حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پراعتماد ہونے کے دوطرفہ دعوے اپنی جگہ اور وزیراعظم کا یہ الزا م بھی کہ اپوزیشن کی تحریک کو غیر ملکی تعاون حاصل ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ حکومت گھبراہٹ کا شکار ہے وہ جو برسوں سے ”گھابرنا نہیں” کا مشورہ دیتے تھے اب اس بات پر آگئے ہیں کہ ”کرسی چھوڑ دوں گا این آر او نہیں دوگا”۔
کیا معاملہ واقعی ایسے بیرونی مفادات کا ہے اور اپوزیشن واقعتاً کسی ایک یا کچھ ملکوں کے ایجنڈے کو لیکر سیاسی ماحول گرما رہی ہے؟
اس سوال پر لمبی چوڑی بحث ہو سکتی ہے۔
حکومتی اکابرین اس حوالے سے بھارت کے علاوہ جس ملک کا نام اپنی نجی محفلوں میں لے رہے ہیں وہ یہاں لکھنے سے قاصر ہوں البتہ یہ حکومتی مؤقف درست نہیں کہ وہ دوست ملک اپوزیشن کی تحریک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ جہاں تک ”اُس” ملک سے بعض معاملات پر اختلاف اور فاصلے بڑھنے کا تعلق ہے تو اس کی وجوہات یکسر مختلف ہیں۔
اہم ترین وجہ بہرطور یہی ہے کہ برادرکشی کی کسی جنگ میں عدم شرکت کا فیصلہ درست ہے۔ یہ فیصلہ پیپلزپارٹی اور پھر نون لیگ کے ادوار میں بھی ہوا تھا اور اب بھی اسی پر عمل ہو رہا ہے۔
صاف سیدھی بات ہے ہم افغان فساد میں گردن پھنسا کر نتائج بھگت چکے۔ افغان سرزمین پر لڑی گئی سوویت امریکہ جنگ میں ہماری شرکت قومی جرم تھا، اس جرم کے مرتکب افراد کو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔
سادہ سے انداز میں حساب کر کے دیکھ لیجئے کہ افغان انقلاب ثور کے بعد سے آج تک ہماری افغان پالیسی نے ہمیں دیا کیا اور اس پالیسی کی وجہ سے ہمارا کتنا جانی ومالی نقصان ہوا؟
ہمارے یہاں حساب نہیں ہوتا بس ہر دور کی قیادت کامیابیوں کے قصیدے سنواتی رہتی ہے، ورنہ کڑوا سچ یہ ہے کہ پچھلے 40برسوں کے دوران ہماری افغان پالیسی نے ہمیں ساڑھے تین کھرب ڈالر کا نقصان پہنچایا، بدلے میں جو ملا اس سے عوام کو کیا ملا اور بالادست اشرافیہ کو کیا اس پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے۔
کیا ہم اتنے آزاد ہیں کہ اس حساس موضوع پر اس سے آگے بڑھ کر کچھ لکھ سکیں؟
آپ اس سوال کا جواب تلاش کیجئے ہم مکرر عرض کرتے ہیں کہ حکومت یا اپوزیشن دونوں کو ایک دوسرے پر ملک دشمن کے الزامات لگانے سے گریز کرنا چاہئے۔
یہ ملک ہم سب یعنی22کروڑ لوگوں کا ہے، سبھی اس کے مالک ومختار ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ پچھلے 73برسوں کے دوران عوام کو چند سالوں کے علاوہ مالک ومختار کسی نے تسلیم نہیں کیا۔ جس نے عوام کے مالک ومختار ہونے کا نعرہ لگایا تھا اُسے پھانسی چڑھا دیا گیا۔
اُصولی طور پرتو سوال حکومت سے پوچھا جانا چاہیے کہ چین، روس، ایران اور ترکی پر مشتمل علاقائی گروپ میں شمولیت سے گریز کیوں کیا گیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس کے کہنے پر علاقائی وعالمی سیاست ومعیشت کے نئے دھڑے میں شرکت سے گریز کیا گیا اب اس پر الزام لگایا جارہا ہے کہ ”وہ” اپوزیشن کے پیچھے ہے؟
ایسا ہے تو یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ بہت احتیاط کی ضرورت ہے، ہم اس وقت سفارتی تنہائی کا شکار ہیں۔
مخدوم شاہ محمود قریشی کو کمبوڈیا سے ”کٹورا” تحفہ میں ملنے سے سفارتی تنہائی ختم نہیں ہو جاتی۔
ثانیاً یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف نے اقتدار کے اولین دن سے آج تک اپنے سیاسی مخالفین کیلئے جو زبان استعمال کی اس زبان نے ہی اس سیاسی تصادم کا راستہ ہموار کیا جو تیزی سے بڑھتا چلا آرہا ہے۔
سیاست رکھ رکھاو سے ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں اوئے توئے، چور، لٹیرے، فلاں فلاں سے عبارت ہے، اس کا نتیجہ کیا نکلا؟
یہ صاف سامنے ہے، یہ کہہ دنیا کہ سارے چور ہمارے خلاف اکٹھے ہوگئے ہیں رواں صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے۔ یہ سچ ہوتا اگر خسرو بختیار، رزاق داؤد، جہانگیر ترین، بابر ندیم، عامر کیانی اور چند دوسرے حکومتی صفوں میں موجود نہ ہوتے۔
تحریک انصاف جس بات کو نظرانداز کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دو بڑی جماعتیں جو نظام کے اندر رہ کر اصلاح احوال کو جمہوریت کا حصہ سمجھتی تھیں اب مستعفی ہونے پر آمادہ ہیں جو بات 2018 میں تنہا مولانا فضل الرحمن کہہ رہے تھے آج پوری پی ڈی ایم کہہ رہی ہے۔
اصولی طور پر اس صورتحال کا تجزیہ ضروری ہے مگر ہوا کے گھوڑوں پر سوار ہمارے انصافی دوست تجزیہ کرنے کی بجائے اس وقت بھی طنز کے نشتر چلا کر جی بہلا رہے ہیں۔ عدم برداشت اور نفرت کے بڑھاوے کی وجہ سے بھی ہم اُس بندگلی کی طرف کشاں کشاں جارہے ہیں جہاں سے نکلنا بہت مشکل ہوگا۔
یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ اپوزیشن استعفیٰ دے ہم ضمنی انتخابات کروا دیں گے۔ کیا اپوزیشن کے استعفوں کے بعد دو تہائی اکثریت سے محروم حکومت کے قائم رہنے کا اخلاقی جواز رہ جائے گا، میری دانست میں اس اہم سوال پر غور کیا جانا چاہئے۔
یہ بھی عرض کردوں ہر وقت اوئے توئے اور فلاں فلاں کا سواد فروخت نہیں ہوتا، نظام کو آگے بڑھانے کیلئے زیادہ قربانی یا یوں کہہ لیجئے ایثار کا مظاہرہ حکومت کو کرنا ہوتا ہے، حکومت کی حالت یہ ہے کہ وہ ڈھنگ کی کوئی بات سننے پر آمادہ ہی نہیں۔
مکرر عرض ہے حالات بگڑنے کی طرف جارہے ہیں، خرابی کے دونوں فریق ذمہ دار ہیں لیکن زیادہ حصہ حکمران قیادت کا ہے۔ چند لمحے نکال کر کسی دن فردوس عاشق اعوان، شہباز گل اور شبلی فراز کے کلام وبیان کا تجزیہ کیجئے، کیا کسی مذہب معاشرے میں اس طرح کے کلام وبیان والے معتبرہوئے؟
ہماری بدنصیبی یہی ہے کہ روزاول سے ہی سستے جملے اُچھالنے والے ”پارسا” اور رہبر ورہنما کے طور پر مسلط ہو جاتے رہے۔
کاش! ہمارے یہاں مکالمہ رواج پاسکتا، ہم گزرے ماہ وسال اور حکومتوں کے ادوار پر خلوص سے مکالمہ کر کے دیکھتے کہ جن رویوں اور زبان دانیوں کو پھر سے رواج دے رہے ہیں ان کی بدولت ماضی میں کتنا نقصان ہوا۔
صحافت اور سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو جمہوری ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونا چاہئے۔
حالات جس سمت بڑھ رہے ہیں اگر اسی طرح بڑھتے رہے تو نفرت پر ہوئی سماجی تقسیم تصادموں کا راستہ کھولنے میں معاون بنے گی۔ سو ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ صبر وتحمل اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا جائے۔
حزب اختلاف کی شکایات ہیں ان شکایات پر بات ہونی چاہئے۔ حزب اختلاف کو بھی دروازے بند کر کے نہیں بیٹھ جانا چاہئے، سیاسی عمل اور نظام کو آگے بڑھانے کیلئے اگر تھوڑی تھوڑی قربانی دونوں فریق دیں تو بات بن سکتی ہے۔ کیا ہم اُمید کریں کہ انا کے خول میں بند طرفین قربانی دینے پر آمادہ ہوں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ