عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان کا صنعتی ضلع لسبیلہ خصوصاً حب میں فیکٹری مالکان کی من مانیاں عروج پر ہیں۔ لیبر قوانین کی پامالی عام ہے۔ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کی ہوئی ہے۔ ملازمتیں عارضی ہیں، ورکربنیادی حقوق سے یکساں محروم انتہائی پسماندہ حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ مستقل ملازمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملازمین کی اکثریت عارضی، سیزنل اور کنٹریکٹ ورکرز کی ہے۔ جنہیں ملازمت کا تحفظ، سوشل سیکورٹی اور تنظیم سازی کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ وزرات محنت و افرادی قوت بلوچستان، لسبیلہ انڈسٹریل اسٹیٹس ڈویلپمنٹ اتھارٹی (لیڈا) سمیت دیگر اداروں کے حکام کی مالکان کو مکمل سرپرستی حاصل ہے۔
اس سرپرستی کا ثبوت مزدوروں کا جاری استحصال ہے۔مزدور ذرائع کے مطابق ضلع لسبیلہ میں قائم چائنا پاور حب جنریشن کمپنی، بائیکو پیٹرولیم پاکستان لمیٹڈ،ڈی جی سیمنٹ، اٹک سیمنٹ، پاکستان پیپرز ملز،حب سالٹ سمیت دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بھی 50 سے 80 فیصد ٹھیکیداری نظام قائم ہے جس کا سہرا وزرات محنت و افرادی قوت بلوچستان کے حکام کے سر جاتا ہے۔ ٹھیکیداری نظام کے سبب مزدور تمام جائز مراعات سے محروم ہیں بلکہ ان کی ملازمتوں کو بھی کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ کسی بھی وقت ٹھیکیدار ملازم کو ملازمت سے فارغ کردیتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وزارت محنت و افرادی قوت بلوچستان مکمل غیر فعال ہے جس کے سبب مزدور کا خون چوسا جارہا ہے۔حب کے صنعتی شہر میں تقریبا ً180 کارخانے فعال ہیں۔ بظاہر لیبر قوانین موجود ہیں تاہم ان پر عمل نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں مزدوروں کی بڑی تعداد استحصال،جبری مشقت اور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ 95 فیصد ملازمین جب نوکری پر آتے ہیں، تو ان کو اپائنٹمنٹ لیٹر تک نہیں دیا جاتا یعنی ان کے پاس کوئی ثبوت ہی نہیں ہوتا کہ وہ جن کے لیے کام کر رہے ہیں۔
وہ اس جگہ پر ملازم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کو نکالا جاتا ہے اور وہ کسی بھی لیبر ڈیپارٹمنٹ یا لیبر کورٹ میں جا کر یہ دعویٰ دائر کرنا چاہیں کہ ان کو غیر قانونی طور پر برخاست کیاگیاہے تو وہ یہ ثابت ہی نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ 97 فیصد فیکٹریاں ایسی ہیں جہاں مزدوروں کو کم سے کم مقررکی گئی اجرت تک نہیں دی جاتی۔ کارخانوں میں نو، دس بلکہ 12 سے 15 گھنٹے بھی کام لیا جاتا ہے۔ جبکہ مقرر کردہ اوقات کار 8 گھنٹے ہیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار چھٹیوں کا بھی نظام نہیں اور مزدوروں کو اتوار کے روز بھی کام پر مجبور کیا جاتا ہے۔
حب کی بیشتر صنعتوں میں مزدوروں کو کسی قسم کی صحت کی سہولیات و مراعات حاصل نہیں ہیں۔ حب میں پچاس بستروں پرمشتمل ایک اسپتال قائم ہے۔ اکثر مزدوروں کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں بھی کرپشن پرچی سسٹم اور بوگس بلز کے ذریعے معاملات چلائے جارہے ہیں۔ عام مزدور ہر طرح کی صحت کی سہولت سے محروم ہیں۔ وزارت محنت و افرادی قوت بلوچستان مزدوروں کو سہولیات و مراعات فراہم میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔80 کے قریب فیکٹریز بند ہوگئی ہیں کیونکہ بلوچستان حکومت نے سرمایہ کاروں کو دس سے پانچ سال تک کی ٹیکس چھوٹ دے رکھی ہے۔
جب ٹیکس دینے کا وقت آتا ہے یا بجلی اور پانی کے بلز کے واجبات کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو یہ سرمایہ دار مختلف بہانے بنا کر فیکٹریوں کو بند کردیتے ہیں اور بعض اوقات فیکٹریوں کو جلایا بھی جاتا ہے۔ مزدوروں کی تنخواہیں ہڑپ کر لی جاتی ہیں۔ تمام مزدوروں کو جبراً برطرف کیا جاتا ہے۔ بیشتر مالکان بند فیکٹری کی جگہ حکام کو واپس نہیں کرتے ہیں بلکہ وہاں دوبارہ فیکٹری کے چلانے کے بجائے اس کو گودام میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ اور کرائے پر دیتے ہیں حالانکہ ان کو بلوچستان حکومت کی جانب سے صرف فیکٹری چلانے کے لئے یہ سستی اراضی دی جاتی ہے۔
جو کوڑیوں کے مول انہیں ملتی ہے تاکہ بلوچستان میں صنعتوں کا فروغ ہوسکے۔ ان فیکٹریوں کوگودام میں تبدیل کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہوتا لیکن یہ معاملہ بیوروکریسی اور مالکان کے درمیان انڈرہینڈ ڈیل سے طے ہوتا ہے۔ لسبیلہ انڈسٹریل اسٹیٹس ڈویلپمنٹ اتھارٹی (لیڈا) کسی زمانے میں منافع بخش ادارہ ہوتا تھا لیکن اب اقربا پروری اور کرپشن کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور آخری سسکیاں لے رہا ہے۔ آج وہ اپنے ملازمین کو تنخواہ ادا کرنے کے اہلیت نہیں رکھتا۔ تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے بلوچستان حکومت سے گرانٹ لینا پڑتی ہے۔
حالانکہ ضلع لسبیلہ ایک صنعتی ضلع ہے۔ جہاں ریونیو حاصل کرنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرروت نہیں ہے۔ سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ لیڈا حکام اور مالکان کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم ہوا ہے۔ وہ رشتہ رشوت کی بنیاد پر قائم ہے۔لیڈا کی تباہی کی دوسری وجہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چار سو کے لگ بھگ افسران اور ملازمین ہیں جس میں آدھے سے زیادہ گھوسٹ ہیں۔ گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں۔ صرف جام حکومت کے دور میں پانچ ایم ڈیز کے تعیناتی اور تبادلے ہوئے۔
یہ سارے معاملات سیاسی تھے۔ ایک ایم ڈی نیب زدہ بھی نکلا۔ آخری اطلاعات تک لیڈا بغیر ایم ڈی کے چل رہا ہے۔ کوئی چارج لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کیونکہ سیاسی بنیادوں پر کام لیا جاتا ہے بعد میں ان کو نیب اور اینٹی کرپشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 99 فیصد فیکٹری مالکان کا تعلق کراچی سے ہے۔ فیکٹری انتظامیہ اور اکثر مزدوروں کا تعلق بھی کراچی سے ہے۔ علاقے میں فیکٹریاں لگانے سے قبل بلوچستان حکومت اور فیکٹری مالکان کے درمیان یہ معاہدہ طے ہوتا ہے کہ 75فیصد مزدور یا ملازم مقامی رکھیں گے لیکن سرمایہ کار اس معاہدے پر کہیں بھی عمل درآمد نہیں کرتے۔
بلوچستان حکومت نے اس معاہدے کی پاسداری نہ کرنے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ شاید اس کی وجہ مالکان سے ملنے والے مراعات اور رشوت ہے۔غیر مقامی مزدور رکھنے کی وجہ سستا لیبر ہوتا ہے جو ٹھیکیدار کے ذریعے لائے جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری بڑی وجہ چائلڈ لیبر بھی ہے۔ اس وقت تقریباً کارخانوں میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں سے جبری مشقت بھی لیتے ہیں۔ ان بچوں کا تعلق زیادہ تر پنجاب سے ہوتا ہے۔ ان بچوں سے زیادہ سے زیادہ مشقت لیا جاتا ہے اور اجرت کم دی جاتی ہے۔ 80 فیصد کمپنیوں میں یونین سازی کی اجازت نہیں ہے۔
تاکہ زیادہ سے زیادہ مزدوروں کا استحصال ہوسکے۔ بیشتر فیکٹریز یا کمپنیز میں کام کرنے والے مزدور اور ملازم ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) میں رجسٹرڈ نہیں ہیں جس کی وجہ سے ملازم ریٹائرڈ ہونے کے بعد اولڈ ایج پنشن، لواحقین پنشن، اسٹیٹ پنشن، ان ویلیڈیٹی پنشن اور اولڈ ایج گرانٹ جیسی سہولیات یا مراعات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ مالکان پیسے بچانے کے لئے اپنی کمپنیز کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے۔ دراصل ای او بی آئی حکام اور مالکان کے درمیان کا معاملہ ہوتا ہے۔بلوچستان کی صنعتوں سے بلوچستان حکومت کوکوئی فائدہ نہیں ہے۔
بیشتر بڑی بڑی کمپنیوں کے ہیڈ آفس کراچی میں قائم ہیں جس کو بنیاد بناکر وہ سیلز ٹیکس سندھ حکومت کو دیتے ہیں جس سے بلوچستان کو کروڑوں روپے کی آمدنی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ماضی میں اس مسئلے کو بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ شہید نواب اکبر خان بگٹی نے اٹھایا تھا جس پر مالکان نے بڑا شور مچایا اور نام نہاد قومی میڈیا نے نواب صاحب کے خلاف منفی پروپیگنڈہ شروع کردیا اور بھتہ کا الزام لگایا۔ جبکہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی اس مسئلے کو اٹھایا جس پر کافی پیشرفت بھی ہوئی مگر وقت سے پہلے ان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
اور مسئلہ ہنوز اپنی جگہ موجود ہے۔ضلع لسبیلہ میں آلودگی ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ تمام علاقے بری طرح ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہورہے ہیں۔ قائم کمپنیز زہریلا دھواں خارج کرکے فضاء میں آلودگی کا باعث بن رہی ہیں جس کی وجہ سے پورے ضلع میں دمہ سمیت مختلف بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔بلوچستان حکومت کو چاہیے کہ وہ لیبرانسپکٹروں کی تعداد میں اضافہ کرے ان کی تربیت کو بہتر بنائے اور آزاد اور معتبرمعائنہ کے نظام کو قائم کرے اور اپنے وسائل کے مطابق موثر معائنوں کی تعداد میں اضافہ کرے۔ ساتھ ساتھ حکومت کو متعلقہ لیبر قوانین پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ ،روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ