رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی بھی دھوپ میں بیٹھا ہوں وہی پرانی روایت اور پرانا کام۔ صبح گیارہ بجے سے شام چار بجے تک کتابیں، کزکو اور اس کی نئی Cat دوست جس کا نام میں نے کوئین رکھا ہے کیونکہ پرانی داستانوں میں کزکو ایک بادشاہ کا نام تھا۔ تو اس مناسبت سے کوئین رکھ دیا۔
دھوپ میں ان کی اٹھکیلیاں اور ایک دوسرے سے رومانس کو چھپ کر دیکھتا رہتا ہوں کہ انہیں کہیں سے نہ لگے کوئی ان کے پرائیویٹ لحموں کو چرانے کی کوشش کررہا ہے۔
ابھی باہر اٹھ کر گیا اور لوٹا تو ڈرائیور صاحب نے میز پر ایک نئی کتاب سجا کر رکھ دی تھی جو کورئر دے گیا تھا۔ وہی گگن شاہد اور امر شاہد کا کمال جس کے لیے وہ جانے جاتے ہیں۔ کمال پروڈکشن اور کوالٹی۔
تھوڑا ساغصہ آیا کہ میں کتاب کو خود پیکنگ سے نکال کر اس کا لمس محسوس کرتا ہوں۔ آج اس کا لمس افضل صاحب نے محسوس کیا۔
عامر خاکوانی کی کتاب دیکھی تو یاد آیا کتنے برسوں سے انہیں پڑھ رہا ہوں ۔ ایک دفعہ اسلام آباد کلب میں ان سے طویل گپ لگی تو ساتھ میں ہمارے مشترکہ دوست وصی بابا بھی تھے۔
عامر اور میرے درمیان مجھے محسوس ہوتا تھا نظریاتی اختلاف ہے۔ وہ رائٹ ونگ مزاج کے بندے اور میں خود کو لیفٹ سائڈ پر محسوس کرتا تھا۔
میں نے کہا عامر بھائی ایک بات کہوں مائنڈ نہ کریں تو۔ وہ ہمیشہ مجھے بہت عزت دیتے ہیں اور کئی مراحل پر انہوں نے میرے لیے بہت لکھا جب میں ہر طرف سے دوستوں دشمنوں کے نشانے پر تھا۔
ہر دفعہ انہیں میرا دفاع کرنا پڑتا۔ اس لیے کچھ کہتے ہوئے ڈر بھی رہاتھا کہ کہیں خاکوانی کے اندر کا پٹھان یہ نہ سمجھے کہ جس کو بھائی سمجھا اور ہمیشہ ہر فورم پر دفاع کیا وہی دوست خود کو بڑا لکھاری سمجھ کر مجھے اب سمجھانے کی کوشش کررہا ہے کہ مجھے کیا اور کیسے لکھنا چاہئے۔
خیر انہوں نے اجازت دی تو میں نے کہا آپ کا میں کافی عرصے سے ریڈر ہوں لیکن ایک بات مجھے ہمیشہ کھٹکتی ہے کہ آپ کے کالم میں سب کچھ توازن میں ہوتا ہے۔ اپ بہت بیلنس کر کے لکھتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے کوئی ناراض نہ ہوجائے۔ سب آپ کی تحریر کو پسند کریں۔ میں نے کہا اگر اپ نے خود کوئی پوزیشن نہیں لینی اور کالم میں ہمیں سب کی پوزیشن بتانی ہے تو میں آپ کا کالم کیوں پڑھوں؟ میں نے کہا خبر اور کالم میں فرق ہونا چاہئے۔ بینلس تو خبر میں کیا جاتا ہے کہ سب کا موقف دو۔ کالم تو ہم اپ کا موقف جاننے کے لیے پڑھتے ہیں۔ اگر اس میں اپ کا موقف ہی نہیں تو پھر کیوں پڑھوں؟
مجھے لگا شاید میں کچھ سخت بول گیا ہوں۔
خیر ان کا بڑا پن اور بولے پھر مجھے کیا کرنا چاہئے۔ میں نے کہا میرے خیال میں آپ بہت کتابیں پڑھتے ہیں، کمال کی روانی اپ کے قلم میں ہے، خوبصورت نثر لکھتے ہیں۔ اپ ایک کام نہیں کرتے۔
عامر بولا وہ کیا؟
میں نے کہا آپ کالم یا اپنی تحریر میں پوزیشن نہیں لیتے کہ آپ کس کو غلط یا کس کو درست سمجھتے ہیں۔ آپ پوزیشن لیں۔ جو اپ کو صیح لگتا ہے وہی لکھیں۔ ہم وہی پڑھنا چاہتے ہیں کہ عامر خاکوانی کیا سوچتا ہے، اس کی رائے کیا ہے اور وہ کہاں کھڑا ہے اور اس کی جگہ کہاں بنتی ہے۔
میں نے کہا پوزیشن لینے کا ایک خطرہ ہے کہ آپ کے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا کیونکہ آپ کی رائے یا پوزیشن بہت ساروں کو خوش کرے گی اور بہت سارے ناراض ہوں گے۔ آپ دنیا میں سب کو خوش نہیں کرسکتے۔
آپ ایک ہی کام کرسکتے ہیں کہ خود کو خوش کریں اور وہی لکھیں جو آپ کو لگتا ہے آپ کے دل اور دماغ کی آواز ہے۔ لوگ اپ کو گالیاں دیں گے، کچھ سرائیں گے، کچھ میسجز تو کچھ واٹس ایپ تو کچھ فیس بک تو کچھ سوشل میڈیا پر بھد اڑائیں گے کیونکہ آپ کی رائے یا پوزیشن انہیں متاثر کرے گی۔ لیکن یہی چیز آپ کو ممتاز کرے گی۔ آپ کو بڑا کالم نگار بنائے گی اور آپ کی ریڈرشپ بڑھے گی۔
مجھے خوشی ہوئی جب کچھ عرصے بعد عامر خاکوانی کے کالموں میں وہ رنگ ا بھرا جس کا انتظار تھا۔ انہوں نے واضح اسٹینڈ لینے شروع کیے۔ ڈٹ کر لکھنا شروع کیا اور خوب لکھا اور آج ان کی تحریریں آپ کو یاد دلاتی ہیں کہ اچھا کیسے لکھا جاتا ہے، نئے نئے خیالات اور ائیڈیاز کو کیسے مثبت انداز میں اپنایا جاسکتا ہے۔ عامر کی تحریروں میں آپ کو کبھی بھی نیگٹو خیالات نہیں ملیں گے۔
مثبت خیالات کا حامل انسان اور لکھاری اس لیے نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کو پڑھتی ہے اور بحث کرتی ہے۔ عامر نے ہی سوشل میڈیا پر ایک نیا ٹرینڈ دیا کہ اپنے قارئین سے گفتگو شروع کی۔ ان کی سخت باتوں اور بعض دفعہ نازیبا جملوں اور تحمل سے جواب دیا۔ عامر کے پاس لکھنے کو بہت کچھ ہے۔ ایسی روانی اور لاجک بہت کم لکھاریوں کی قسمت میں ہے۔ آپ ان سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن تیار رہیں وہ اس کا جواب بھی شاندار لاجک سے دیں گے۔
کتابوں کے بے پناہ معطالعے نے انہیں بہت کچھ دےدیا ہے۔ جتنا انہوں نے تراجم اور کتابوں کے reviews اپنے کالموں میں کیے ہیں وہ اور کسی کالم نگار کی قسمت میں نہ تھا۔ پاکستان کے چند پڑھے لکھے کالم نگار جو کتاب پڑھتے ہیں ان میں عامر کا نام اوپر ہے۔
اگرچہ بعض دفعہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر کا رائٹ ونگ ان پر حاوی ہوجاتا ہے حالانکہ جتنا وہ پڑھتے ہیں اس کے بعد اس کی شدت کم ہو جانی چاہئے تھی۔
عامر نے مجھے بھی ایک مشورہ دیا تھا کہ مجھے ہر وقت سیاست اور سکینڈلز پر نہیں لکھنا چائیے۔ مجھے عام لائٹ اور عام انسانوں کی زندگی کےموضوعات پر لکھنا چاہئے تاکہ لوگ ہر وقت سیاست اور سکینڈلز پڑھ پڑھ کر بے حس اور بور نہ ہو جائیں۔ مجھے ان کی بات درست لگی کہ میں رپورٹر ہونے ناطے شاید کالموں میں سنجیدہ موضوع اور کرپشن پر زیادہ لکھتا ہوں۔
یوں عامر خاکوانی نے میری رائے پر غور کیا اور میں نے ان کی رائے کو اہمیت دے کر وہ کالم لکھنا شروع کیے جن پر مجھے سب سے زیادہ فیڈ بیک ملا۔
عامر نے اپنی اس کتاب کا جو طویل دیباچہ لکھا ہے وہ بھی اس کتاب کی دیگر کہانیوں اور پر اگر بھاری نہیں تو کم بھی نہیں۔
اپنی ذہنی اور فکری گروتھ کا جس طرح انہوں نے خود ایک تنقیدی جائزہ لیا ہے وہ اپنی جگہ اہم ہے۔ میں ارشاد عارف صاحب کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ کالم پچاس سال کی عمر میں لکھنا چاہئے۔ شاید وہ کہنا چاہتے ہوں گے کہ اس عمر میں آپ کے اندر کچھ ٹھہرائو آجاتا ہے جب کہ جوانی میں شاید جوش زیادہ ہوتا ہے یا پھر نالج نہیں ہوتا اور آپ کی تحریروں میں وہ میچورٹی نہیں ہوتی۔ میرا خیال ہے اپ جتنا زیادہ پڑھتے جائیں گے آپ کے اندر لکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی جائے گی۔ جتنا اچھا پڑھیں گے اتنا اچھا لکھیں گے۔
آپ کسی بھی عمر میں اچھا پڑھ اور اچھا لکھ سکتے ہیں۔ دنیا کے کئی ادیبوں نے بہت لکھا اور بعض نے تو بوڑھا ہو کر اپنے لکھے کو یہ کہہ کر ڈس اون کردیا کہ یار کیا بکواس لکھتے تھے۔ لیکن یہی خوبی ہے کہ آپ ہر عمر میں جو سوچتے ہیں وہی لکھتے ہیں۔ پھر کوئی واقعہ، کوئی کتاب، کوئی نئی لاجک، نیا تجربہ، نئی سوچ آپ کی ذہنی کیفت کو متاثر کرتی ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ یار کیا جھک مارتا رہا ہوں اب تک۔ آپ پھر کچھ عرصے بعد محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے خیالات بدل رہے ہیں۔ آپ کی تحریروں کا رنگ بدل رہا ہے۔ آپ کو اپنا پچھلا لکھا پھر بیکار اور irrelevant لگنا شروع ہوجاتا ہے۔
سوال یہ ہے کیا سب کو پچاس سال کی عمر تک انتظار کرنا چاہئے اور پھر لکھنا شروع کریں یا پھر جس عمر میں جو دل کررہا ہے وہ لکھیں؟ پھر اس بات کی کیاضمانت ہے کہ پچپن برس کی عمر میں یہ نہیں لگے گا کہ جو پچاس برس کی عمر میں لکھا وہ میچور نہیں تھا، اب میچور لکھ رہا ہوں؟
اچھا لکھاری ہمیشہ کچھ عرصے بعد محسوس کرے گا کہ وہ پہلے بہتر نہیں لکھ رہا تھا۔ اب بہتر لکھ رہا ہے۔ ہر دفعہ اسے یہی محسوس ہوگا۔ وہ ایک جگہ نہیں رک جائے گا کہ اب جو لکھ رہا ہونا وہی حرف آخر ہے۔ بدلتے خیالات ہی اسی کی گروتھ ہے، یہی اس کی کامیابی اور یہی زندگی ہے کہ ہر اگلہ لحمہ آپ کو سمجدار کرجاتا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ کچھ لوگ عمر بڑھنے کے ساتھ سمجھدار ہوتے ہیں جب کہ کچھ صرف بوڑھے ہوتے ہیں۔
عامر خاکوانی کو پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہورہا ہے وہ عمر بڑھنے کے ساتھ نہ صرف سمجھدار بلکہ ذہین لکھاری بن کر ابھرا ہے۔۔
یہ بھی پڑھیے:
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر