نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پی ٹی وی پر قبضہ ۔۔۔ رؤف کلاسرا

سوال یہ ہے کہ بہتّر سال کی عمر میں بھی نعیم بخاری یہ نہیں سیکھ پائے کہ کوئی بھی معاشرہ اور ریاست ایک جیسے خیالات پرنہیں چل سکتے۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس دن نعیم بخاری کی پی ٹی وی کے چیئر مین کیلئے تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہوااُس رات ہم نے اپنا ٹی وی شو کرنا تھا ۔ ہماری ٹیم کا خیال تھا کہ اس پر سٹوری کرنی چاہیے کہ کیسے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پارٹی کے ایک بندے کو‘ جس نے مفت میں پانامہ کیس لڑا تھا ‘ انعام کے طور پر پی ٹی وی کا چیئرمین لگا دیا ۔ سوشل میڈیا پر بھی بہت سے کمنٹس آنا شروع ہوگئے کہ قانونی طور پر جس شخص کی عمر 65 سال ہوجائے اسے نوکری یا کنٹریکٹ پر نہیں رکھا جاسکتا جبکہ نعیم بخاری کی عمر زیادہ ہے۔ میں نے اپنی ٹیم کو کہا کہ ہم ہر دفعہ بندوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ میری اگرچہ کبھی نعیم بخاری سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن ان کے ٹی وی شوز اور ان کی شخصیت ‘ بے ساختہ گفتگو‘ جملے بازی اور جگت کا میں فین رہا ہوں۔ وہ اچھی اور خوبصورت گفتگو کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ ان جیسے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگوں کو ہی ٹی وی جیسے اداروں کا سربراہ لگنا چاہیے تاکہ وہ اس کا کلچر بدلیں ۔ وہ لبرل اور ماڈریٹ بندے ہیں اور بہتر کام کریں گے۔میری یہ غلط فہمی اگلے دن اس وقت دور ہوگئی جب میں نے ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں نعیم بخاری سے پوچھا گیا کہ وہ پی ٹی وی کو کیسے بدل دیں گے اور کیا وہاں اپوزیشن کو بھی نمائندگی ملے گی؟ اس پر وہ بھڑک گئے اور بولے: ہرگز نہیں ‘ اپوزیشن کوٹی وی پر کوئی جگہ نہیں ملے گی‘ سب کچھ حکومت کا ہی چلے گا ‘ پی ٹی وی ریاست کی ملکیت ہے۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ واقعی نعیم بخاری کے یہ الفاظ ہیں۔کچھ دکھ ہوا کہ ہماری قسمت میں یہی ہجوم لکھ دیا گیا ہے۔ کہاں عمران خان کبھی پی ٹی وی کو بی بی سی ماڈل بنانے کے دعوے کرتے تھے اور آج ان کا نامزدکیا گیا چیئرمین یہ فرما رہا تھا کہ پی ٹی وی پر صرف حکومت کی خبریں چلا کریں گی اور ان کی تعریف کے علاوہ کچھ نہیں چل سکتا۔

سوال یہ ہے کہ بہتّر سال کی عمر میں بھی نعیم بخاری یہ نہیں سیکھ پائے کہ کوئی بھی معاشرہ اور ریاست ایک جیسے خیالات پرنہیں چل سکتے۔ اگر سب ایک طرح سوچیں گے تو وہ معاشرہ اور ریاست ختم ہوجائیں گے‘ختم نہ بھی ہوں تو کمزور ضرور ہوجائیں گے۔ جب کائنات ہی conflict پرچل رہی ہے توکیسے ممکن ہے کہ معاشرہ اس کو فالو نہ کرے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی حکومت نے پاکستان میں پچھلے بہتّر سال سے یہی سیکھا ہے کہ اگر آپ میڈیا کو کنٹرول کرلیں تو آپ کو کوئی نہیں ہٹا سکتا اور آپ تاحیات اقتدار میں رہیں گے۔ زیادہ دور نہیں جاتے‘ نواز شریف دور کی بات کرلیتے ہیں۔ اسحاق ڈار نے اپنا آخری بجٹ پیش کیا‘ تقریر کی جو پی ٹی وی پر لائیو دکھائی گئی ‘ مگر جب اپوزیشن کی تقریریں کرنے کی باری آئی تو پی ٹی وی کے کیمرے آف کر دیے گئے‘ کہ قوم صرف وہ سنے جو نواز شریف اور اسحاق ڈار اس قوم کو سنانا چاہتے تھے۔ اس پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے دھمکی دی کہ اگر پی ٹی وی پر ان کی لائیو تقریریں نہ دکھائی گئیں تو وہ اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے۔ اسحاق ڈار نے اشارہ کیا کہ اجازت نہیں ملے گی اور یوں ایک ماہ تک قومی اسمبلی کا اجلاس اپوزیشن کے بغیر چلا‘ لیکن نواز شریف اور اسحاق ڈار نے ان کی تقریریں ٹی وی پر نہیں چلنے دیں۔ اب مجھے بتائیں اس سے کیا فرق پڑا؟ نواز شریف نے اپنے اوپر تنقید نہیں ہونے دی یا اسحاق ڈار نے اپنے جھوٹ چھپانے کیلئے لائیو تقاریر نہیں چلنے دیں تو کیا نتیجہ نکلا؟ کیا ان کا اقتدار بچ گیا؟ کیا نواز شریف جیل جانے سے بچ گئے یا اسحاق ڈار مفرور ہونے سے؟

ہر حکمران کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ وہ کسی کو جواب دہ نہیں ‘ سب اس کو جواب دہ ہیں ‘ وہ سب فیصلے کرسکتا ہے‘ کون بول سکتا ہے اور کون چپ رہے گا‘اس کا فیصلہ وہی کرتا ہے۔ اس طرح پرویز مشرف نے پی ٹی وی پر قبضہ کر کے حکومت سنبھال لی تھی تو کیا ہوا؟ کتنے برس قبضہ رہا اور پھر کیا انجام ہوا؟ انہی مشرف صاحب نے تین نومبر کو ایمرجنسی لگا کر تمام ٹی وی چینلز بند کر دیے۔ تو پھر کیا ہوا؟ جنرل ضیا یہی کام دس برس کرتے رہے۔ تو اس کا کیا نتیجہ نکلا ؟ جنرل ضیا کی موت کے چند ماہ بعد بینظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں اور پی ٹی وی کی شکل ہی بدل گئی ۔ ہر حکمران یہی سوچتا آیا ہے کہ وہ اگر میڈیا کو کنٹرول کرلے تو اس کے سب مسائل حل ہوجائیں گے۔ مجھے کوئی ایسا وزیراعظم یاد نہیں پڑتا جس نے کبھی یہ سوچا ہو کہ اگر اس کی کارکردگی بہتر ہوجائے تو حکومت چل بھی جائے گی اور بچ بھی جائے گی ۔ ہر حکومت کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ میڈیا اسے نہیں چلنے دے رہا ۔ وہ کبھی نہیں سوچتے کہ وہ خود چلنا ہی نہیں چاہتے۔

عمران خان صاحب سے لوگوں کو بہت امیدیں تھیں کہ کچھ مختلف کریں گے‘ لیکن لوگ اُلٹا مایوس ہوئے ہیں ۔ ان کے منشور میں لکھا تھا کہ وہ پی ٹی وی کو بی بی سی ماڈل بنا دیں گے‘ اب پچھلے ڈھائی برس میں پی ٹی وی پہلے سے بدتر صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ اندازہ کریں سرکاری ٹی وی کو پانچ ارب روپے سے زیادہ رقم ہر سال بجلی بلوں کے ساتھ فیس موصول ہوتی ہے۔ پانچ ارب روپے سے تو آپ دنیا کا بہترین چینل چلاتے‘ مگر اس ادارے کی حالت آپ کے سامنے ہے۔ ان ڈھائی برسوں میں جیسے پنجاب میں آئی جی اور چیف سیکرٹریز تبدیل ہوئے ویسے ہی پی ٹی وی کے ایم ڈی اور چیئر مین تبدیل ہوئے ہیں۔ اگر آپ اس کا بورڈ دیکھ لیں تو اس میں بھی وزیر اعظم صاحب کے ذاتی دوست اور کاروباری حضرات نظر آئیں گے۔ سمجھ لیا گیا ہے کہ پی ٹی وی نے صرف حکومت کے کارنامے ہی اجاگر کرنے ہیں۔ مان لیا حکومت کا حق بنتا ہے کہ لوگوں نے اسے ووٹ دیا ہے ‘ مگر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی وی فیس تو پورے ملک سے وصول کررہا ہے‘ تو خبریں بھی پورے ملک کی چلنی چاہئیں۔

مجھے نعیم بخاری صاحب سے کچھ امید تھی لیکن وہ بھی روایتی نکلے ‘جن کا کام اپنے حکمرانوں کے خلاف ہر زبان کو خاموش کرنا ہے۔ یہی کام جنرل ایوب‘ بھٹو اور جنرل ضیا نے کرایا‘ بینظیر بھٹو نے کیا ‘ پرویز مشرف اور نواز شریف نے کیا ۔ تو جو نتائج انہوں نے حاصل کیے کیا وہی عمران خان اور ان کے لاڈلے نعیم بخاری بھی حاصل کریں گے؟ جس معاشرے میں خیالات کی یکسانیت چھا جاتی ہے وہ قبرستان کی مانند خاموش اور ویران ہو جاتے ہیں۔ حکمرانوں پر تنقید بند ہو جائے تو وہ فاشسٹ بن جاتے ہیں۔ جمہوریت کمزو ہوجاتی ہے اور آمریت کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔ یہ بات نعیم بخاری کو بہتّر سال کی عمر میں بھی سمجھ نہیں آئی کہ آپ سے پہلی حکومتوں کے چیئر مین پی ٹی وی بھی تو یہی کررہے تھے ‘ تو آپ کیا مختلف کرنے آئے ہیں؟ تو کیا مخالفوں کو پی ٹی وی کی سکرین پر بین کرنے سے سابق حکمران زوال سے بچ گئے کہ موجودہ حکمرانوں کو‘ مسلسل پازیٹو خبریں چلا چلا کر‘ نعیم بخاری بچا لیں گے؟ نواز شریف دور میں عمران خان کا نام اور تصویر پی ٹی وی پر چلنا منع تھی‘ آج وہی عمران خان وزیراعظم ہاؤس میں مزے کررہے ہیں جبکہ انہیں پی ٹی وی پر بین کرنے والا وزیراعظم نواز شریف بچوں سمیت لندن میں مفرور ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر نہ تو یہ بات بادشاہ سلامت نواز شریف کو سمجھ آئی اور غالباً نہ اب ان کی جگہ پر براجمان عمران خان صاحب کو آئے گی۔ بہتّر سالہ نعیم بخاری صاحب کو تو بالکل نہیں آئے گی۔

About The Author