نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

فخرالدین ؒ کی وفات کے بعد سجادہ نشین بنے۔ پھر 32 سال کی عمر تھی کہ اجمیر شریف میں آپ کی دستار بندی ہوئی۔ خواجہ صاحب کو اپنے مرشد سے بے پناہ عقیدت ومحبت تھی۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلطان العاشقین، رئیس شعرائے متصوفین، ہفت زبان شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا 123 واں عرس مبارک کوٹ مٹھن ضلع راجن پور میں شروع گیا ہے۔ عرس کی تقریبات تین روز تک جاری رہیں گی اور 23نومبر کو اختتام پذیر ہوں گی۔ آج کی تحریر سلطان العاشقین حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کی شاعری سے متعلق نہیں بلکہ ان کی ذات گرامی کے حوالے سے ہے تاکہ پڑھنے والے قارئین کوخواجہ سائیں کی ذات سے متعلق آگاہی ہوسکے۔
آپ کا نام غلام فرید اور خورشید عالم تاریخی نام ہے۔ والدِ گرامی کا نام نامی خواجہ خدابخش ؒ ہے۔ آپ کا نسب حضرت فاروق اعظمؓ تک پہنچتا ہے۔ مناقب فریدی اور گوہر شب چراغ میں تحریر ہے کہ ان کے جد اعلیٰ ملک بن یحیٰ عرب سے ترکِ وطن کرکے سند ہ آگئے تھے۔ ان کی اولاد میں سے حضرت شیخ حسین ٹھٹھہ (سندھ) میں مقیم ہوئے۔ ان کے صاحبزادے مخدوم محمد ذکریا مغل شہنشاہ جہانگیر عادل کے عہد میں موضع منگلوٹ (ملتان) میں آباد ہوئے اور ان کا خاندان تین پُشتوں تک یہیں مقیم رہا۔
خواجہ غلام فریدؒکے پردادا حضرت مخدوم محمد شریف ؒ نے، جوایک جلیل القدربزرگ تھے موضع یاراوالی میں رہائش اختیار کی۔ وہاں کا رئیس مٹھن خان بلوچ آپ کا مرید تھا اس نے آ پ کی خواہش پرہی مٹھن کوٹ شہر آباد کیا۔ حضرت مخدوم یہیں منتقل ہوگئے۔ ان کے دو صاحبزادوں کے نام خواجہ محمد عاقلؒ اور خواجہ نور محمدؒتھے۔ والد بزرگوار کے بعد خواجہ محمد عاقلؒ اور اُن کے بعد ان کے صاحبزادئے میاں احمد علی اور ان کے بعد حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے والد میاں خدابخش ان کے جانشین بنے۔
یہ مرجع خلائق بزرگ تھے۔ انہیں اتباع شریعت کا بڑا خیال رہتاتھا۔ ان کے فرائض تو درکنار کبھی کوئی سنت و مستحب بھی ترک نہیں ہوا۔ یہ گردونواح میں سکھوں کی شورشوں اور مسلمانوں پر ان کے ظلم وستم کی بناپر مٹھن کوٹ سے چاچڑاں شریف (بہاولپور) آگئے۔ یہاں بہاولپور ریاست کے دسویں نواب صادق محمد خان (چہارم) آپ کے مرید ہوئے۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی ولادت مغلوں کے آخری دور حکومت میں مورخہ 26 ذیقعدہ 1261 ہ آخری شنبہ کو چاچڑاں شریف (بہاولپور) کے مقام پر ہوئی۔
حضرت خواجہ غلام فریدؒ آٹھ سال کی عمر کو پہنچے تو آپ کے والد انتقال فرما گئے۔ والدہ ماجدہ پہلے ہی فوت ہو چکی تھیں اس وقت آپ قران مجید حفظ کرچکے تھے۔ والد گرامی کے بعد آپ کی تعلیم وتربیت آپ کے بڑے بھائی مولانا غلام فخرالدینؒ نے فرمائی جو بلند پایہ عالم اور درویش تھے۔ خواجہ صاحب نے ان کی سرپرستی میں تفسیر، حدیث، فقہ، اور دیگر علوم وفنون حاصل کیے۔ آپ نے عربی، فارسی، اردو، ہندی، سندھی اور مارواڑی زبانیں بھی سکیھیں۔
حضرت خواجہ غلام فریدؒ ظاہری وباطنی علوم کی تکمیل کے بعد رشدوہدایت کے کام میں مصروف ہوگئے۔ آپ ایک عالم دین اور عارف باللہ تھے۔ غیر معمولی حافظے کے مالک تھے۔ حضرت خواجہ صاحب علمی جستجو اور تحقیق میں بہت شغف رکھتے تھے۔ تاریخ و تصوف کے حوالوں اور روایتوں کو محققانہ انداز سے پرکھتے تھے۔ 1875 ء میں آپ حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مشہور ہے کہ آپ نے اپنے ساتھ ایک سوسے زائد افراد کو اپنے خرچ پر حج کرایا۔
حج سے قبل آپ کبار اولیاء کرام کے مزارات پر حاضر ہوئے اور بلادِ اسلامیہ کے ممتاز علماء سے اکتساب ِ فیض کیا۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ نے یترہ سال عمر میں اپنے برادرِ بزرگ حضرت مولانا فخرالدین ؒ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور تربیت پاکر خلافت حاصل کی۔ 27 سال کی عمر میں برادرِ بزرگ اور مرشد حضرت مولانا فخرالدین ؒ کی وفات کے بعد سجادہ نشین بنے۔ پھر 32 سال کی عمر تھی کہ اجمیر شریف میں آپ کی دستار بندی ہوئی۔ خواجہ صاحب کو اپنے مرشد سے بے پناہ عقیدت ومحبت تھی۔ آپ کی کافیوں میں جا بجا اس کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں
”آپ چشتی سلسلے کی نظامی شاخ سے تعلق رکھتے تھے اور آپ کا سلسلہ طریقت اٹھارہ واسطوں سے حضرت نظام الدین اولیاء تک یوں پہنچتا ہے۔ خواجہ غلام فریدؒ، خواجہ فخرالدینؒ، خواجہ خدابخشؒ، میاں احمدعلیؒ، قاضی محمد عاقلؒ، مولانا نور محمد مہارویؒ، مولانا فخرالدین جہاں دہلویؒ، خواجہ نظام الدین اورنگ آبادیؒ، شاہ کلیم اللہ جہاں آبادیؒ، شیخ یحییٰ مدنی گجراتیؒ، شیخ محمد چشتی گجراتیؒ، شیخ حسن محمد گجراتیؒ، شیخ جمال الدین جم گجراتیؒ، شیخ محمود راجن گجراتیؒ، شیخ علم الدین گجراتیؒ، شیخ سراج الدین گجراتیؒ، شیخ کمال الدین علامہؒ، شیخ نصیر الدین چراغ دہلویؒ، خواجہ نظام الدین اولیاءؒ۔
حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے آئینہ اخلاق میں استغناء، توکل، تقویٰ، درگزر، محبت، عشق، حُب الوطنی، حُب رسولﷺ، توحید اور دنیا کی بے ثباتی کا وصف نمایاں ہے۔ آپ انتہائی نرم طبیعت کے مالک تھے آپ کی شخصیت پُروقار اور ہمہ گیر تھی۔ آپ فراخ دل، وسیع المشرب، خوش خلق، نفاست پسند اور خوش ذوق تھے۔ لباس اور خوراک کے بارے میں اعتدال پسند تھے۔ اِتباع شریعت اور حسنِ اخلاق کے پیکر تھے۔ اپنے زمانے کے رسوم غیر شرعیہ سے بیزار تھے ان اور اظہا رافسوس فرمایا کرتے تھے۔
حضرت خواجہ غلام فریدؒ ظاہری عبادات نماز، روزہ، حج، زکواۃ کی پابندی پر بہت زور دیتے تھے اس کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا پرچار بھی بڑھ چڑھ کر کرتے تھے۔ کیونکہ سلسلہ چشتیہ میں کسی کے دل کو ٹوٹنے سے بچانا سو ( 100 ) حج کے برابر ہے۔ آپ سنت نبویﷺ کے بڑے پابند تھے کسی کی دل آزاری نہیں کرتے تھے۔ حضرت خواجہ صاحب سلسلہ چشتیہ میں بیعت ہونے کی وجہ سے سماع سے بے حد شغف رکھتے تھے لیکن آپ سماع میں ہمیشہ آداب کو ملحوظ رکھتے تھے۔
ان کی محفل ِ سماع میں عورتوں اور نیم خواندہ لوگوں کو شریک ہونے کی اجازت نہ تھی۔ حضرت خواجہ صاحب ؒ کے دو عقد ہوے پہلی زوجہ سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئی تھیں۔ آپ کی وفات 6 ربیع الثانی 1319 ہ مطابق 26 جولائی 1901 ء چہار شنبہ کو ہوئی۔ خواجہ غلام فریدؒ کا روضہ ایک وسیع گنبد پر مشتمل ہے جس میں دوکمرئے ہیں دونوں کمروں میں متعدد قبور ہیں اصحاب قبور کی تفصیل حسب زیل ہے

کمرہ نمبرایک میں حضرت خواجہ غلام فریدؒ، حضرت خواجہ غلام فخرالدین ؒالمعروف بہ حضرت خواجہ فخر جہاں ؒ، حضرت خواجہ خدابخشؒالمعروف بہ محبوب الہیٰ، حضرت خواجہ قاضی محمد عاقلؒ، حضرت خواجہ خدابخش ؒالمعروف بہ خواجہ نازک کریم ؒ، حضرت خواجہ معین الدین ؒ، حضرت خواجہ غلام فرید ؒ المعروف بہ خواجہ قطب الدین ؒکمرہ نمبر دو میں حضرت خواجہ فرید ثالث المعروف بہ حضرت خواجہ فیض فرید لالؒ، حضرت خواجہ نور محمدؒ، حضرت خواجہ امام بخشؒ، حضرت خواجہ فیض احمد ؒ۔ خواجہ صاحب ؒ نے اردو میں بھی اشعار کہے ہیں۔ ان کی معروف سرائیکی کافی پیش خدمت ہے
آ چنوں رل یار
پیلوں پکیاں نی وے
کئی بگڑیاں کئی ساویاں پیلیاں
کئی بھوریاں کئی پھِکڑیاں نیلیاں
کئی اودیاں گلنار
کٹویاں رتیاں نی وے
بار تھئی ہے رشک ارم دی
سک سڑ گئی جڑ دکھ تے غم دی
ہر جا باغ و بہار
ساکھاں چکھیاں نی وے
پیلوں ڈیلھیاں دیاں گلزاراں
کہیں گل ٹوریاں کہیں سر کھاریاں
کئی لا بیٹھیاں بار
بھر بھر پچھیاں نی وے
جال جلوٹیں تھئی آبادی
پل پل خوشیاں دم دم شادی
لوکی سہنس ہزار
کل نے پھکیاں نی وے
حوراں پریاں ٹولے ٹولے
حسن دیاں ہیلاں برہوں دے جھولے
راتیں ٹھڈیاں ٹھار
گوئلیں تتیاں نی وے
رکھدے ناز حسن پروردے
ابرو تیغ تے تیر نظر دے
تیز تِکھے ہتھیار
دِلیاں پھٹیاں نی وے
کئی ڈیون ان نال برابر
کئی گھِن آون ڈیڈھے کر کر
کئی ویچن بازار
تلیاں تکیاں نی وے
کئی ڈھپ وچ وی چنڈھیاں رہندیاں
کئی گھِن چھان چھنویرے بہندیاں
کئی چن چن پیاں ہار
ہٹیاں تھکیاں نی وے
ایڈوں عشوہ غمزے نخرے
اوڈوں یار خرایتی بکرے
کسن کان تیار
رانداں رسیاں نی وے
پیلوں چنڈیں بوچھن لیراں
چولا وی تھیا لیر کتیراں
گِلڑے کرن پچار
سینگیاں سکیاں نی وے
آیاں پیلوں چنن دے سانگے
اوڑک تھیاں فریدن وانگے
چھوڑ آرام قرار
ہکیاں بکیاں نی وے

About The Author