چڑھا اور اس کے بعد بنگلا دیش میں جو کچھ ہوا اور نفرت کے جو فسانے لکھے گئے، وہ اگلی نسلوں میں منتقل ہو گئے۔‘
شرمیلا بوس نے 2013ء میں وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
’جہاں تک پاکستانی فوج کا تعلق ہے، وہ ریاست کی پالیسی کے اطلاق کا ذریعہ تھی ۔۔۔ (پاک) فوج نے کیا کیا۔۔یہ ایک پیچیدہ معاملہ رہے گا۔فوج میں ایسے لوگ تھے، جو شرپسندوں کے خلاف نہایت ہی مشکل حالات میں ہر ممکن طریقے سےکارروائیاں کر نے کی کوشش کر رہے تھے اور جنگ کے ضابطہ اخلاق پر عمل کر رہے تھے۔
ان میں کئی اچھے اور معتبر لوگ تھے، جو شاید اپنے ملک کی پالیسی سے مکمل اتفاق نہ کرتے ہوں مگر وہ ، وہ کام کرنے کی کوشش کر رہے تھے ، جو انہیں کرنے وہاں بھیجا گیا تھا لیکن ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے جنگی جرائم کیے‘۔
جماعت اسلامی سمیت پاکستان کے اندر دائیں بازو کے مذہبی اور بظاہر غیر مذہبی نظر آنے والے عناصر اس حقیقت کو چھپانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی ریاست نے مضبوط مرکز اور مضبوط پاکستان کے نام پہ پاکستان کے اندر کثیر الثقافتی اور کثیر القومیتی سماجی مظاہر کا جو انکار کیا اور صوبوں کے حقوق کو جس طرح سے کچلنے کی کوشش کی اور یک نوعی اور مطلق العنان نظریات کی جو آبیاری کی اس نے بنگلا دیش کو جنم دیا۔
یہ حقیقت کی اس لیے پردہ پوشی کی جاتی ہے کہ بلوچستان اور سندھ میں، یہاں تک کہ خیبر پختون خوا اور سرائیکی وسیب کے حوالے سے یہی سوچ کار فرما ہے۔
جماعت اسلامی نے 1971ء میں اپنے طلبا ونگ اسلامی جمعیت طلبا کے لوگوں پہ مشتمل البدر اور الشمس مسلح تنظیمیں بنائیں۔
البدر نے بنگلا دیش میں دانشوروں، پروفیسروں اور سیاسی کارکنوں کو اغوا کیا اور انہیں قتل کیا۔
شرمیلا بوس اگرچہ بنگالی دانشوروں، صحافیوں اور پروفیسروں کے اغوا میں البدر کے کردار کی نشاندہی کرتی ہیں لیکن شاید اس وقت محمد پور کے فزیکل ٹریننگ سنٹر سمیت دیگر اور علاقوں میں بنے رضا کار کیمپ اور محمد احسن مجاہد سمیت اسلامی جمعیت طلبا مشرقی پاکستان کے ديگر نمایاں لیڈروں کا کردار ان کے علم میں نہیں آسکا۔
مطیع الرحمان نظامی کا ریکارڈ ان کے ہاتھ نہیں لگ سکا۔ اس کی ایک وجہ تو شاید شرمیلا بوس نے خود بیان کردی ہے کہ جب ان کی تحقیق کے بنیادی خدوخال بھارت کے ’اکنامک اینڈ پولیٹکل ویکلی‘ میں اکتوبر 2005ء میں شائع ہوئے تو بنگلا دیش کا ’حریت پسند‘ حلقہ ان سے دور ہوگیا۔ کیونکہ شرمیلا بوس نے بنگالی قوم پرستوں کے اندر سے ظاہر ہونے والے تشدد اور بنگلا دیش کی آزادی کے سرکاری بیانیے اور ڈسکورس کی خامیوں پہ بھی تفصیل سے روشنی ڈالی تھی۔
شرمیلا بوس نے باب نمبر تین کا عنوان دیا ہے: Military Action: Operation Search Light in Dhaka (فوجی ایکشن: ڈھاکا میں آپریشن سرچ لائٹ)۔ پھر صفحہ 152 پہ وہ ’دسمبر کلنگ‘ کے عنوان سے بنگالی دانشوروں، صحافیوں، اساتذہ اور سیاسی کارکنوں کے اغوا اور رئیربازار میں ہوئی ہلاکتوں پہ بات کرتی ہیں۔
انہیں البدر کے اس قتل عام میں ملوث ہونے میں کوئی شک نہیں ہے لیکن وہ کہتی ہیں، ’ فوج میں سے کس نے فائرنگ کا حکم دیا تھا؟ اس کا پختہ ثبوت لانا مشکل ہے۔
شرمیلا بوس کی نظر سے بہت سی دستاویزی شہادتیں اور ثبوت اوجھل رہے۔ ریپ کا شکار ہونے والی بنگالی عورتوں کے بارے میں یاسمین صاعقہ کی تحقیق میں جو شواہد پیش کیے گئے ان کا زکر بھی شرمیلا بوس کے ہاں نہیں ہے اور وہ خود بھی اپنی کتاب یں بیان کیے گئے نتائج کو حتمی نہیں کہتیں۔
انہوں نے اپنی اس کتاب میں صفحہ 167 سے ایک دلچسپ عنوان قائم کیا ہے اور وہ ہے: The Benevolent ‘Baluchis’ in Bengal(بنگال میں مہربان بلوچوں کی موجودگی)۔بنگالیوں کے ساتھ مہربانی اور ہمدردی کا سلوک کرنے والے وہ فوجی کون تھے جن کو بنگالی عینی شاہد بلوچی کہتے تھے؟
اپنی کتاب میں وہ لکھتی ہیں کہ بلوچ ایک ایتھنک گروپ ہے جو بلوچستان میں رہتا ہے اور ان کے مطابق مغربی پاکستان سے جو فوجی مشرقی پاکستان گئے ان میں سے ایک بھی بلوچ نہیں تھا۔
یہاں شرمیلا بوس غلطی کر گئیں کیونکہ ایک تو ان کو یہ نہیں معلوم کہ پاکستان کی آرمی کے اندر بہت بڑی تعداد ایسے بلوچوں کی ہے جو نسلی اعتبار سے تو بلوچ ہیں لیکن ان میں سے بیشتر کی زبان وہ ہے جسے عرف عام میں آج سرائیکی کہا جاتا ہے اور یہ پہلے جانگلی، ملتانی، ڈیروی، ریاستی، بہاولپوری، جھنگوچی یا لہندی کہلاتی رہی ہے۔
شرمیلا بوس چونکہ سرائیکی قومی سوال سے سرے سے واقف ہی نہیں تھیں، اس لیے وہ بلوچ مہربان فوجیوں کے معمے کو حل نہ کرسکیں
یہ بھی پڑھیے:
اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی
کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی
مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر