نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کنواروں کا دن۔۔۔گلزار احمد

چین میں Nanjing یونیورسٹی کے طلبا نے 1993ء سے گیارہ نومبر کو کنواروں یا چَھڑوں کا غیر سرکاری دن منانا شروع کیا جو دراصل ویلنٹائن ڈے کا جواب تھا

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چین میں Nanjing یونیورسٹی کے طلبا نے 1993ء سے گیارہ نومبر کو کنواروں یا چَھڑوں کا غیر سرکاری دن منانا شروع کیا جو دراصل ویلنٹائن ڈے کا جواب تھا۔ گیارہ نومبر کا انتخاب اسلیے کیا گیا کہ11/11 لکھتے ہوۓ ایک نمبر کے چار ہنسے علیحدہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ یعنی یہ سنگل کنوارے جدا جدا کھڑے ہیں۔اس موقع پر چین میں غیر سرکاری چھٹی ہوتی ہے اور کنوارے ایک دوسرے کو
ملتے ہیں اور تحفے دیتے ہیں۔ گیارہ نومبر کے دن شادیاں بھی بہت ہوتی ہیں۔ چین کا میڈیا اس دن محبت و الفت کے ٹاپک زیر بحث لاتا ہے اور پیار کے گیت سناۓ جاتے ہیں۔
چین کے ایک بہت بڑے بزنسمین علی بابا نے2009ء سے اس دن پر آن لائن شاپنگ میں ڈسکاونٹ کا اعلان کر کے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ سنا ہے اس ماہ علی بابا کی سیل 100 بلین ڈالر جا پہنچی۔
اب پہلے علی بابا کی کہانی سنیں ۔۔ علی بابا کمپنی کا جو بانی اور چیف ایگزیکٹیو ھے اس کا نام ھے
jack Ma Yun.
یہ چین کا رھنے والا ھے اور اس کمپنی بنانے سے پہلے وہ انگریزی پڑھانے والا ایک ٹیچر تھا ۔ اس نے عربی ادب سے علی بابا چالیس چور کی کہانی پڑھ رکھی تھی اور اس کہانی سے متاثر ہو کر کمپنی کا نام علی بابا رکھا۔ عربی ادب میں علی بابا چالیس چور کی کہانی کچھ یوں ھے کہ علی بابا ایک غریب شخص ہوتا ھے جو جنگل میں لکڑیاں کاٹ کر بازار بیچتا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ھے۔ ایک دفعہ اس نے جنگل میں لکڑیاں کاٹتے ہوۓ بھاگتےگھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سنیں تو چھپ کر دیکھنے لگا ۔یہ کُل چالیس گھوڑے تھے جو چوروں کے تھے جن پر دولت بوریوں میں بھر کر لائی جا رہی تھی۔ چوروں کا سردار سامنے پہاڑی کی چٹان کی ایک غار کے دروازے پر جاتا ھے جس کا منہ پتھر کے دروازے سے بند ھے ۔ سردار کہتا ھے ۔۔کُھل جا سِم سِم ۔۔۔اور پتھر کا دروازہ ایک طرف ہٹ جاتا ھے۔ یہ سارے چور اندر جا کر دولت کی بوریاں رکھ کے واپس آتے ہیں اور غار کا دروازہ بند ہو جاتا۔ چوروں کے جانے کے بعد علی بابا اسی دروازے پر جا کر کہتا ھے کھل جا سِم سِم اور دروازہ کھل جاتا ھے اور وہ اندر سونے کے سکوں کی ایک بوری بھر کر گھر آ جاتا ھے اور غریب علی بابا کا گھرانہ راتوں رات ارب پتی بن جاتا اور پھر یہ کہانی مزید آگے چلتی ھے۔
جیک ما کے ذھن میں علی بابا کا جادوائ کردار چھایا ہوا تھا اور شاید وہ راتوں رات خزانے کا مالک بننے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ چنانچہ ایک روز امریکہ کے شھر سان فرانسسکو کی ایک کافی شاپ میں جیک ما نے ویٹریس سے پوچھا کہ تم نے علی بابا کا نام سنا ھے ۔ویٹریس نے فورن جواب دیا ۔۔۔کُھل جا سِم سم ۔۔۔ اس کے بعد وہ گلی میں آیا اور لو گوں سے پوچھا تو سب نے وہی ویٹریس والا جواب دیا اور پھر جیک ما نے اپنی کمپنی کا نام علی بابا رکھ دیا۔۔ کیونکہ علی بابا کے نام سے لوگ خوب واقف تھے۔ یہ کمپنی حقیقت میں اس کہانی کی طرح ثابت ہوئ ۔جیک ما پر دولت کی بارش ہونے لگی اور وہ اس کمپنی کی کمائ کے نتیجے میں چین کا امیر ترین شھری بن گیا۔
اب ہم واپس پاکستان آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کے پاس علی بابا کی دولت سے بھی زیادہ وسائل ہیں اور وہ ہم سے لُوٹ لئے گئے ۔ آج قرضوں میں جکڑی اس قوم کے نوجوان در بدر کی ٹھوکریں کھا رھے ہیں۔۔شھری بجلی ۔صاف پانی۔تعلیم اور صحت کی سھولتوں سے محروم ہیں ۔آئیے دیکھتے ہیں اس ملک کو ھوا کیا ھے؟
پاکستان میں سونا۔تانبا۔کوئلہ ۔تیل اور گیس کے اربوں ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان اور KPK میں نئے گیس اور تیل کے ذخائر کا پتہ چلا ھے۔نیوکلر ٹکنالوجی ہمارے پاس موجود ھے۔دنیا کے بہترین پہاڑ ۔دریا ۔چشمے۔نہری نظام زراعت ۔ھیرے جوھرات کی کانیں۔ شیل گیس۔۔سب کچھ ھو نے کے باوجود اس وقت پاکستان کا دنیا کی جی ڈی پی میں حصہ صرف 0.29 فی صد ھے ۔ہمارے مقابلے میں ہمارے پڑوسی اور دوست ملک چین کا حصہ 16 فی صد ھے۔اسکے علاوہ بھارت کا حصہ 3.25% ..ایران 0.48%…اور بنگلہ دیش 0.33% ھے ۔ اس موازنے سے پتہ چلتا ھے کہ ہم اپنے ارد گرد کے ممالک حتی کے بنگلہ دیش سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ جو سامنے آتی ھے وہ ناقص سیاسی نظام۔۔۔بیڈ گورنس ۔جنگیں۔ فرقہ واریت۔ تعلیم کی کمی اور امن وامان کی خرابی ھے۔ ہم پر بار بار جنگیں مسلط کی گئیں جن سے ابھی تک چھٹکارا نہیں مِل سکا۔ 1965 کے بعد 1971.پھر 1979 روسی افغان وار جب سے 30 لاکھ افغان مھاجرین ہمارے پاس ہیں۔پھر امریکہ میں 9/11 کا واقعہ ہوتا ھے اور ایک دھشت گردی کی جنگ ہمارے سروں پر مسلط کر دی جاتی ھے جو اب تک جاری ھے۔قوم کے ہر فرد کا یہ فرض بنتا ھے کہ وہ سوچے کہ ہم پُر امن تعلیم یافتہ ملک بن کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں ۔اگر گورنس ٹھیک نہ کی تو بدامنی اور کرپشن کے جِن پر قابو پانا بھت مشکل ھے۔

About The Author