اسلم خواجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ کسی بھی خطے کی سیاسی و سماجی صورتحال کا مکمل ادراک حاصل کرنے کے لیے ایک ہفتے کا عرصہ یقیناً انتہائی قلیل ہے تاہم یہاں پر گلگت بلتستان کے اپنے حالیہ دورے کے دوران ہونے والے ذاتی مشاہدات پیش کر رہا ہوں جن کو قطعی طور پر حتمی یا ماہرانہ نہیں سمجھا جائے۔ میں گلگت بلتستان میں منعقدہ حالیہ انتخابات کا جائزہ لینے والی انسانی حقوق کے پاکستان کمیشن (HRCP) کی ٹیم کا ایک رکن تھا تاہم یہاں پیش کی جانے والی معروضات مکمل طور پر میرے ذاتی مشاہدے اور نقطہء نظر پر مبنی ہیں۔
ماضی میں فرقہ وارانہ تقسیم اور فسادات کے شکار گلگت بلتستان میں آبادی کے تمام تر حصوں میں اس تقسیم سے گلوخلاصی کی تڑپ واضح طور پر محسوس ہوتی ہے، کیونکہ ایک جانب اس کے نتیجے میں میں لوگوں کے مقامی سطح پر سماجی و معاشی ترقی سے مستفیذ ہونے کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں تو دوسری جانب اس نوعیت کی تقسیم/کشیدگی کی وجہ سے سیاحت اور CPEC جیسے منصوبوں کے نتیجے میں ہونے والی ترقی کے ثمرات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جس کا ایک اظہار حالیہ انتخابات میں مجلس وحدت المسلمین کی مایوس کن کارکردگی سے سامنے آتا ہے۔
فرقہ وارانہ تقسیم اور سیاست سے نجات کی خواہش گلگت بلتستان میں رہنے والی تینوں بڑی برادریوں شیعہ، اسماعیلی اور اہلسنت کے ہاں علیحدہ علیحدہ توضیحات اور اسباب کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ اکثریتی شیعہ آبادی نہ صرف مستقبل میں ہونے والی ترقی سے مکمل طور پر مستفید ہونا چاہتی ہے بلکہ سماجی، معاشی اور سیاسی شعبہ جات میں اپنے حصے کی حاصلات بھی چاہتی ہے جو کہ کشیدگی کی صورت میں ممکن نہیں ہے جبکہ اسماعیلی برادری تعلیم، صحت اور معاشی طور پر اپنی بہتر صورتحال کی بنیاد پر ترقی میں اپنا بھرپور حصہ چاہتی ہے جبکہ میرے مشاہدے کے مطابق گلگت بلتستان میں اہلسنت مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد موجود سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی ثمرات سے دیگر دونوں برادریوں کے مقابلے میں کچھ پس ماندہ نظر آتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ شیعہ اور اسماعیلی اکثریتی علاقوں میں صحت، تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع کا میسر ہونا ہے جس کی وجہ سے اہلسنت مکتبہ فکر کے افراد کے ہاں کشیدگی کے خاتمے/عدم موجودگی کی صورت میں ان سہولیات سے مستفیذ ہونے کی خواہش نظر آتی ہے۔ اگرچہ حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا تاہم گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے حلقہ نمبر 1 سے پیپلز پارٹی کے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے امیدوار امجد حسین ایڈووکیٹ کی کامیابی میں اس عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جہاں اہلسنت مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کچھ ووٹرز نے اس بنیاد پر انہیں ووٹ دیا کہ ان کی جماعت پیپلز پارٹی فرقہ وارانہ بنیاد پر سیاست نہیں کرتی۔ اب پیپلز پارٹی پر یہ تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ تقسیم اور سیاست کے خاتمے میں ہراول کردار ادا کرے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی بالخصوص اس کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنی پوری انتخابی مہم کو “حق حاکمیت” اور “حق ملکیت” کے نعرے کے تحت چلایا، جو کہ عرصہ دراز سے ترقی پسندوں کا نعرہ رہا ہے، تاہم وہ نہ تو اس نعرے کو عوامی بنا سکے اور نہ ہی اس نعرے کو مرکزی دھارے کی ایک سیاسی جماعت کی جانب سے اختیار کیے جانے پر اس کا کریڈٹ لیتے ہوئے اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرسکے۔ سیاسی کارکنان اور اہل دانش کی توجہ آنے والے دنوں میں یقیناً اس امر پر رہے گی کہ بلاول بھٹو اس نعرے کو کس حد تک اپنے سیاسی پروگرام کا حصہ بناتے ہیں اور اقتدار میں آنے کی صورت میں اس پر کتنا عمل درآمد کرتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہوگی کہ آیا پیپلز پارٹی اس نعرے کی عملی صورت کا کوئی مظاہرہ اپنی سیاسی قوت کے اہم ترین مرکز سندھ میں بھی کرتی ہے یا نہیں۔
پیپلز پارٹی کو گلگت بلتستان بالخصوص وادی ہنزہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے ریاستی انتظام کاری ختم کرنے کی وجہ سے عوامی پذیرائی حاصل ہے، جس دوران ہنزہ کے ایک بزرگ شخص کے بقول انہیں ہر ایک معاملے یہاں تک کہ ہنزہ ریاست کی حدود سے باہر جانے کے لیے بھی والی ہنزہ یا ان کے مقرر کردہ اہلکاروں سے اجازت لینی پڑتی تھی، جس کے لیے اکثر اجناس کی صورت میں رشوت طلب کی جاتی تھی۔ اس بزرگ شخص کے بقول اسی والی ہنزہ کی آل اولاد اب ہوٹل چلا رہی ہے جو کہ عام لوگوں کا کام ہے اور انہیں عام لوگوں کی سطح پر صرف ذوالفقار علی بھٹو ہی لایا۔ والی ریاست کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد ہی ہنزہ کے لوگ بالخصوص غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے بڑے شہروں میں تعلیم و تربیت کے مواقع حاصل کرسکے۔
مجھے ملنے والا ہر شخص کسی نہ کسی طور سندھ بالخصوص کراچی کا متعرف تھا جہاں انہیں کسی قسم کے امتیازی سلوک برتے جانے کا بالعلوم کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، جیسا کہ ان کے ساتھ پاکستان کے دیگر صوبوں میں پیش آتا رہا ہے۔
سندھ میں ان کی آمد کا ایک بڑا سبب اسماعیلی اور شیعہ آبادی کا سندھ میں بلا کسی امتیازی سلوک کے رہنا بھی ہے۔ سندھ کے جمہوریت پسند، ترقی پسند اور قوم پرست اس بہتر بنی ہوئی ساکھ سے سیاسی اور سفارتی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
ایک ہفتے تک گلگت بلتستان میں اپنے قیام کے دوران مجھے مسلم لیگ نواز کی مقامی قیادت اور کارکنان سیاسی جوش و خروش سے عاری دکھائی دیئے، اگرچیکہ انتخابی مہم کے دوران مریم نواز وہاں بڑے جلسے بھی کر چکی تھیں۔ اس کا ایک سبب تو مسلم لیگ نواز کی سیاسی تنظیم کا نہ ہونا تھا جبکہ اس کا فوری اور مقامی سبب سابقہ اسیمبلی کے آخری ایام میں مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے کئی ایک اراکین اسمبلی، جن میں اسمبلی کے اسپیکر بھی شامل تھے اپنی جماعت سے مستعفی ہو کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئے یا آزادانہ حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے میدان میں آئے۔ اسی تنظیمی جوش و خروش کی عدم موجودگی کا ایک عملی مظاہرہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے حلقہ نمبر 2 میں مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلٰی حفیظ الرحمان کے تیسرے نمبر پر ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں سامنے آیا۔ اگرچیکہ اس حلقے کے حتمی نتائج کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے لیکن یہ نشست پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان متنازعہ بنی ہوئی ہے جس میں مسلم لیگ نواز فریق تک نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کے کئی باخبر اور حالات پر نظر رکھنے والے افراد کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نواز کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے دونوں امیدوار مقامی سطح کے الیکٹیبلز ہیں اور ان کی کامیابی میں مسلم لیگ نواز کا بطور جماعت کچھ زیادہ کردار نہیں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف سے متعلق گلگت بلتستان میں یہ یکساں اتفاق رائے تھا کہ یہ مجموعی طور پر فی الوقت پاکستان پر حکمرانی کرنے والی جماعت ہے جو کہ وہاں پر حکومت کے خاتمے کی صورت میں مسلم لیگ نواز سے زیادہ تنظیمی بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔
اگرچہ حالیہ برسوں میں اپنی جدوجہد اور اس کے نتیجے میں قید ہونے سے نام کمانے والے بابا جان کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے تاہم نظر یہ آتا ہے کہ پارٹی عطا آباد جھیل کے قضیے اور دیگر عوامی مسائل کو اٹھانے اور جدوجہد کرنے کے باوجود عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے جس کے کئی عوامل ہوسکتےہیں تاہم گلگت بلتستان میں کچھ دن رہنے اور عوامی ورکرز پارٹی کے کچھ سرکردہ کارکنوں/رہنماؤں سے ملاقات اور گفتگو کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پارٹی اور اس کے کارکن تاحال بائیں بازو کے روایتی خفیہ انداز اور اپنی جماعت سے باہر ہر ایک کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا شکار ہیں جس کی وجہ سے انہیں وہ عوامی حیثیت حاصل نہیں ہو سکی ہے جس کی انتہائی گنجائش موجود ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی کے ضمن میں دوسری اہم بات جو محسوس کی گئی وہ یہ کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس اس جماعت کے پاکستان سے تعلق رکھنے والے کسی بھی رہنما نے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے لیے پارٹی امیدوار آصف سعید سخی کی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا، جن کی انتخابی مہم کے سلسلے میں لاہور سے عمار جان آئے تو تھے لیکن ان کا عوامی ورکرز پارٹی سے کوئی تنظیمی تعلق نہیں ہے۔ آصف سعید اپنے حلقے سے 2612 ووٹ حاصل کرکے پانچویں نمبر پر رہے۔
بائیں بازو کا ایک اور گروپ ریڈ ورکرز فرنٹ بھی گلگت بلتستان میں موجود ہے جس کے مقامی رہنما احسان علی ایڈووکیٹ ہنزہ 6 سے انتخاب لڑ رہے تھے جہاں ان کا مقابلہ دیگر امیدواروں کے ساتھ عوامی ورکرز پارٹی کے آصف سعید کے ساتھ بھی تھا۔ بابا جان کے سیاسی استاد کا دعویٰ رکھنے والے احسان علی ایڈووکیٹ کا ایک ملاقات میں کہنا تھا کہ چونکہ عوامی ورکرز پارٹی نے ان کے ساتھ مشترکہ یا متفقہ امیدوار لانے کے ضمن میں کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں کیے اس لیے وہ آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ وہ 215 ووٹ ہی حاصل کرسکے۔ اس حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار کرنل (ریٹائرڈ) عبیداللہ بیگ 5624 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ پیپلز پارٹی کے ظہور کریم 4090 ووٹ حاصل کر سکے۔
گلگت بلتستان میں ایک دلچسپ سیاسی رجحان ضلع غذر سے تیسری مرتبہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے قوم پرست رہنما نواز خان ناجی کی سربراہی میں بلوارس نیشنل فرنٹ کا ہے۔ جی ایم سید سے سیاسی طور پر متاثر ہونے کے دعویدار نواز ناجی کا یہ فرنٹ اپنی حتمی منزل گلگت بلتستان کی آزادی بتاتا ہے تاہم اس سے قبل وہ ریاست پاکستان کے متعین کردہ انتخابی اور انتظامی امور کا حصہ بننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ کچھ مقامی دانشوروں اور سرگرم کارکنوں کا کہنا تھا کہ 2015 میں منعقدہ عام انتخابات کے موقع پر جب نواز خان ناجی کو اپنی پوزیشن کمزور محسوس ہوئی تو انہوں نے اپنے اسماعیلی فرقے میں یہ بات کرنا شروع کی کہ اسیمبلی میں ایک ایسے اسماعیلی کی موجودگی ضروری ہے جو کہ ان کی طرح سیاسی حیثیت کے ساتھ عملی طور پر اپنے عقیدے پر بھی کاربند ہو۔ حاصل شدہ معلومات کے مطابق ان کا سب سے زیادہ اثر اپنے آبائی ضلع غذر کے نوجوانوں میں ہے جبکہ دیگر علاقوں میں بھی کئی ایک تعلیم یافتہ لوگ ان کے ہم خیال ہیں۔ اس مرتبہ عام انتخابات کے روز ضلع غذر میں بیرون ضلع لوگوں کی آمد پر سرکاری طور پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جس کا سبب نواز خان ناجی کا یہاں سے انتخابات میں حصہ لینا بتایا جا رہا تھا۔
گلگت بلتستان میں خواتین کا تحرک اور خود مختیاری قابل رشک ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ ان میں تعلیم اور صحت کی سہولیات کی بڑی شرح ہے۔ سندھ کو اس ضمن میں یقیناً گلگت بلتستان سے سیکھتے ہوئے اس امر کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان برف پوش پہاڑوں، وادیوں اور پہاڑی جھرنوں کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی اولین ترجیح ہے، جہاں سیاحتی مراکز کے حوالے سے نجی شعبے کی سرمایہ کاری قابل دید ہے، حکومت سندھ بالخصوص محکمہ ثقافت بھی اگر سندھ میں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرے تو نہ صرف مقامی سطح پر روزگار کے انگنت مواقع پیدا ہوسکتے ہیں بلکہ سیاحتی مراکز کی تشہیر بھی ممکن ہوگی۔
حیرت انگیز طور پر گلگت بلتستان میں بھیک مانگنے والے نظر نہیں آتے، شاید اس کا سبب آبادی کے تناسب کے لحاظ سے سیاحت اور چین کے ساتھ زمینی راستے کے ذریعے آمد رفت کی وجہ سے دولت کی نسبتاً زیادہ ریل پیل ہے۔
اس پورے خطے میں چین کی عملی دراندازی واضح طور پر نظر آتی ہے، جس کے شہری کئی ایک مقامات پر مختلف زیر تکمیل منصوبوں پر کام کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں جس کا اظہار چینی زبان میں سائن بورڈز سے ہوتا ہے، تاہم ان زیر تکمیل منصوبوں میں سے کسی ایک پر بھی ان کے متعلق معلومات درج نہیں ہوتی جس سے اندازہ لگایا جا سکے کہ ان منصوبوں کی نوعیت کیا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ