مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ اسماعیل خان کے رنگیلے گاٶں۔۔۔گلزار احمد

ڈیرہ شھر ماضی میں ایک فصیل کے اندر ایک کلو میٹر دائرے میں بند تھا۔ ہم نے فصیل تو نہیں دیکھی مگر فصیل کے داخلی دروازے پرانے ناموں سے اب بھی موجود ہیں۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ شھر ماضی میں ایک فصیل کے اندر ایک کلو میٹر دائرے میں بند تھا۔ ہم نے فصیل تو نہیں دیکھی مگر فصیل کے داخلی دروازے پرانے ناموں سے اب بھی موجود ہیں۔ شھر کے اندر تو صحت وصفائ اور تعلیم کی کافی سھولتیں میسر تھیں مگر پنجاب اور بلوچستان کے سرحد تک پھیلے اس ضلع کے دیہاتوں کا وہی حال تھا جو پاکستان کے دوسرے دیہاتوں کا ھے۔
البتہ ان دیہاتوں کے رسم رواج اپنے اندر قوس قزح کا رنگ رکھتے تھے۔ اگر آپ علمِ انسان کا مطالعہ کریں تو آپ پر دلچسپ انکشافات ھوتے ہیں اور دنیا کے رسم و رواج آپس میں حیران کُن حد تک آپس میں ملتے ہیں۔ مثلاً دنیا جھان میں مینہ برسانے کے ٹوٹکوں میں ہر کہیں کسی نہ کسی صورت میں پانی گرایا جاتا ھے تاکہ بارش برسے۔
ڈیرہ کے دیہاتوں میں بھی ہمارے بچپن کے زمانے میں یہ رواج تھا کہ جب بارش نہیں ھوتی تھی اور گرمی بڑھ جاتی تو گاٶں کے لڑکے ہر گھر جاکر کچھ چندہ وصول کرتے جسے غالباً لاڈو بولتے ۔ اس سے کچھ پکایا جاتا خیرات تقسیم ھوتی اور پھر لڑکے ایک دوسرے پر پانی پھینکتے اور کئی دفعہ بارش بھی ہو جاتی تھی۔ پتہ نہیں یہ ٹوٹکا اور رسم کہاں سے آئی تھی؟
شھر میں البتہنماز استسقا کا اہتمام ھوتا اور بعض دفعہ تو بیساکھی گراوںڈ بھر جاتا ۔جب نماز پڑھ لی جاتی تو بارش بھی ایک دو روز میں آ جاتی تھی۔ڈیرہ میں گرمیوں کے موسم میں سرخ آندھیاں بھی بھت آتی تھیں۔جب آندھی درختوں کو گرا جاتی اور فصلوں کو نقصان کرتی تو اکثر لوگ کہتے کسی جگہ بے گناہ اور معصوم کا قتل ھوا ھے اس لئے یہ آندھی آئی ھے۔
آندھی کو روکنے اور اس کے نقصان سے بچنے کا بھی عجب ٹوٹکا تھا ۔عورتیں جب فضا میں گردوغبار اٹھتا دیکھتیں تو فوراً چارپای کے پاۓ کے نیچے تِیلیوں والا جھاڑو یا جسےمقامی زبان میں ُبواھری کہتے رکھ دیتیں ان کا خیال تھا اب آندھی نہیں آۓ گی یا اس کی شدت بھت کم ھو جائیگی۔تلہ گنگ اور میانوالی والے لوگوں نے تو آندھی پر بڑا خوبصورت گیت بنا لیا ھےجو اس زمانے کی یاد دلاتا ھے۔گیت کے بول یہ ہیں۔

گُھلی ھنیری۔وا تے کَھلیاں ۔ ذُلفاں ہَلیاں یار بلایا۔مَن پیا کردا ڈھولا ویھڑے آ وڑے ھا۔ یہ گیت آندھی آنے پر رومانس شو کرتا ھے۔

دلچسپ بات یہ ھے کہ صرف ایک سنگر ذیشان خان روکڑی کا گایے ہوۓ اس گیت کی یو ٹیوب پر وڈیو کو دس لاکھ پچپن ھزار آدمی دیکھ چکے ہیں اور یہ تو ایک لوک گیت ھے جسے درجنوں کلاکاروں نے گایا ھو گا۔ اب تو ایسی آندھیاں بھت کم آتی ہیں ۔ ساون کے چوٹی والے بادل بھی روٹھ گئے بارشیں بھی بھت کم ھوتی ہیں۔
ہم شھروں کی بِھیڑ میں اس طرح گُم ھو گئے کہ اب ایسی دیہاتوں کی رسمیں دیکھنے کا موقع کم ہی ملتا ھے۔ جادو۔ ٹونہ۔تعویز تو پوری دنیا میں انسانی تہذیب کا حصہ رھے ہیں ۔
مثال کے طور پر ہم جب بھت چھوٹے تھے تو جب باھر نکلتے تو مائیں ہمارے ماتھے پر سرمے یا کاجل سے ایک سٹار یا ٹِکہ بنا دیتی تھیں ان کا خیال تھا کہ یہ بد نظری سے بچاتا ھے۔دلچسپ بات یہ ھے کہ جب میں باھر کے ملکوں میں گیا تو یہ رواج ادھر بھی دیکھا اور انگریزی میں بچوں کے ماتھے پر لگاۓ گئے اس نشان کو ۔۔۔Chicken feet..کہتے ہیں ۔
اور نیا مکان اور نیا بنگلہ بنا کر لوگ سامنے ماتھے پر ۔۔کَٹوِی۔۔ تو اب بھی رکھتے ہیں تاکہ نظر بد سے محفوظ رھے۔ اسی طرح اگر بچے کو نظر لگنے کا شک ہوتا تو مائیں پھٹکڑی توے پر رکھتی اور اس سے جو ایک کھلونا نما شکل بنتی وہ اسپر کچھ کرتی تاکہ بچے نظر بد سے محفوظ رہیں۔
شادی بیاہ کی تو بے شمار رسمیں ڈیرہ کے رنگیلے گاٶں میں رائج تھیں جن میں کچھ ابھی باقی ہیں۔ شادی کے روز دلھا کا سر اور منہ ایک دپٹے میں لپیٹ لیتے ۔ پھولوں کا سھرا بھی چہرے کو چھپالیتا جس کا مقصد بھی نظر بد سے محفوظ رہنا ہو گا۔ اسی طرح دلھا کے ہاتھ میں لوھے کی سٹِک دی جاتی کہ بھوت پریت دور رھیں۔
میں نے ایک گاٶں میں دیکھا کہ جب بارات کا کھانا تیار کرتے تو پہلی دیگ کو چولھے پر رکھنے اور اس کے نیچے آگ جلانے کی مستقل ایک الگ رسم تھی۔ ہوتا یہ تھا کہ دس بندے آمنے سانے دو قطاروں میں ہاتھ میں درخت کی چھڑیاں لے کر کھڑے ہو جاتے۔
دلھا کی بہن ایک چھڑی کے سرے پر بندھے کپڑے پر مٹی کا تیل ڈالتی اور اسے آگ لگاتی۔پھر وہ چھڑی والا شعلہ قطار میں کھڑے دو لائنوں کے بندوں کے درمیان سے ہاتھ میں لے کر چلتی اور بیس فٹ دور پڑی دیگ کے نیچے چولھے تک پہچانا ھوتا۔
جب یہ گزرتی تو قطار والے لوگ چھڑیاں مار کر شعلے کو بجھا دیتے اور اس طرح اس لڑکی کو واپس جا کر پھر سے شعلہ روشن کر کے آنا پڑتا حتی کہ وہ شعلہ دیگ کے نیچے پہچانے پر کامیاب ھو جاتی۔لیکن اس رسم کو دیکھنے کے لئے سارے باراتی موجود ھوتے اور جب چھڑیوں سے شعلہ بجھا دیا جاتا تو اس کو واپس جانا پڑتا اور لوگ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ھو جاتے۔
ھاں جب وہ شعلہ دیگ کے نیچے پہچانے پر کامیاب ہو جاتی تو تالیاں بجا کے خوب داد دیتے اور اس طرح یہ رسم مکمل ہو جاتی اور کھانے کی پکائی شروع ھو جاتی۔۔ گھڑی گھڑولہ تو اب بھی دیہاتوں میں موجود ھے۔ جوتی چھپائ اور دودھ پلانے کی الگ رسمیں تھیں جس پر دلھن کی بہنیں دُلھا سے رقم وصول کرتیں۔
شادی سے پہلے دلھا۔دلھن اور رشتہ داروں پر رنگ ڈالا جاتا تھا۔ایک رواج تو اب بھی دیکھا کی گاٶں کے لڑکے دولھا دلھن کی گاڑی کو گھر کے سامنے روک لیتے ہیں اور بکرا وصول کرتے ہیں ۔پچھلے دنوں پیزو سے دلھن لینے بارات گئی تو دلھن کے گاٶں والوں نے بارات روک کر دلھا سے ثوبت کی رقم وصول کی۔
بھت سی رسمیں اب ہمیں تواہم پرستی لگتی ہیں لیکن بچپن میں ہم بھی اس کا حصہ رھے ہیں ۔ میں پانچ سال کا تھا تو جب گاٶں کی عورتیں نئے دوپٹے پر کشیدہ کاڑھنے کا کام شروع کرتی تو مجھے بلا کر دس بارہ قدم چلنے کو کہتی اس رسم کا نام پوکھو تھا ان کا خیال کسی شخص کا پوکھو ہلکا اور کسی کا پوکھو بھاری ہوتا ھے ہلکے پوکھو والے کے چلنے سے ان کا کشیدہ جلدی مکمل ہوتا ۔
میرے ایک دوست کا پوکھو بھارا تھا اس کو لسی بلوتے وقت چلایا جاتا کہ مکھن زیادہ نکلتا تھا۔اب جب ہم پیچھے مُڑ کے اس تواہم پرستی کو دیکھتے ہیں تو ہنس ہنس کر ہمارا برا حال ہوتا ھے۔ گاٶں کی زندگی میں نہ پارک ہیں نہ سینما تھیٹر یا سرکس۔ ہسپتال بھی نہیں ہوتے بس دم درود پر ہی علاج ھوتا ھے۔
تفریح کے لئے ہُجرے اور چُونک ہیں جھاں مرد حضرات اکٹھے ہو کر محفل جماتے ہیں ۔عورتیں اکٹھے گاٶں کے قریب پانی بھرنے جائیں یا تنور پر روٹیاں لگانے اکٹھی ہوں تو روزمرہ کی گپ شپ ہو جاتی ھے۔
جب جھولی میں چھید ہی چھید ھوں تو آپ کیا کرینگے؟ غم غلط کرنے کے لئے ڈیرہ کے گاٶں رسم و رواج میں بندھے اس زندگی سے خوب لطف اندوز ھوتے ہیں۔؎ کبھی تو تم کو یاد آئیں گی وہ بہاریں وہ سَماں۔۔جُھکے جُھکے بادلوں کے نیچے ملے تھے ہم تم جہاں جہاں۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: