نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان امن کو لاحق خطرات۔۔۔حیدر جاوید سید

افغان عوام اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے جدوجہد کریں گے۔ امن کے قیام کے ساتھ ہی پڑوسی ملکوں میں مقیم نصف کروڑ افغان باشندے اپنے وطن واپس لوٹ سکیں گے مگر اب ایسا لگتاہے کہ سارے خواب بکھرتے جارہے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طالبان امریکہ امن معاہدہ اور پھر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان معاہدہ امن کے لئے مذاکرات جاری رکھنے پر ہونے والے سمجھوتہ سے یہ امید بندھی تھی کہ چار دہائیوں سے آگ و خون کے دریائوں میں ڈوبے افغانستان کو پائیدار امن مل جائے گا۔
افغان عوام اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے جدوجہد کریں گے۔ امن کے قیام کے ساتھ ہی پڑوسی ملکوں میں مقیم نصف کروڑ افغان باشندے اپنے وطن واپس لوٹ سکیں گے مگر اب ایسا لگتاہے کہ سارے خواب بکھرتے جارہے ہیں۔
پچھلے پندرہ دنوں کے دوران داعش کے معصوم شہریوں پر حملوں، طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں اور صوبہ قندھار میں طالبان جنگجووں کی بڑی کارروائیوں کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے۔
ایسے وقت میں جب معاہدہ امن کو کامیاب بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کے ساتھ اس بات کی ضرورت تھی کہ داعش کے خلاف تینوں فریق مل کر کارروائیاں کریں تاکہ یہ افغان امن کے لئے مستقل خطرہ نہ بننے پائے، سمجھوتوں پر دستخط کرنے والے ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔
طالبان کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ قندھار میں ان کی کارروائیوں کی وجہ حکومت کی وعدہ خلافی اور قندھار کے بعض اضلاع میں طالبان سے منسلک افراد کے خاندانوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی ہے۔ دوسری طرف افغان وزارت داخلہ کا موقف ہے کہ قیام امن کے لئے مذاکرات جاری رکھنے پر ہونے و الے ابتدائی سمجھوتے کے وقت ہماری طرف سے یہ تجویز دی گئی تھی کہ معاہدہ امن تک جنگی کارروائیوں کا سلسلہ بند کردیا جائے اس تجویز سے طالبان نے اتفاق نہیں کیا تھا۔ کابل میں حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ طالبان کا موقف درست نہیں قندھار کے اضلاع میں سمگلروں کے خلاف کارروائی ہورہی تھی۔
اپنی اپنی جگہ حالیہ تصادموں کے حوالےسے فریقین جو بھی موقف رکھتے ہوں حقیقت یہ ہے کہ قندھار اور جلال آباد میں پچھلے چند دنوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات افسوسناک ہیں ان واقعات میں بھاری جانی نقصان ہوا۔
گزشتہ چالیس برسوں سے افغان سرزمین میدان جنگ بنی ہوئی ہے۔ افغان انقلاب ثور کے بعد شروع ہوئی بیرونی مداخلت سے اب تک لاکھوں افغان کھیت ہوئے بربادیوں کی اس المناک داستان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لاکھوں افغان باشندے آج بھی پڑوسی ملکوں میں مقیم ہیں۔
اپنے مادر وطن سے دوری اور بے سروسامانی کی زندگی افغان مہاجرین کی اکثریت کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ ان حالات میں کیا ہی اچھاہو اگر افغانستان کی داخلی صورتحال کے سارے فریق اصلاح احوال کی طرف بڑھیں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ مزید افغانوں کا لہو نہ بہے لیکن لگتا یہی ہے کہ طالبان کی خواہش یہ ہے کہ معاہدہ امن پر عملدرآمد کی صورت میں امریکی افغانستان سے نکلتے ہیں تو اقتدار اعلیٰ پر ان کے حق کو تسلیم کیاجائے۔
گروہی جذبات یا 9/11 سے قبل کی پوزیشن بہرطور طالبان کے پیش نظر ہے ظاہر ہے کہ وہ یہی چاہیں گے کہ اقتدار کلی طورپر ان کے سپرد ہو یہی وجہ ہے کہ طالبان نے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔ ان حالات میں نقصان بہر طور افغان عوام کا ہی ہورہا ہے جو امریکہ طالبان اورطالبان افغان حکومت میں ہوئے معاہدوں پر نہ صرف خوش تھے بلکہ ان کاخیال تھاکہ اب جنگ وجدل کے بادل چھٹ جائیں گے۔
ہماری دانست میں پچھلے پندرہ دنوں کے دوران رونماہوئے افسوسناک واقعات نے قیام امن کے لئے بدترین خطرات ہی پیدا ہی نہیں کئے بلکہ اس سے داعش اور اس کی حلیف تنظیموں کو اپنے قدم جمانے کے مزید مواقع بھی ملیں گے۔
ایسا ہوا تو ایک بار پھر فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت گری کا دروازہ کھلے گا۔ یہ خدشہ محض زبانی کلامی نہیں، داعش کے افغانستان میں قدم رنجہ فرمانے کے بعد سے اب تک کی صورتحال کسی سے مخفی نہیں۔
داعش کی درندگی کانشانہ ہزارہ شیعہ بنے یا پھر صوفی سنی۔ اب بھی اگر افغان حکومت اورطالبان دونوں نے گروہی مفادات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے وسیع تر قومی مفادات کو مدنظر نہ رکھا تو اس کے نتائج عوام کو بھگتنا ہوں گے۔
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ طالبان کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ کلی اقتدار کے حصول کی ان کی ضد سے جہاں جمہوریت پسند افغان ان سے دور ہوں گے وہیں شمالی افغانستان کے غیر پشتون طبقات میں بھی تحفظات بڑھیں گے۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے کہ طالبان اپنی بالادستی کی بجائے افغان عوام کے لئے سوچیں ان افغانوں کے لئے جو پچھلے چالیس برسوں سے کبھی جہاد اور کبھی گروہی بالادستیوں کے لئے برپا ہوئی جنگوں کا ایندھن بنتے آرہے ہیں۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال پر دل گرفتگی کے ساتھ تبصرہ کرتے ہوئے کابل یونیورسٹی کی طالبہ ارجمند گل کہتی ہیں
’’صدیوں سے جنگ وجدل کو صنعتوں کےطورپر بڑھاوا دینے والے افغان یہ سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ اب وہ کسی مقبوضہ علاقے میں برسرِپیکار نہیں بلکہ اپنی ہی زمین پر ایک دوسرےکا گلہ کاٹ رہے ہیں۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ ان کی نئی نسل جنگ سے نفرت کرتی ہے وہ آگے بڑھ کر دنیا کے ساتھ چلنا چاہتی ہے تاکہ افغانوں کی آئندہ نسلیں وار لارڈز کے سپاہیوں کا نہیں بلکہ علم اور امن دوست انسانوں کا کردار ادا کریں‘‘۔
کوئی بھی امن و علم دوست شخص ارجمند گل کی اس حقیقت پسندی کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا یہی افغانوں کی حقیقی سوچ ہے جسے ہم سب نظرانداز کرتے آرہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author