تحریر: زمان جعفری
ترجمہ: شہزاد عرفان، عباس ݙاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر 2
پہلا باب
قومی سوال
آج پاکستان میں قومی سوال مضبوط سائنسی تضاد کی صورت میں ابھر رہا ہے جو کہ دو تاریخی رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے ۔ پہلے نمبر پر قومی جبر اور محکومی کے خلاف انتھک جدوجہد، جس کی راہ میں ریاستی بیورو کریسی اور جاگیرداروں کی مطلق العنانیت پسندی بڑی رکاوٹیں ہیں۔
دوسرے نمبر پر آزاد مرضی، اور رضاکارانہ بنیادوں پر آزاد قومی ریاستوں کی رضاکارانہ فیڈریشن کی تشکیل۔ واضح رہے کہ قومی سوال کو تاریخی اور اقتصادی تناظر میں دیکھنا بے حد ضروری ہے۔
قومی سوال کونہ تو تجریدی طور پر دیکھا جائے، کیونکہ قومی سوال طبقاتی سوال کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور نہ ہی قومی سوال کو جمہوریت کی تجریدیت پسندی کی سوچ کے ساتھ دیکھا جائے۔
مارکس کسی بھی مخصوص گروہ کے مطالعہ کے دوران تجریدیت پسندی کا مخالف تھا۔ جبکہ لینن قومی سوال پر بحث کرتے ہوئے زور دیتا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ پارٹی اپنی پالیسی پر انحصار کرے اور اس کی بنیاد محض تجرید اور رسمی اصولوں پر نہ ہو بلکہ پہلے آزاد اور استحصالی قوموں اور محکوم ، محروم اور جبری محکومی کا شکار قوموں کے مابین واضح تفریق کرتے ہوئے مخصوص تاریخی حقائق کی مختصراً جانچ پڑتال پر مبنی ہو۔
لینن واضح کرتا ہے کہ کسی بھی ملک کے مخصوص حالات کو سیاق و سباق سے جوڑے بغیر قومی سوال کی روح کو سمجھنا ناممکن ہے۔ قوم اور قومی تعلقات کے پروان چڑھنے کا تجزیہ کرتے ہوئے تاریخ پسندی کا اصول مارکس اور لینن کے تصورات کا ایک بنیادی اصول ہے ۔
مارکس ، اینگلز اور لینن نے قومی زندگی اور قومی تعلقات کے عوامل اور واقعات کا ٹھوس تاریخی اصول وضع کرتے وقت اس مسئلے کے بین القوامی کردار ، قوم کی تشکیل کے عمل کی آفاقیت ، قومی تحریکوں کے پروان چڑھنے اور قومی ریاستوں کے ظہور پر خصوصی توجہ دی تھی۔ اصولیات کے نقطہ نظر سے قومیت اور معاشرتی زندگی کے آزادانہ اور باہمی عوامل کے باہمی ربط کا تجزیہ کرنا انتہائی اہم ہے۔
اور قومیتوں کا یہ باہمی ربط کبھی بھی سماج کے معاشی، سماجی ، سیاسی حالات یا شعوری، اخلاقی اور نفسیاتی ارتقاء سے باہر وجود نہیں رکھتا۔ قومی سوال کو گہرائی تک سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ قوم، قومیتوں ، قومی گروہوں اور نسلی گروہوں کی تشریح کے اصولوں کو سمجھا جائے۔
"قوم” کا تصور پہلی صدی عیسوی سے موجود ہے۔ رومن اس کو قبیلے کے لوگوں کے مجموعہ کے طور پر لیتے تھے جبکہ پیدائش کا مطلب پیدا ہونا یا پیدائشی طور پر ہونا سمجھا جاتا تھا۔ اور اس کے بعد لمبے عرصے تک اس تصور کو کسی شخص کے حسب نسب کو جانچنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔
قرون وسطیٰ میں اس تصور کو نئے معنی دئیے گئے ۔ جیسا کہ یورپی یونیورسٹیوں میں ہم وطن کے معنی میں، ویٹی کن کونسلوں میں کسی ملک کے نمائندوں کے گروہ کے معنی میں۔ وغیرہ وغیرہ۔
1789 کے فرانسیسی انقلاب کے رہنمائوں نے اس تصور کو سماجی اور تاریخی طور پر مخصوص اور مضبوط بنیادوں پر یکجا ہونے والے لوگوں کی آبادی کے معنی میں استعمال کرنا شروع کیا۔ فرانسیسی اور انگریزی لغت میں یہ لفظ زیادہ تر "ریاست کی آبادی” کے ہم معنی ہے جبکہ قومیت کو کسی فرد کی شہریت سمجھا جاتا ہے۔
جرمن، روسی اور دیگر زبانوں میں ایسی سماجی ، تاریخی آبادی کے معنی میں لیا جاتا ہے جس کی تشکیل سرمایہ داریت نے کی ہو البتہ اس میں نسلی طور پر پروان چڑھنے والے گروہ اور اور ان میں ضم ہونے والے آزاد لوگ بھی شامل ہیں۔
اس معاملے میں قومیت وسیع تر سماجی اعتبار سے لوگوں کے حسب و نسب اور قومی وفاداری کی تشریح کے ضمن میں بھی استعمال ہوتی ہے۔
مارکسی نقطہ نظر سے ایک قوم سماجی اور تاریخی طور پر مستحکم گروہ ہوتا ہے جو کہ منطقی طور پر سماجی ارتقاء کا نتیجہ اور ناگزیر شکل ہوتی ہے جو کہ لوگوں کی معاشی، سماجی ، سیاسی زندگی، زبان، وطن، قومی ثقافت، قومی شعور ، قومی نفسیات کی بنیاد پر پروان چڑھتی ہے، جبکہ باہم میل جول اور باہمی اخلاقیات و اقدار لوگ خود پیدا کرتے ہیں۔
سماجی ارتقاء کے ایک اعلیٰ درجہ پر قوم اور قومیت کے ارتقاء کے مابین کوئی خاص فرق نہیں رہتا دونوں عوامل میں قومی گروہ کے وصف پائے جاتے ہیں۔ سماجی ارتقاء کی اعلیٰ سطح پر قومی شکلیں غائب نہیں ہوتیں بلکہ مزید پختہ ہوتی ہیں۔ مارکس اور لینن کی قومیتی تھیوری کے مطابق قوم لوگوں کے کسی گروہ کی سب سے پیچیدہ اور بھر پور شکل ہوتی ہے۔
تاریخی ارتقاء کے راستے ، قبائل، قبائل کے اتحاد اور قومیتیں پیشروی کرتے ہیں۔ معاشرے کی دوسری پرتیں ، طبقات، نسلی گروہ، خاندان وغیرہ قوم کے اندر رہتے ہوئے اس کی پیروی کرتے ہیں۔ قوم اپنے داخلی تعلقات کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔
اگرچہ یہ بین الاقوامی، بین الریاستی تعلقات اور بعد ازاں کثیر القومی ریاستوں کے تعلقات سے بھی اثرات لیتی ہے۔ لینن کے نقطہ نظر کے مطابق بین الاقوامیت قومی ہیئت کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ قومیت کے اجزائے ترکیبی کے بغیر بین الاقوامیت کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ کیونکہ بین الاقوامیت قوم اور قومیتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
قوم مخصوص قومی اور بین الاقوامی شکلوں اور تمام یا اکثریت لوگوں کی مشترکہ اقدار کو بھی یکجا کرتی ہے جو کہ لوگوں کو متحد رکھتی ہیں اور ساتھ ہی ان کی الگ تھلگ شناخت اور امتیازی وصف کی توثیق بھی کرتی ہیں۔ قومیت کا ڈھانچہ بالکل پیچیدہ ہوتا ہے، جو کہ ماضی اور حال میں تشکیل پانے والی مادی ، شعوری، اخلاقی اور نفسیاتی اقدار پر مشتمل ہوتا ہے ۔
قوم ایک آزاد سماجی وجود کے طور پر اپنی تمام سماجی پرتوں کے مشترکہ اور باہمی عوامل کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے۔ قوم اور دیگر گروہ جو تاریخی تسلسل میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں ایک مخصوص عہد میں کئی حوالوں سے ایک دوسرے کی ضروریات کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں اور مشترکہ طور پر اپنا سماجی کردارنبھا رہے ہوتے ہیں۔
سماجی گروہ کی ایک عام شکل یہ ہوتی ہے کہ وہ موروثی خدوخال، پختگی کی سطح اور مخصوص تاریخی کردار کے باوجود ان میں سے ہر ایک سماجی وجود کا محض ایک حصہ ہوتا ہے۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں میں قومیت بالکل مختلف منعکس ہوتی ہے۔
معاشی، سماجی اور سیاسی سطح پر کم جبکہ روحانی، شعوری، نفسیاتی ، روزمرہ رہن سہن، روایات اور قومی ثقافت میں زیادہ۔ دیگر سماجی گروہوں کے نظام میں قومی گروہ کے تاریخی مقام، ترقی پسندانہ کردار اور سماجی نظام کے اندر مقام اور کردار کو پرکھنے کے لئے مارکس اور لیننن کا نقطہ نظر بالکل درست ہے۔
سماجی گروہ جب سماجی سطح پر سماجی جوہر اور مقصدیت کے لئے قریب ہو رہے ہوتے ہیں تو وہ مارکس کے بقول "باہمی میل جول کے اٹوٹ تسلسل” اور لینن کے الفاظ میں "تاریخی ارتقاء کے تسلسل” کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔
قوم اور قومیت کی تشکیل میں جغرافیائی، ماحولیاتی اور تاریخی عوامل بھی مشترک ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر اس ضمن میں اینگلز کے کام کا جائزہ لینا بھی بہت اہم ہے۔ اینگلز کے بقول قومیں ، کچلے ہوئے طبقات کی پیدوارہیں۔
لینن نے قوم کی تشکیل اور سماجی ارتقاء کے عمل میں وطن کے کردار کو اجاگر کرنے پر خصوصی توجہ دی تھی۔ لینن سمجھتا تھا کہ مشترکہ معاشی زندگی ، قوم اور قومی ریاست کی تشکیل کی بنیادی شرائط میں سے ایک ناگزیر شرط ہے۔
(جاری ہے)
یہ بھی پڑھیے:سرائیکی (وسیب)، سندھ ، بلوچستان اور قومی سوال(1)۔۔۔۔زمان جعفری
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا