نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان کی سیاست اور پی ڈی ایم کا جلسہ ۔۔۔ نصرت جاوید

ان کی نگاہ سے دیکھیں تو تین سے زائد ہفتوں تک اس خطے میں محدود رہنے کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اپنی جماعت کو دو سے زیادہ نشستیں نہیں دلواپائے

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) میں جمع ہوئی جماعتوں نے اس دن ’’ہر صورت ‘‘ ملتان میں جلسہ منعقد کرنے کا ارادہ باندھ رکھا ہے۔ عمران حکومت نے اگرچہ دو روز قبل ہی ریاستی قوت کے استعمال کے ذریعے اسے روکنے کی تیاری شروع کردی۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کا گھرانہ ریاستی جبر کا خصوصی نشانہ نظر آیا۔ گیلانی خاندان پر ہوا یہ فوکس تاہم اسے مقامی سیاست میں بھرپور احیاء کے امکانات فراہم کررہا ہے۔

ملتان والے جلسے کا تعلق پیپلز پارٹی کے ’’یوم تاسیس‘‘سے بھی جوڑ دیا گیا ہے۔ اس دن کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کرونا کی زد میں آنے کے بعد اپنی بہن آصفہ بھٹو کو ملتان بھیجنے کو مجبور ہوئے۔ ملتان آمد کے بعد وہ سیاست میں ہر حوالے سے ’’لانچ‘‘ ہوجائیں گی۔ پیپلز پارٹی کو پنجاب اور خاص طورپر ’’سرائیکی وسیب‘‘ میں اپنے احیاء کے لئے نسبتاََ نئی اور ممکنہ طورپر بارآور Space مل جائے گی۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر میرے کئی متحرک دوست حیرانی کا ا ظہار کررہے ہیں کہ عمران حکومت ریاستی طاقت کے جارحانہ استعمال سے ملتان والے جلسے کو روکنے میں اپنا ’’وقت کیوں ضائع‘‘ کررہی ہے۔ PDM کے جلسوں کا سلسلہ گوجرانوالہ سے شروع ہوا تھا۔ نواز شریف کی ’’کفن پھاڑ‘‘ تقاریر نے ان میں سے چند جلسوں میں بہت رونق لگائی۔ عمران حکومت کا یہ رونق مگر ابھی تک کچھ بگاڑ نہیں پائی۔ ملتان میں ایک اور جلسہ ہوجاتا تو کونسی قیامت برپا ہوجاتی۔ میں اس رائے سے ہرگز متفق نہیں کہ PDM کے اب تک ہوئے جلسوں نے ایوان ہائے اقتدار میں کوئی ’’تھرتھلی‘‘ نہیں مچائی ہے۔ وہاں ہوئیں تقاریر نے عمران حکومت سے کہیں زیادہ ’’مقتدر حلقوں‘‘ کو بھی چونکادیا۔ جس بیانیے کو ان جلسوں کے ذریعے فروغ دینے کی کوشش ہوئی اسے ریاستی اداروں کی ساکھ کے تناظر میں ناقابل برداشت ٹھہرایا گیا۔ PDM کا ’’مکو ٹھپنے‘‘ کا قدم اٹھانے سے قبل مگر گلگت-بلتستان انتخابی عمل کے اختتام کا انتظار کرنا ضروری تھا۔

عمران حکومت اور اس کے بہی خواہوں کے لئے گلگت-بلتستان کے انتخاب اطمینان بھرا پیغام لائے ہیں۔ ان کی نگاہ سے دیکھیں تو تین سے زائد ہفتوں تک اس خطے میں محدود رہنے کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اپنی جماعت کو دو سے زیادہ نشستیں نہیں دلواپائے۔ مریم نواز صاحبہ کے جلسوں میں حاضرین کی متاثر کن تعداد بھی پولنگ اسٹیشنوں پر کوئی ’’جلوہ‘‘ نہیں دکھاپائی۔ نظر بظاہر گلگت-بلتستان کے عوام نے موقع شناسی کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے ہاں ایک ایسی حکومت کے قیام کو یقینی بنایا جسے وفاقی حکومت کی کامل تائید و معاونت میسر ہو۔ تاثر یہ بھی پھیلایا جارہا ہے کہ گلگت-بلتستان کے محب وطن عوام نے PDM کے ’’غدار بیانیے‘‘ کو حقارت سے مسترد کردیا ہے۔

گلگت-بلتستان کے انتخابی عمل سے نمودار ہوئے ’’مثبت پیغام‘‘ نے عمران حکومت اور اس کی بہی خواہوں کو پنجابی محاورے کے مطابق PDM کے مقابلے میں ’’سیدھا‘‘ ہونے کا حوصلہ بخشا ہے۔ ملتان جلسے کے انعقاد کو ریاستی قوت کے استعمال کے ذریعے روکنے کا اہم ترین جواز کرونا کی دوسری لہر نے بھی فراہم کردیا۔ شہری متوسط طبقے کی کثیر تعداد اس بار کرونا کی دوسری لہر سے واقعتا گھبراگئی ہے۔ ان کی دانست میں وباء کے موجودہ موسم میں اپوزیشن جماعتوں کے جلسے کرونا کے بھاری بھر کم سہولت کار Super Spreader ثابت ہوسکتے ہیں۔ عمران حکومت کے سیاسی مخالفین کو لہٰذا اس سے گریز برتنا چاہیے۔ جلسوں کے ہر صورت انعقاد کا فیصلہ ان کی نظر میں محض اناپرستانہ ’’ضد‘‘ ہے۔ عمران حکومت کو اعتماد ہے کہ کرونا کی دوسری لہر کی بدولت ابھرے یہ خدشات اسے ریاستی قوت کے بھرپور استعمال کا جواز فراہم کررہے ہیں۔

PDM کی مگر مجبوری یہ ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں پہ در پہ جلسوں کے ذریعے اس نے ایسا ماحول (Momentum) بنانا ہے جو بالآخر اسے نئے سال کے آغاز میں اسلام آباد تک لانگ مارچ کرتے ہوئے یہاں دھرنا دینے کے قابل بنائے۔ اپوزیشن کے رہ نما آئندہ ایک ماہ کے دوران اپنے گھروں تک محدود ہوگئے تو عمران حکومت کے خلاف انہیں اپنی گیم کو از سر نو لگانے کی ضرورت ہوگی۔ نئی گیم میں حدت اور توانائی نمودار ہونے سے قبل ہی تاہم عمران حکومت آئندہ مارچ میں سینٹ کی واحد اکثریتی جماعت کی صورت حاصل کرلے گی۔ اہم ترین قانون سازی کے لئے اسے اپوزیشن کے ’’منت ترلوں‘‘ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ حالات کے جبر کے تحت حکومت اور اپوزیشن لہٰذا ملتان میں تخت یا تختہ والے Showdown پرڈٹے ہوئے ہیں۔ اسے ٹالنا ممکن نظر نہیں آرہا۔

گلگت-بلتستان کے انتخابی نتائج اور کرونا کی دوسری لہر کی وجہ سے ابھرے خدشات کو نگاہ میں رکھیں تو فی الوقت عمران حکومت اور اسکے بہی خواہوں کو ایک نفسیاتی Edge میسر ہے۔ ہمارے حکمران تاہم ایسی Edge کو عموماََ Overkill والا رویہ اختیار کرتے ہوئے بے دریغ انداز میں ضائع کرنے کے عادی رہے ہیں۔ برطانوی دور میں جب غیر ملکی حکمرانوں نے ریاستی فیصلہ سازی نہیں بلکہ ’’ترقیاتی کاموں‘‘ کی تکمیل کے لئے مقامی اشرافیہ کو اقتدار میں اپنا حصہ دار بنانا شروع کیا تو ملتان کی سیاست درحقیقت کئی دہائیوں تک گیلانی اور قریشی خاندان کی کامل محتاج رہی۔ قیام پاکستان کے بعد اس شہر میں مہاجرین کی آبادکاری نے جو نئی Dynamics متعارف کروائی اس کا بھرپور فائدہ بھی یہ دونوں خاندان ہی اٹھاتے رہے۔ اس شہر میں مقامی اشرافیہ کے برعکس ’’عوامی خودمختاری‘‘ کا پہلا اظہار مگر 1977 کے دوران ہوا تھا۔ اس برس ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف نو جماعتی اتحاد کی قیادت میں جو تحریک چلی اس میں ’’پلس مقابلے‘‘ کی حدت ابتداََ کراچی اور حیدر آباد تک ہی محدود رہی تھی۔ پنجاب میں یہ تحریک بنیادی طورپر گوجرانوالہ اور ملتان میں شدت کی جانب مائل ہوئی تھی۔ اس ضمن میں مذہبی بنیادوں پر سیاست کرنے والی جماعتوں نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ افتخار چودھری کے سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہونے کے بعد یوسف رضا گیلانی اور ان کا گھرانہ گزشتہ دس برس سے تنہائی کا شکار ہوچکا تھا۔ اپنے فرزند حیدر گیلانی کی مذہبی انتہاپسندوں کے ہاتھوں اغواء کے بعدگیلانی صاحب مزید اداس اور پریشان ہوگئے تھے۔ ان کی پریشانی سے پیدا ہوئے ’’خلا‘‘ کا شاہ محمود قریشی نے بھرپور انداز میں فائدہ اٹھایا۔ جاوید ہاشمی کی بیماری نے ملتان شہر کو PTI کے سپرد کردینے میں اضافی مدد فراہم کی۔

PDM کے قیام کے بعد مگر یوسف رضاگیلانی ایک بارپھر کامل توجہ سے سیاسی میدان میں متحرک ہو چکے ہیں۔ بنیادی طور پر اگرچہ وہ ڈرائنگ روم والے ’’جوڑ توڑ‘‘ کے عادی ہیں۔ علی موسیٰ گیلانی کی صورت میں لیکن انہیں ایک ایسا ’’وارث‘‘ مل گیا ہے جو عوامی سیاست کے تقاضوں کو جبلی انداز میں نبھانے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ ’’عمران حکومت‘‘ عثمان بزدار صاحب کو ’’وسیم اکرم پلس‘‘ بنانے کے باوجود ’’سرائیکی وسیب‘‘ کے حقیقی مسائل کا کماحقہ انداز میں ازالہ نہیں کر پائی ہے۔ وہاں آباد کاشتکار روایتی طورپر پیپلز پارٹی کو ’’کسان دوست‘‘بھی شمار کرتے رہے ہیں۔ گنے اور کپاس کی وجہ سے پیدا ہوئے حالیہ بحرانوں نے انہیں عمران حکومت سے مزید ناراض کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو ان تمام عوامل کی بدولت اپنے احیاء کے روشن امکانات نظر آرہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی بھی ملتان سے قربت دیرینہ ہے۔ مدرسوں کے جال کی بدولت ان کی جمعیت العلمائے اسلام کا ’’سرائیکی وسیب‘‘ میں ایک طاقت ور نیٹ ورک بھی موجود ہے۔ سکھر-ملتان موٹروے کی بدولت سندھ کے شمالی اضلاع-سکھر،شکارپور اور جیکب آباد وغیرہ- ملتان کو اب کراچی کے مقابلے میں خود کے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں۔ ملتان بلکہ بہت تیزی سے ان اضلاع کے لئے ’’مرکزی منڈی‘‘ ثابت ہورہا ہے۔ سکھر-ملتان موٹروے کا تمام ترکریڈٹ البتہ نواز شریف کو دیا جاتا ہے۔ جغرافیائی حقائق کو نگاہ میں رکھیں تو نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ ،پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی بھرپور معاونت سے ملتان شہر میں ایک بھاری بھر کم ہجوم جمع کرسکتی ہے۔ عمران حکومت کی جانب سے ریاستی قوت کا بے دریغ استعمال لہٰذا Backfire بھی کرسکتا ہے۔ پیر کے روز ملتان میں ہوئے Show پر لہٰذا کڑی نگاہ رکھنا ہوگی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author