دسمبر 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مجھے کچھ سوچنے دے ۔۔۔گلزار احمد

ڈیرہ کے ایک قابل اور ذھین سپوت انجینئر جاوید اقبال انجم صاحب نے کچھ روز پہلے یونائیٹڈ بک سنٹر پر اپنی لکھی ہوئی تین کتابیں عطا کیں ۔ان کی پہلی تصنیف ۔۔شہر بے مثال ہے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم ترقی کیوں نہ کر سکے ؟ اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ھےکہ قوم آپس میں حالتِ جنگ میں ھے!!! اس بات کو چھوڑییے کہ لائن آف کنٹرول پر انڈیا خلاف ورزیاں کر رہا ۔ یا وہ ہمارے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر راضی نہیں ۔کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ھو رہا۔افغانستان کے اندر ہمارے ملک کے خلاف دھشت گردی کے سازشیں تیار ھوتی ہیں ۔
یا ملک کے اندر درجنوں دشمن ایجنسیاں دھشت گرد کاروائیاں کرتی ہیں ۔۔ ان سب کاروائیوں کے خلاف ہماری فوج اور سیکورٹی فورسز لڑ رہیں ھے اور اللہ کے فضل سے فتح حاصل کر رہی ھے ۔
اصل مسئلہ ہمارے اندر کا ھے۔ ملک کے اندر عوام کی یہ حالت ھے کہ اگر چار آدمی پاکستان کی گاڑی کو دھکا دے کر آگے لے جانا چاھتے ہیں تو دس آدمی بَانَٹ کے سامنے کھڑے ہو کر گاڑی کو واپس دھکیل رھے ہیں۔اور نتیجے میں پاکستان کی گاڑی وہیں رُکی کھڑی ھے۔آئیے دیکھتے ہیں یہ کیسے ھو رہا ھے؟ اور کیوں ھو رہا ھے؟
ملک میں سیکڑوں شوگر ملیں ہیں لیکن ہر سال کسانوں اور ملوں کے درمیان پھڈا ہوتا ہے۔ ملیں کہتی ہیں گنا مہنگا ہے جبکہ کسان کہتے ہیں قیمت بہت کم ہے خرچہ بھی پورا نہیں ۔ایسا کیوں ھے ؟۔۔کیونکہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں!!!۔
ہم میڈیا چینلز پر روزانہ شام کو ایک دَھما چُوکڑی دیکھتے ہیں۔میڈیا کے اینکرز اپوزیشن اور گورنمنٹ کے لوگوں کو آمنے سامنے بٹھا کے کرید کرید کر اختلافی سوالات کرتے ہیں اور چند سیکنڈوں میں ھمارے وزراء اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے عوامی نمانئدے ایک دوسرے کے خلاف گُتھم گُتھا ھو جاتے ہیں ۔
پھر سکرین سے دھاڑنے کی آوازیں نکلتی ہیں شرکاء کے منہ سے آگ اور دھواں نکل رہا ہوتا ہے اور رات گئے یہ تماشا جاری رھتا ھے قوم tv کے آگے بُت بنے یہ تماشا دیکھتی رھتی ھے اِس سین پارٹ کو نہ صرف اینکرز انجاۓ کرتا ھے بلکہ اِس انتشار پھیلانے کا اینکرز کو لاکھوں روپے معادضہ ملتا ھے آپ پوچھیں گے ایسا کیوں ھے؟؟؟ ہمارے وزراء اور ایم این ایز tv پر آنے سے انکار کیوں نہیں کر دیتے؟
۔بھائی وہ اس لئے کہ قوم حالتِ جنگ میں ھے!! شھر میں واپڈا کی ٹیمیں بجلی چوری کے مہم میں اُترتی ہیں ۔کمزور لوگوں پر ایک میٹر ریڈر اتنا جرمانہ لگا دیتا ہے جتنے اختیار چج کے پاس بھی نہیں ہیں اور جرمانہ معاف کرنے کی اتھارٹی بھی واپڈا کے پاس ہے کمزور ہر ماہ قسطیں کرا کے سزا بھگتتے رہتے ہیں لیکن طاقتور لوگ بالکل محفوظ رہتے ہیں۔کیوں؟ اس لئے کے ہم حالتِ جنگ میں ہیں!!!
چِنچیاں ڈیرہ شھر میں دنداتی پھرتی ہیں ۔چنچی چلانے والوں کی نہ ٹریننگ ھے نہ لائسنس ۔ روزانہ درجنوں لوگ زخمی ھو جاتے ہیں ۔کئی زخمی ھوۓ اور ہیڈ انجری سے وفات پا جاتے ہیں کیونکہ میڈیکل کالج ھونے کے باوجود ہیڈ انجری یا نیورو سرجری کا ڈیرہ میں علاج نہیں ھوتا۔دوسرے شھروں میں چِنچیوں کو اسی وجہ سے بند کر دیا گیااور وہ چنچیاں بھی ہمارے شھر جمع ھو گئ جیسے پانامہ اور سُوِس بنکوں میں بلیک مَنی جمع ھوتی ھے۔
ہمارا ڈیرہ چنچیوں ۔دھشت گردوں۔مفروروں ۔ملاوٹ کرنے والوں کا پانامہ سٹی ہے۔ ایسا کیوں ہوتاھے؟ اس لئے کے قوم حالتِ جنگ میں ھے!!! روزانہ ہائی کورٹ۔محتسب اعلی کے دفاتر سے اور دوسری عدالتوں سے سائلین کے حق میں فیصلے جاری ھوتے ہیں مگر متعلقہ دفاتر یا ایجنسیاں ان فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کرتیں یا فیصلوں کے خلاف سٹے آرڈر لے لیتی ہیں اور وہ کیس کئی سال لٹکا رھتا ھے ۔کیوں؟ بابا بات سمجھیں یہ اس لئے کہ ہماری قوم حالتِ جنگ میں ھے!!!
ڈیرہ شھر کے عام ان پڑھ لوگ تو چھوڑیں بلکہ دانشور ۔ادیب ۔سیاستدان۔پروفیسر۔صحافی۔شاعر بھی ایک میز پر بیٹھ کے اتفاق نہیں کر سکتے۔ دامان آرٹس کونسل کو ادیبوں نے ہی ختم کروایا۔ ڈیرہ پریس کلب کے خلاف خود صحافی محاذ بناتے ہیں ۔ ہماری یونیورسٹی بھی نشانے پر رہتی ہے ۔سیدھی سی بات ہے ہم ڈیرہ کے لوگ آپس میں حالت جنگ میں ہیں!!!
ہماری سڑکیں بنتی ہیں اور فوراً بعد انہیں اُکھاڑنے کے لئے سوئی گیس ۔ ٹیلیفون کیبل۔ واٹر سپلائ ۔سیورج لائن بچھانے والے کُکڑ لے کر پہنچ جاتے ہیں اور کھدائ کر کے بغیر دوبارہ ٹھیک کئے واپس چلے جاتے ہیں قوم ایک مہینے کے اندر پھر غاروں اور کھنڈرات کے دور میں واپس چلی جاتی ھے۔
اب جو سڑکوں کا حال ھوتا وہ دس سال پرانی سے بھی بَھیڑا مطلب بُرا ہوتا ھےاور یہ سب کچھ باہر سے قرضے لے کر بنایا جاتا جن کا سود تک ہم نہیں دے سکتے۔
کچھ مقامی لوگوں نے موٹر سائکل والوں کی سپیڈ سے بچنے کے لئے گھروں کے آگے قبر نما بریکر بنا رکھے کچھ تو نظر بھی نہیں آتے اچانک آدمی ٹھا جا لگتا ھےاگر کوئی مریض بیماری کے حملے سے بچ جاۓ تو بریکر کی مار اور جھٹکے سے فنا ہو جاتا ھے کچھ لوگوں نے گیس کا کنکشن لیتے وقت گڑھے اور نالیاں کھود رکھی ہیں پھر انہیں کبھی یاد نہیں آیا کہ یہاں سے عوام گزرتی ھے نہ اسلام کے اصول یاد آتے ہیں کہ راستوں کو ہر قسم کے ضرر سے صاف رکھا جاۓ۔اور ہم پھر سوچتے ہیں ایسا کیوں ھوتا ھے؟یارو۔ایک ہی جواب ملتا ھے کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں!!!
ملک میں فرقہ بندی۔ لڑائی مار کٹائی۔تجاوزات۔چائنا کٹنگ۔کرپشن۔بھتہ خوری۔رشوت۔سفارش۔میرٹ کی پامالی۔نا انصافی یہ سب کیا ھے؟ کیوں ھے ؟ ہم نے بہتر سال میں ختم کیوں نہیں کی۔
عوام سیاستدانوں کو مورد الزام ٹہراتی ھے۔سیاستدان آگے کسی اور پر مُدعا ڈال دیتے ہیں اور یوں گلشن کا کاروبار چلتا رھتا ھے۔یاد رکھو بدامنی۔نا اتفاقی۔فرقہ بندی۔ناانصافی ۔
جہالت اور تعلیم کی کمی سے کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی پوری دنیا گھوم کے دیکھ لو کہیں بھی امیر کے لئے الگ قانون اور غریب کے لئے الگ نہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ نے کہا ھے جو قوم اپنی حالت نہیں بدلنا چاہتی میں بھی اس کی حالت نہیں بدلتا۔
ساحر لدھیانوی نے کہا تھا؎ یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے۔انکی پوری شاعری سننا چاہیں تو وہ کچھ یوں ہے۔۔؎
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
زندگی تلخ سہی زہر سہی سم ہی سہی
درد و آزار سہی جبر سہی غم ہی سہی
لیکن اس درد و غم و جبر کی وسعت کو تو دیکھ
ظلم کی چھاؤں میں دم توڑتی خلقت کو تو دیکھ
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
جلسہ گاہوں میں یہ دہشت زدہ سہمے انبوہ
رہ گزاروں پہ فلاکت زدہ لوگوں کے گروہ
بھوک اور پیاس سے پژمردہ سیہ فام زمیں
تیرہ و تار مکاں مفلس و بیمار مکیں
نوع انساں میں یہ سرمایہ و محنت کا تضاد
امن و تہذیب کے پرچم تلے قوموں کا فساد
ہر طرف آتش و آہن کا یہ سیلاب عظیم
نت نئے طرز پہ ہوتی ہوئی دنیا تقسیم
لہلہاتے ہوئے کھیتوں پہ جوانی کا سماں
اور دہقان کے چھپر میں نہ بتی نہ دھواں
یہ فلک بوس ملیں دل کش و سیمیں بازار
یہ غلاظت پہ جھپٹتے ہوئے بھوکے نادار
دور ساحل پہ وہ شفاف مکانوں کی قطار
سرسراتے ہوئے پردوں میں سمٹتے گل زار
در و دیوار پہ انوار کا سیلاب رواں
جیسے اک شاعر مدہوش کے خوابوں کا جہاں
یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے
کون انساں کا خدا ہے مجھے کچھ سوچنے دے
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ

یہ بھی پڑھیے:

About The Author