فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ففتھ جنریشن وارفئیر یا ہائبرڈ وار فئیر کا تذکرہ تو آج کل بہت کیا جاتا ہے لیکن یہ اصطلاح آخر ہے کیا اور اس کو جاننا کیوں ضروری ہے؟ تاہم اس سے قبل ہمیں فرسٹ جنریشن سیلیکر فورتھ جنریشن وار فئیر تک کا تاریخی پس منظر جاننا ضروری ہے۔ انسانی جنگی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنا نوع انسانی کی تاریخ انسان کے لیے اس کا سب سے پہلا ہتھیار اس کا مضبوط جسم تھا جس کی بدولت وہ اپنے جیسے لیکن کمزور جسم کو شکست دینے کی طاقت رکھتا تھا۔
اپنی جسمانی طاقت کو انسان نے پتھر (اینٹ کنکر وغیرہ) دھات (چھری چاقو تلوار خنجر اور تیر کمان) پھر طاقت کی اس جنگ میں گھوڑے بھی شامل ہوئے اس دور و حرب وعضب یعنی فرسٹ جنریشن وارفئیر کا نام دیا گیا۔ یعنی فرسٹ جنریشن وار فئیر میں انسانی طاقت اور فوجی دستوں کی عددی برتری کو کامیابی کا اصول سمجھا جاتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنگوں میں کامیابی کے لیے طاقتور ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا گیا ان ہتھیاروں میں گولہ بارود توپ رائفل اور مشین گن وغیرہ شامل ہیں۔
عددی طاقت کے بجائے ہتھیاروں کی طاقت پر لڑنے والی ان جنگوں کو ٹیکنالوجی کی جنگ جبکہ سیکنڈ جنریشن وارفئیر کا نام دیا جاتا ہے۔ امریکن پروفیسر رابرٹ جے بنکر نے اپنے تحقیقی مقالے میں تھرڈ جنریشن وار فئیر کے بارے میں لکھا کہ یہ وار فئیر جنگی آئیڈیاز یا پھر جنگی چالوں کی بنیاد پر شروع کی گئی۔ اس ماڈل میں دشمن کو اپنی مختلف حکمت عملی اور چالوں سے چابک دستی سے مات کیا جاتا ہے اور یہی وہ جنریشن ہے جس میں ائیر کرافٹس کا استعمال بھی شروع ہوا۔
تھرڈ جنریشن وار فئیر بنیادی طور پر جہاز کی ایجاد کے بعد شروع کی گئی جس میں جہاز کی مدد سے افواج نے ایکدوسرے کے خلاف دور دراز تک حملے کی صلاحیت حاصل کی اور اس حقیقت کو نظرا ناداز نہیں کیا جاسکتا کہ دور جدید میں افواج کے پاس بہترین جنگی جہازوں کا ہونا انتہائی ضروری ہے
جبکہ دور جدید کی جنگوں کے لیے فورتھ جنریشن وارفئیر کی اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے۔
فورتھ جنریشن وار فئیر دور جدید کی وہ وارفئیر ہے جس میں دشمن اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے مختلف گروپس کا استعمال کر کے ملک میں انارکی پھیلاتا ہے. جیسا کہ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو بی ایل اے اور پی ٹی ایم بھارتی را ایجنسی کے آلہ کار بن کر ملک کی سلامتی کو شدید نقصان پہچانے کے درپے ہیں پاکستان نے اس کے واضح ثبوت دنیا کے سامنے رکھ دیے ہیں
اس پس منظر کو جاننے کے بعد یہ حقیقت تو واضح ہوجاتی ہے کہ طاقت کی شطرنج پر تخت کا کھیل ہر دور میں جاری رہا ہے اور اس کھیل میں جیت ہمیشہ شاطر چالبازوں کے نصیب میں ہی آئی ہے۔
اب ذرا بات کرلیتے ہیں ففتھ جنریشن وار فئیر کی یہ اصطلاح سب سے پہلے 2005 میں استعمال کی گئی۔ اسکو آسان زبان میں اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اس جنگ میں دشمن اندرونی تضادات کا بھرپور استعمال کرکے انتشار پھیلاتا ہے۔ففتھ جنریشن وار فئیر میں سب سے پہلے ملک میں خانہ جنگی یا پھر داخلی انتشار کی ٖفضا قائم کی جاتی ہے۔ پھر اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
یہ جنگ آمنے سامنے نہیں بلکہ ذہنوں سے لڑی جاتی ہے۔ اس کے ہتھیار پراکسیز ٹی وی ریڈیو پرنٹ سوشل میڈیا ہیں جس کا استعمال کرکے ٹارگٹ ملک کے شہریوں کو ان کی ریاست اور ملک کے خلاف ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس جنگ کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس سے شہریوں میں ذہنی خلفشار احساس عدم تحفظ پیدا کیا جاتا ہے۔تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ نفسیات کی ایسی جنگ ہے جس میں دشمن اپنی طاقت کے تمام تر ممکنہ ذرائع استعمال کرکے حملہ آور ہوتا ہے لیکن اپنی عسکری طاقت کا استعمال محدود رکھتا ہے۔ اس جنگ میں دشمن تجارتی ثقافتی نظریاتی سفارتی میڈیا اور پروپیگنڈہ کو استعمال کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اور اس وقت پاکستان کو بلاشبہ ففتھ جنریشن وارفئیر کا سامنا ہے
اس ففتھ جنریشن وار فئیر کو ہائیبرڈ وارفئیر بھی کہا جاتا ہے جس میں فورتھ جنریشن وارفئیر تو شامل ی ہی ہے لیکن اس میں میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا جارہا ہے
بد قسمتی سے پاکستان کے دشمن ففتھ جنریشن وارکے تحت پاکستانی ریاست کو اندر سے کھوکھلا کرنے کے لیے پوری طاقت سے حملہ آور ہیں خاص کر بلوچستان گلگت بلتستان، کراچی خیبر پختونخوا نشانے پر ہیں یہاں کی عوام کی مجبوریوں اور محرومیوں کو استعمال کرکے انہیں ریاست اور فوج سے متنفر کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔
قوم پرستی شناخت کے بحران علیحدگی پسند ی اور دہشت گردی کیذریعے ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ مزید بڑھادیا ہے ۔
اس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں کہ یہ جنگ پوری قوم کی جنگ ہے اس جنگ میں عوام اور رایستی اداروں کو ملکر دشمن کے اداروں کو ناکام بنانا ہوگا کیونکہ یہ جنگ وہ جنگ ہے جسے جیتنے کے لیے اسے لڑنے کی ضرورت نہیں اس جنگ میں سوشل میڈیا کو سب سے بڑا ہتھیار مانا جاتا ہے مختلف سماجی ویب سائٹس سوشل میڈیا گروپس کے استعمال سے ان تماتر حساس معاملات پر منفی پروپگینڈہ کیا جاتا ہے۔
جس سے افراتفری ور انتشار کو پھیلایا جاسکے جبکہ خطرناک ترین بات یہ ہے کہ اس جنگ کے لیے نوجوانوں کی ذہن سازی اس نہج پر کی جاتی ہے وہ ریاست اور افواج کے سامنے کھڑے ہوجائیں۔
یاد رہے کہ 2009 میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان میں را کی دہشت گردی کے ثبوت اس کے اپنے ہم منصب کو پیش کیے تھے جبکہ اپنے حالیہ انٹرویو میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک بار پھر اس خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان بھارت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت سامنے لایا ہے جس کو دنیا نے بھی بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔
یہ بات بلکل واضح ہے کہ اس جنگ کا مقابلہ اکیلی ریاست یا افوج نہیں کرسکتیں اس کے لیے عوام کی حمایت بھی بہت ضرورت ہے پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی یہ چیلنج کو اب بہت سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور عوام کی محرومیوں کو ہمدردی سے سنا جا نا چاہیے اور ساتھ ہی نوجوانوں کو اس خطرناک جنگ کے لیے آھاہی دینا چاہیے تاکہ ہم دشمن کو ہر محاذ پر شکست دے سکیں۔
یہ بھی پڑھیے:کون ہیں ہم لوگ ،انسان ہیں یا درندے؟۔۔۔ فہمیدہ یوسفی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ