ڈاکٹر ناصر عباس نیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معنی اور معنویت میں فرق کا احساس سب کو ہوگا مگر یہ فرق ادب کی تفہیم و تعبیر میں کس قدر اہم ہے، اس طرف دھیان عام طور پر نہیں گیا(ای ڈی ہرش جونیئر نے پہلے پہل اس پر لکھا)۔ہر ادبی متن معنی کا حامل ہے مگرہر ادبی متن معنویت بھی رکھتا ہو ، یہ لازم نہیں۔معنی ہر ادب پارے ہی کی نہیں ہر کلام کی شرط ہے،جب کہ معنویت اضافی ہے ؛یہ الگ بات کہ اضافی ہونے کے باوجودغیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ جن ادب پاروں میں فقط معنی ہوں ،ان کی جگہ محض ادب کی تاریخ میں ہوتی ہے۔وہ اپنے زمانے میں ،کچھ دیر کے لیے پڑھے جاتے ہیں ،پھر طاقِ نسیاں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ البتہ جن فن پاروں میں معنی و معنویت دونوں ہوں ، ان کی جگہ ادب کی تاریخ اور لوگوں کے عمومی حافظے میں بہ یک وقت ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ ادب کی تاریخ میں فن پاروں کی جگہ بدلتی رہتی ہے؛ بعض کے لیے یہ جگہ مسلسل سکڑتی ہے اور بعض کے لیے مسلسل پھیلتی ہے ۔آج ایک صفحے کی جگہ گھیرنے والے ،کل ایک سطر کے مستحق ہوسکتے ہیں اور آج جن کے بارے میں تاریخ ادب خاموش ہو،کل ان کے بارے میں رطلب اللسان ہوسکتی ہے۔
محض معنی کسی ادب پارے کو اپنے زمانہ ء تخلیق تک اور بعض اوقات تو لمحہ ء تخلیق تک محدود رکھتا ہے ،جب کہ معنی ومعنویت اسے آنےو الے زمانوں کے لیے ایک زندہ چیز بنادیتے ہیں اور ہر زندہ چیز اردگرد سے مسلسل اور نئے نئے روابط قائم کرتی ہے۔یوں سمجھیے، محض معنی کا حامل متن دو چار بار کلام کرنے کے بعد خاموشی مرگ کا شکار ہوجاتا ہے ، لیکن معنی ومعنویت سے لبریز متن ، بدلتے زمانے اور بدلتی حسیت سے کلام کی معجزاتی قوت رکھتا ہے ۔ معنی ایک ننھا چراغ ہے جو فن پارے کے طاق میں جلتا ہے اور ایک چھوٹا ساہالہ بناتاہے ،اسی طاق کو روشن کرتا ہے اور اسے(بدلتے زمانے کی ) ہوا سے بجھنے کا اندیشہ مسلسل لاحق رکھتا ہے،جب کہ معنویت متن اور زمانے کی رگڑ سے پیدا ہونے والی آگ ہے جو ہر مشکل ، پیچیدہ اور اجنبی صورتِ حال کو روشن کرتی ہے۔یہ روشنی بھی کوئی عام نہیں، بصیرت سے لبالب نور !
معنی ،کسی فن پارے کا اساسی مفہوم ہے ۔یہ اساسی مفہوم ،فن پارے کے فوری سیاق میں مضمر ہوتا ہے۔ وہ فن پارہ کب، کس مخصوص صورتِ حال میں لکھا گیا ،اس کے مصنف کی نظریاتی و شعریاتی ترجیح کیا تھی ، وہ کس نوع کے اسلوب کو پسند کرتا تھا اور کس تنقیدی شعور کے تحت اپنے ہی فن پارے کی کاٹ چھانٹ کرتا تھا، اس کے پیش نظر کون سے قارئین تھے —اس سب کے مجموعے کو فوری سیاق کہا جاسکتا ہے۔جب ہم ادب کو اس کے تاریخی و سوانحی پس منظر میں پڑھنے پر زور دیتے ہیں یا مصنف کی منشا کو فن پارے کے معنی تک پہنچنے کی کلید کہتے ہیں توہم ایک ہی کام کررہے ہوتے ہیں: فن پارے کے اساسی معنی تک رسائی کی کوشش۔ دوسرے لفظوں میں ہم فن پاروں کے لیے ان کے ماضی کو— اور ان کے اوّلین لمحہ تخلیق کو حکم بناتے ہیں۔ بعض متون کچھ ایسے لسانی ونشانیاتی عناصر رکھتے ہیں کہ وہ بھی اپنی اساسی تفہیم کے لیے اپنے قارئین کو اپنے لمحہ ء تخلیق تک کھینچ کے لے جاتے ہیں۔نشان خاطر رہے جسے ہم معنی کہتے ہیں وہ ہمیشہ ماضی میں جڑیں رکھتا ہے۔ زبان میں موجود ہر لفظ کے معنی ،ماضی ہی میں کسی وقت قائم ہوئے تھے (اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دنیا میں زبان روایت —اورقدامت پسندی کو باقی رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے) ۔ اس معنی کو اگر کوئی شے ماضی کے گھنے سائے سے واگزار کراتی ہے اور لمحہ ء حاضر کی زندہ حقیقت بناتی ہے تو وہ "فن پارہ "ہے —یعنی ایک ایسا متن جو تخلیقی عمل کا نتیجہ ہے۔
فن پارے کے معنی تک رسائی بھی اتنا سادہ عمل نہیں جتنا عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ تخلیقی عمل میں حصہ لینے والی ہر شے تقلیب سے گزرتی ہے: اس کا محرک ، اس کا زمانہ ، کوئی مخصوص تجربہ ،لسانی عناصر اور یہاں تک کہ مصنف کی منشا بھی۔ لہٰذا کسی فن پارے میں کوئی شے—تاریخ و سوانح اور پہلے سے موجود زبان—اپنی سابق ،اصلی حالت میں باقی نہیں رہتی۔اس لیے اصولی طور پر کسی فن پارے سے "حقیقی تاریخ و زمانہ” کی بازیافت نہیں کی جاسکتی ،البتہ تاریخ و زمانہ کو "جمالیاتی بصیرت” کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ،نیز ان کے سلسلے میں فن پارے کے مئوقف کو سمجھا جاسکتا ہے۔کوئی تحریر اس وقت تک فن پارہ نہیں قرار پاسکتی ،جب تک اس میں انعکاس سے زیادہ ،روشن کرنے کی صلاحیت نہ پیدا ہوجائے۔(جس فن پارے میں یہ صلاحیت جتنی زیادہ ہے، وہ اتنا ہی زندہ ہے۔یہی معنویت ہے)۔ چناں چہ فن پارے کے اساسی معنی کو سمجھنے کےلیے اس کے فوری سیاق —مذکورہ تاریخی و سوانحی عناصر—کی بدلی ہوئی حالت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
معنویت، معنی سے بڑھ کر ہے؛ یعنی وہ معنی بھی ہے اور اس سے زائد بھی۔معنویت، کسی فن پارے کے فوری سیاق اور اس کے سب متعلقات کو عبور کرجاتی ہے ۔معنی اساسی مطلب ہے تو معنویت مسلسل پھیلنے والا ،ان دیکھی سمتوں کی جانب اڑان بھرنے والا مفہوم ہے۔ ادب کی بنیادی خصوصیت باہر کی طرف پھیلنے ہی میں ہے؛ یہ معنویت کے سبب ہے۔ معنویت ، فن پارے کو اس کے زمانہ تخلیق اور لمحہ ء تخلیق کی قید سے بھی آزاد کراتی ہے۔ معنی ،تخلیقی عمل میں حصہ لینےو الے عناصر کی تقلیب (Transformation)سے وجود میں آتا ہے، معنویت کی جڑیں بھی اسی تقلیب میں ہیں؛بس فرق یہ ہے کہ جب تقلیب اپنی بنیادی سطح تک رہے تو معنی ،جب نقطہ ء کمال تک پہنچے تو معنویت؛نقطہ ء کمال تک پہنچتے پہنچتے بہت کچھ راکھ ہوتا ہے اور آگ میں راکھ ہونے کی دیوانگی کسی کسی کے حصے میں آتی ہے ۔یعنی جب کوئی عندلیب، گلشن ناآفریدہ کا نغمہ گانے لگے اور کوئی دیوانہ ،دشت ِقیس سےنکل کر دشت امکاں میں جاپہنچے ۔لفظ کے مجازی حدود اپنے اندرپھیلائو کی وہ خصوصیت حاصل کرلیں کہ ہر نئے زمانے کی حسیت کے لیے "بامعنی و موزوں ” نظر آنے لگیں ۔ فن پارے کی تاریخ اور مصنف سے ناواقف قاری بھی اس میں اپنی روح کی کسی گم شدہ آواز کو سننے لگیں تو سمجھیں یہ فن پارے کی معنویت کے طفیل ہے!
تصویر: گل جی ،1989
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ