نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان صاحب 2008 سے حکومت میں ’’باریاں‘‘ لینے والے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں تو ’’بے جواز‘‘سنائی نہیں دیتے۔ کرکٹ کی وجہ سے حاصل ہوئی بے پناہ شہرت کو انہوں نے بہت لگن سے لاہور میں کینسر کے علاج کے لئے ایک جدید ترین ہسپتال کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔
وہ ہسپتال تعمیر ہوگیا تو سیاست دانوں کی بے حسی اور کرپشن سے اُکتائے پڑھے لکھے شہری متوسط طبقے کی ایک مؤثر تعداد نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنی توانائی کو اب ’’سیاسی گند‘‘ صاف کرنے کے لئے بھی استعمال کریں۔ تھوڑی جھجک دکھانے کے بعد وہ اس مشن پر ڈٹ گئے اور بالآخر ایک طویل جدوجہد کے بعد اگست 2018 میں پاکستان کے وزیر اعظم کے منصب پر براجمان ہوگئے۔
اقتدار سنبھالے ہوئے ابھی انہیں اڑھائی سال بھی نہیں گزرے۔ ہمارے ’’اتاولے‘‘ عوام کی اکثریت مگر یہ سوچنا شروع ہوگئی ہے ’’مزا‘‘ نہیں آیا۔ مایوس ہو کر ان ہی ’’چور لٹیروں‘‘ کے جلسوں میں شریک ہونا شروع ہو گئی ہے جو تحریک انصاف کے بیانیے کے مطابق پاکستان کی تباہی اور پسماندگی کے اصل ذمہ دار ہیں۔ عمران خان صاحب اور ان کے معاونین کو مزید دُکھ یہ بھی ہے کہ ’’چور اور لٹیروں‘‘ کے مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری جیسے ’’وارثوں‘‘ کو بھی سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔
حالانکہ ان دونوں کی واحد پہچان / کارنامہ یا اہمیت فقط یہ ہے کہ ان کے والد پاکستان کے وزیر اعظم یا صدر رہے۔ ’’کرپٹ‘‘ والدین کے وارثوں کی پذیرائی انہیں حیران وپریشان کررہی ہے۔
عمران خان اور ان کی جماعت کے بیانیے سے اختلاف رکھنے والوں کو بھی لیکن یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ وہ اقتدار کے کھیل سے جڑے اہم ترین فریقوں میں شامل ہیں۔ ان کے پرستاروں کی ایک طاقت ور Base بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ پرستاروں کی اس Base کا نواز شریف اور آصف علی زرداری کے وارثوں کے حامیوں سے ’’تو نہیں یا میں نہیں (Either/Or)‘‘ والا مقابلہ ایک سیاسی حقیقت ہے۔ ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘ والی ’’جمہوریت‘‘ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
’’صحافیوں‘‘ سے مگر ’’غیر جانب داری‘‘ کی توقع باندھی جاتی ہے۔ سیاسی جنگ میں وہ کسی ایک فریق کے ’’بھونپو‘‘ بن جائیں تو خلقِ خدا کے لئے ’’غیر جانبدارانہ‘‘ تجزیوں کی بدولت ’’آزادانہ رائے‘‘ قائم کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ گئے دنوں میں ناخواندگی کے باعث عوام کی اکثریت پرنٹ صحافت تک محدود ہوئے ’’صحافیوں‘‘ کی رہ نمائی سے مگر محروم رہی تھی۔ ایک ’’روشن خیال حکمران‘‘ -جنرل مشرف- نے فوجی آمر ہوتے ہوئے بھی عوام کی مؤثر رہنمائی کو ممکن بنانے کے لئے 24/7 ٹی وی چینلوں کو متعارف کروایا۔
ٹی وی سکرینوں پر چھائے ’’صحافی‘‘ اس کے بعد مبلغوں کی طرح پاکستان کے ’’جاہل‘‘ عوام کی ذہن سازی پر مامور ہوگئے۔ لاکھوں افراد ان کے خیالات کو مریدوں سے مختص عقیدت کے ساتھ سنتے ہیں۔ وہ بازار میں نظر آجائیں تو لوگ ان کے ساتھ سیلفیاں لینے کو بے چین ہوجاتے ہیں۔
عوام میں بے پناہ مقبول اور اپنے ٹی وی نیٹ ورکس کے لئے Ratings کے ریکارڈ قائم کرتے چند صحافی جن کی دیانت اور حب الوطنی پر اُنگلی نہیں اٹھائی جاسکتی ان دنوں بہت پریشان نظر آرہے ہیں۔ نہایت درد مندی سے نوحہ خواں ہیں کہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں طویل عدالتی عمل کے بعد ’’صادق و امین‘‘ ثابت نہ ہوئے نوازشریف کو ہمارے عوام کی ایک مؤثر تعداد اب بھی احترام سے سنتی ہے۔
وفورِ عقیدت میں یہ فراموش کردیا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہوجانے کے بعد احتساب عدالت نے نواز شریف کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت جیل بھی بھیجا تھا۔ جیل میں چند دن گزارنے کے بعد موصو ف نے میرے محترم ساتھیوں کے بقول شدید بیمار ہونے کا ’’ڈرامہ‘‘ رچایا۔ میڈیا میں موجود شریف خاندان کے تنخواہ دار کارندوں نے ان کی ’’بیماری‘‘ کو مبالغہ آمیزی کے ذریعے ’’خطرناک‘‘ بنا کر پیش کیا۔ بالآخر عمران حکومت مجبور ہوگئی کہ ’’انسانی ہمدردی‘‘ کی بنیاد پر انہیں علاج کروانے لندن بھیج دے۔ حکومت کو یقین دلایا گیا تھا کہ لندن میں آٹھ ہفتے گزارنے کے بعد موصوف وطن واپس لوٹ آئیں گے۔
وہ مگر برطانیہ ہی میں براجمان ہوگئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اب انہیں ’’اشتہاری‘‘ بھی ٹھہرادیا۔ وطن لوٹ کر عدالتوں میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے بجائے نواز شریف اب گزشتہ کئی مہینوں سے انٹرنیٹ کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے لوگوں سے تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر خطاب کرنا شروع ہوگئے ہیں۔
ان کے خطاب کو جوش و جذبے کیساتھ سننے والوں کی تعداد کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس تعداد کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ہمارے دیانت دار اور محب وطن ذہن ساز نہایت فکر مندی سے عوام کی بصیرت پر سوال اٹھانے کو مجبور ہو رہے ہیں۔ وہ متفکر ہیں کہ نواز شریف کے عقیدت مند یہ حقیقت کیوں بھول گئے کہ وہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے روبرو ’’صادق اور امین‘‘ ثابت نہیں ہوئے تھے۔ احتساب عدالت کے سزا یافتہ مجرم ہیں۔ لندن میں ایک ’’بھگوڑے‘‘ کے طور پر قیام پذیر ہیں۔
’’حیف ہے اس قوم پہ‘‘ والی پریشانی سے مغلوب ہوئے محترم اور عوام میں مقبول ساتھیوں کے دُکھ کو بہت احترام سے سنتے ہوئے میرا دل بھی اکثر گھبرا جاتا ہے۔ صحافت کا پیشہ 1975 میں رزق کمانے اور تھوڑی شہرت حاصل کرنے کے لئے اختیار کیا تھا۔ لوگوں کی ذہن سازی کو اپنا فریضہ کبھی بنا نہیں پایا۔ سیاست دانوں کا روپ دھارے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو جرأت و بہادری سے بے نقاب کرنے کی لگن سے محروم رہا۔ اسی باعث پرنٹ صحافت سے ٹی وی کی طرف گیا تو کرپشن سے نفرت کرنے والے ناظرین نے بالآخر میرا پروگرام دیکھنا چھوڑ دیا۔
جس ٹی وی نیٹ ورک کے لئے میں یہ پروگرام کرتا تھا وہ ’’مالی بحران‘‘ کی وجہ سے میری تنخواہ ادا کرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ بالآخر انہوں نے مجھے فارغ کردیا۔ 1975سے سوائے صحافت کے مجھے رزق کمانے کے کسی اور طریقے کا علم ہی نہیں تھا۔ اس کے باوجود اپنے طویل کیرئیر میں آج تک کسی ا دارے میں نوکری کی درخواست نہیں دی تھی۔ ہمیشہ مجھ سے اچھی ’’آفروں‘‘ کے ساتھ رابطہ ہوا۔
جہاں کام کرتا تھا اگر وہاں کا ماحول پسند نہ آتا تو ازخود استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ جاتا۔ ساری عمر صحافت کی نذر کردینے کے بعد بالآخر Sack یعنی ’’فارغ‘‘ ہونے کی اذیت و ذلت نصیب ہوئی۔ محترمہ رمیزہ مجید نظامی کی مہربانی ہے کہ ’’نوائے وقت‘‘ جیسے مستند اخبار کے دوسرے صفحے پر تصویر سمیت میرا کالم چھاپ کر مجھے اس پیشے میں کسی نہ کسی صورت زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
شرمندگی سے وگرنہ کسی کونے میں بیٹھا اپنی عمر کے رائیگاں ہوجانے کے دُکھ میں مبتلا ہوکر کامل گمنامی کی موت کا شکار ہوجاتا۔ ’’صحافت‘‘ کے ضمن میں اپنی کوتاہی فن شرمناک انداز میں بے نقاب ہوجانے کے باوجود پاکستان کے عام شہری کے طور پر میں اپنے پیشے میں ساکھ اور مقبولیت کے اعتبار سے کامیاب ترین قرار پائے محترم ساتھیوں کے اس سوال کو نظرانداز نہیں کرسکتا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے روبرو خود کو ’’صادق اور امین‘‘ ثابت نہ کرنے والے نواز شریف کو ان دنوں اتنا ’’رش‘‘ کیوں مل رہا ہے۔
ہمارے سادہ لوح عوام اس حقیقت کو کیوں نظر انداز کئے ہوئے ہیں کہ نااہل قرار پائے نواز شریف کو کرپشن کے الزام میں احتساب عدالت نے طویل سزا سنائی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے علاج کے بہانے لندن میں براجمان ہوئے اس ’’مجرم‘‘ کو اب ’’اشتہاری‘‘ بھی قرار دے دیا ہے۔ نواز شریف کی بابت اٹھائے سوالات پر غور کرنا شروع کیا تو اچانک یاد یہ بھی آگیا کہ ہمارے ہاں ذوالفقار علی بھٹو نام کا بھی ایک وزیر اعظم ہوا کرتا تھا۔
اپریل 1979 میں اسے کسی فوجی عدالت کے حکم سے نہیں بلکہ ’’آئین اور قانون‘‘ کے تحت قائم سپریم کورٹ آف پاکستان کے حتمی فیصلے کے نتیجہ میں پھانسی پر چڑھایا گیا تھا۔ موصوف کی پھانسی کی وجہ ’’بغاوت‘‘ نہیں بلکہ قتل جیسا سنگین جرم تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اس کے باوجود ان کے پرستار ’’شہید‘‘ پکارتے ہیں۔
گویا انہیں ’’قاتل‘‘ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ اس پہلو پر غور کرتے ہوئے یاد یہ بھی آیا کہ 1848 میں پنجاب پر قبضے کے بعد انگریزوں نے گائوں گائوں جاکر ہوئی تحقیق کے بعد ایک بھاری بھر کم دستاویز مرتب کی تھی۔
اس دستاویز نے پنجاب کے باسیوں کو “Criminal Tribes” یعنی جرائم پیشہ قبائل میں تقسیم کیا تھا۔ ’’جرائم ‘‘ کی مبینہ طور پر عادی دھرتی کو ’’مہذب‘‘ بنانے کے لئے سمندر پار سے آئے ’’اچھی حکومت‘‘ کے خواہاں حکمرانوں نے لہٰذا ہمارے دریائوں کے کناروں پر اُگے جنگلوں کو صاف کیا۔ انکی جگہ نہروں کے ذریعے بے پناہ رقبوں کو کاشت کاری کے قابل بنایا گیا۔
یہ رقبے ’’بندوبست دوامی‘‘ کے تحت ’’شرفا‘‘ کی ایک نئی نسل تیار کرنے کے لئے عطا ہوئے ’’شرفا‘‘ کی نئی نسلوں کی ’’تعلیم‘‘ کے لئے ایچی سن کالج جیسے ادارے بنے۔ پولیس کا نیا نظام متعارف ہوا اور لاہور کے ہائی کورٹ کا قیام عمل میں آیا۔ آج کے حکمرانوں کو بھی ہمارے سادہ لوح عوام کو ’’قانون کا احترام‘‘ سکھانے اور ’’مہذب‘‘ بنانے کے لئے کوئی نئے راستے ڈھونڈنا ہوں گے۔ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری جیسے وارث وگرنہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی ’’گمراہ‘‘ کرتے رہیں گے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
یہ بھی پڑھیں:کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر