ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پریس انفامیشن ڈیپارٹمنٹ لاہور کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل محمد سعید احمد شیخ کی 800 صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب فرید دروازہ کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔ کتاب میں حضرت خواجہ غلام فرید کے عارفانہ کلام کی لغت کا تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے ۔
اقبالیات کی طرح فریدیات کا علم بھی اکیڈمک حیثیت حاصل کر چکا ہے ۔ یونیورسٹیوں کی سطح پر خواجہ فرید کو پڑھایا جا رہا ہے ۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی ہو رہی ہے ۔ محققین کی طرف سے نت نئی کتابیں آ رہی ہیں ۔
یہ ٹھیک ہے کہ تحقیق کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور نت نئی تحقیقات سامنے آتی رہتی ہیں ، کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی ، بات سے بات نکلتی رہتی ہے ، جیسا کہ کسی نے کہا کہ ’’ بات ہیرا ہے ، بات موتی ہے ، بات لاکھوں کی لاج ہوتی ہے ، ہربات کو بات نہیں کہتے ، بات مشکل سے بات ہوتی ہے ۔‘‘
شیخ سعید کی یہ کتاب بھی الفاظ و معنی کا ایک ایسا جہان ہے جسے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ وسیب میں سرائیکی شاعری کی کتابیں صبح شام آ رہی ہیں ، نثر کی کمی تھی مگر کچھ سالوں سے نثری کتابیں بھی بہت آ رہی ہیں ۔
اس سال کا اہم واقعہ یہ ہے کہ سرائیکی زبان کے دو جدید اور اکیڈمک شعراء پروفیسر رفعت عباس اور ڈاکٹر اشو لال کی نثر میں شائع ہوئی ہیں ۔ اسی طرح تحقیقی کتب بھی آ رہی ہیں ۔
یہ ٹھیک ہے کہ کچھ محققین نے تحقیق کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھا ، شیخ سعید احمد کی موجودہ تحقیقی کتاب بھی حرف آخر نہیں تاہم انہوں نے کتاب کے مقدمہ میں بجا طور پر لکھا کہ ’’ محترم قارئین کرام ! فرید دروازہ بھی دیوان فرید کی تدوین یا ترجمہ کی ماضی میں ہونے والی کوششوں کی جیسی ایک کوشش ہے،
بس اس اور باقیوں میں فرق یہ ہے کہ اس میں آپ کو کہیں پر بھی کوئی ذاتی قیافہ سازی یا شخصی تُک بندی نظر نہیں آئے گی اور نہ ہی بندہ ناچیز کہیں پر آپکو دیوان فرید جیسے ادبی کلاسک کی لغت کو کھوجنے کے ضمن میں زوجہ محترمہ ،دادی و نانی اماں یا کسی متھیلا اور جام نتھو وغیرہ سے اکتساب کردہ علم لسانیات پر تکیہ کرتا دکھائی دے گا ۔ ‘‘ شیخ سعید احمد کا فریدیات پر بہت کام ہے ،
آپ کی اردو انگریزی اور سرائیکی میں کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ شاید ہی سرزمینِ بر صغیر پاک و ہند پر تخلیق ہونے والا کوئی اور صوفیانہ شعری ادب اس کلام کی ہمسری کر سکے ۔ میں ’ دیوان فرید ‘ کو صرف شاعری کی ایک کتاب نہیں بلکہ ایک قلمی عجوبہ کہتا ہوں جو رحمتِ خداوندی سے خواجہ فرید کے حصے میں آیا ۔ اور میں خواجہ فرید کو بھی محض ایک صوفی شاعر نہیں سمجھتا ، ایسا کشش دار سیارہ سمجھتا ہون جس کے مدار میں جو ایک دفعہ داخل ہوا ،
پھر وہ کبھی اس مدار سے باہر نہ کل سکا۔‘‘ فرید دروازہ کے بارے میں معروف لکھاری پروفیسر عصمت اللہ شاہ نے لکھا ہے کہ ’’ محمد سعید احمد شیخ سے میرا یارانہ تب سے ہے جب یہ افسانہ لکھتا اور نظمیں تخلیق کرتا تھا ،
اس کی سادہ دلی کا عالم یہ تھا کہ یہ اپنی نظم سناتے ہوئے پہلے شرماتا اور پھر بے خودی میں آنکھیں موند لیتا تھا ۔ ‘‘ یہ بجا اور درست ہے کہ محمد سعید احمد شیخ کا تخلیقی سفر گو کہ ایک سرائیکی افسانوی مجموعے ’’ پارت ‘‘ سے شروع ہوا لیکن جب سے یہ نوجوان خواجہ فرید کے مدار میں داخل ہواہے، وہیں کا ہو کر رہ گیا ہے۔ میں برسوں سے اسے اسی مدار میں ہی گھومتا دیکھ رہا ہوں ۔
حسرت ہے کہ وہ اس مدار سے نکلے ! میں نے جب بھی ان کی اس ’’ کج ادائی ‘‘ کا شکوہ کیا ہے، وہ ہنس کر بات کو ٹال دیتے ہیں ۔ مجھے میرے اس سوال کا جواب کہ وہ خواجہ فرید کے دائرے سے باہر کیوں نہیں نکلتے ، ویسے تو اس وقت ہی مل گیا تھا جب اس کی ہمراہی کے طفیل سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی رات مجھے کسی گرم کپڑے کے بغیر خواجہ فرید کے مزار کی ملحقہ مسجد میں جاگ کر گزارنا پڑی ۔
لیکن میں ان کے منہ سے سننا چاہتا ہوں کہ آخر روہی کے سناٹوں سے باتیں کرنے والے خواجہ فرید سے اس کا ایسا کیا ’’ عشق کا پیچا‘‘ پڑ گیا ہے کہ وہ خواجہ غلام فرید کے علاوہ کوئی اور بات ہی نہیں کرتے ۔
فریدی لغت کے حوالے سے تحقیقی کتاب فرید دروازہ کے پبلشرابو میسون اللہ بخش تونسوی نے بجا لکھا کہ کلام فرید کی اہمیت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ امیر شریعت عطا اللہ شاہ بخاری کی کتاب ’’ سواطع الالہام ‘‘ میں خواجہ فرید کی شان میں فارسی نظم لکھی ہوئی ہے جس کا ایک فارسی شعر ’’ سرمۂ چشم شد بخاری را، خاک پائے غلامِ خواجہ فرید ‘‘ ہے ،
فروری 1946ء میں اس منقبت کے سننے پر پاکستان کے بہت بڑے سیاسی رہنما نوابزادہ نصر اللہ خان نے نظم تخلیق کی جس کا ایک شعر اس طرح تھا ’’ اللہ اللہ چہ ارمغان برسید ، از زبان ندیم مدح فرید‘‘ ۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ میں خود حیران تھا کہ شیخ سعید صاحب کو خواجہ فرید کی ذات سے اس قدر عشق کیوں ہے ؟ مگر ’’ فرید دروازہ ‘‘ کتاب دیکھی تو ایسا لگا کہ مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا ، زبانی نہ سہی ، قلمی طور پر ہی سہی ، جس خواجہ فرید کو محمد سعید شیخ نے اس کتاب میں دریافت کیا ہے ،
وہ واقعی اس قابل ہے کہ اس سے عشق پیچا ڈالا جائے ۔ فرید دروازہ خواجہ فرید کی شاعری میں شامل الفاظ بارے بڑی تحقیق ہے فریدیات کے طالب علموں کے سامنے یہ عقدہ کھلنے چلا ہے کہ ایک عظیم آدمی کس کمال طریقے سے دنیاوی ایام حیات بسر کر کے حیات جاوداں کی طرف روانہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ شیخ سعید احمد کی یہ کتاب لغات فریدی کے حوالے سے حرف آخر نہیں ہے اس سے بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ایک بات ضرور ہے کہ اب جو بھی تنقید ہوگی علمی حوالے سے ہوگی کہ یہ کتاب ایک ایسا علمی خزانہ ہے جو کہ ایک لفظ کا مطلب بیان کرتے ہوئے علم کے کئی دروازے کھولتی ہے ۔
یہ بھی پڑھیں:
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر