وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسموں کی کیا پوچھتے ہیں۔ آتے جاتے رہتے ہیں۔ بام حرم کے دست آموز پرندے البتہ موسموں کی خوب خبر رکھتے ہیں۔ آب و ہوا کو موافق پا کر جھیلوں کے کنارے اترتے ہیں۔ ’’پانی کے پرندوں کا اکثر چشموں میں بسیرا ہوتا ہے‘‘۔ پانیوں ہی پر موقوف نہیں، حریم ناز کے خوش رنگ پرندے تو زیر زمیں زلزلوں کی پیش بینی بھی کر لیتے ہیں۔ گھاس کی پتیوں کی کپکپاہٹ پڑھ لیتے ہیں۔ ہوا کا رخ پہچان کر دور کے دل خواہ ساحلوں کی طرف پرواز کر جاتے ہیں۔ یوں تو دل زدگاں بھی پرندوں میں شمار ہوتے مگر مرغانِ قفس کہلاتے ہیں کیونکہ رشتوں کے دھاگے میں بندھے ہیں… دیوانے کا پاؤں درمیاں ہے۔ فیض نے کہا تھا، دل عشاق کی خبر لینا۔ عرش صدیقی خبر لینے گئے اور لکھ بھیجا… مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں، نہ جاگے گا۔ عزیزو، نانک شاہی تقویم میں کاتک کا مہینہ وسط نومبر میں ختم ہو جاتا ہے۔ گوش نازک میں آویزاں بالی جیسا کانپتا چاند اب ماگھ کی دھند میں داخل ہو چکا۔ وطن عزیز پر پت جھڑ کا موسم مگر گزرتا ہی نہیں۔ اسلام آباد کے ایوانوں سے اگرچہ ’’تالا کنڈا سب ٹھیک ہے‘‘ کی صدا وقفے وقفے سے سنائی دیتی ہے، بندی خانوں کے مکین بہرصورت جانتے ہیں کہ کچھ بھی اچھا نہیں ۔ کچھ اشارے دیکھ لیجئے۔
کورونا کی وبا کا دوسرا حملہ نمودار ہو چکا۔ ایک طرف مرگ انبوہ کے خدشے ہیں، دوسری طرف موثر دوا کی دریافت کے چرچے ہیں۔ عراق سے آمدہ اس تریاق تک ہماری رسائی کا فی الحال امکان نہیں۔ پچھلے آٹھ ماہ سے دنیا اس ویکسین کی جستجو میں سرگرداں تھی۔ دنیا میں پانچویں بڑی آبادی کے ملک پاکستان میں مگر ایسی کسی سنجیدہ سعی کا امکان نہیں تھا۔ ہم نے وہ کھیت ہی نہیں جوتا جس میں تحقیق، تدقیق اور دریافت کی فصل بوئی جاتی۔ خدا پنجاب کے نیک گورنر اور دیگر اہل صفا کو عمر خضر دے، ہم اپنے نصاب میں ریاکاری کا پیوند لگاتے رہے۔ جیب کفن زندگی کی حرارت سے خالی ہوتا ہے۔ پھر کیا تعجب کہ وفاقی کابینہ کو صاف صاف بتا دیا گیا کہ کورونا کی ویکسین بھلے دستیاب ہو جائے، ہمیں نہیں مل پائے گی۔ واں جو جائیں گرہ میں دام کہاں… دام کی استطاعت معیشت سے بندھی ہے۔ اور معیشت کا حال جاننا ہے تو اسٹیٹ بینک کی 173 صفحات کی رپورٹ دیکھ لیجئے جو رواں ہفتے جاری کی گئی۔
اس رپورٹ کی ضخامت سے خوف آتا ہے تو وزیر اعظم کا یہ قول دہرا لیجئے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔ قربانم جان برادر۔ گویا ملک کے 23 کروڑ باشندے اثاثہ نہیں ہیں، برطانیہ اور فرانس کے مجموعی رقبے کے برابر دھرتی اثاثہ نہیں، کھلیان، کارگاہ اور تجارت سے امید نہیں۔ ’برات عاشقاں بر شاخ آہو‘ پر مدار ہے۔ اس کی بھی سن لیجئے۔ خلیج میں مقیم 40 لاکھ کے استقبال کی تیاری کیجئے کہ معدنی تیل کی معیشت کوئی دم کی مہماں ہے۔ برادران عرب مزید میزبانی نہیں کر پائیں گے۔ مغرب میں مقیم تارکین وطن کی دوسری اور تیسری نسل کا ظہور ہو رہا ہے۔ ان کا ہم سے کوئی واسطہ نہیں ہو گا کہ پیچھے دیس میں چھوڑے رشتے آخری منزلوں کو آ پہنچے۔ پھر کون کسے بیس ناخنوں کی کمائی میں حصہ دار بنائے گا۔ اس برس 23 ارب ڈالر کی حیران کن ترسیلات کی حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں مقیم تارکین وطن اپنا اسباب سمیٹ رہے ہیں اور اس کی یافت سے آپ کے عروق مردہ میں سرخی کی جھلک آ رہی ہے۔
ترسیلات سے قطع نظر، مقامی معیشت مندی، کساد بازاری اور جمود کے تین تیروں سے گھائل ہے۔ اگرچہ آپ اس کا الزام کرپشن (گزشتہ) اور منی لانڈرنگ وغیرہ پر رکھنا پسند فرماتے ہیں لیکن ایک تجویز درویش سے بھی لیجئے۔ ہنگری کے شہرہ آفاق ہدایت کار جان کادر (Ján Kadár) نے 1965 میں ایک فلم بنائی تھی۔ The Shop on Main Street۔ غیر ملکی فلموں کے زمرے میں آسکر جیتنے والی یہ فلم دیکھنے سے پاکستانی معیشت کی زبوں حالی کے بہت سے خفیہ پہلو آپ پر آشکار ہو جائیں گے۔ مجھ میں مختصر اشارے کی بھی ہمت نہیں۔ بار بار کالم کا کالعدم ہونا خوشگوار تجربہ نہیں۔
پی ڈی ایم اور حکومت میں براہ راست تصادم کا امکان بڑھ رہا ہے۔ دونوں فریق کندھے اچکا چکا کر آگے بڑھتے ہیں اور مختصر دست پنجہ کر کے حریف کے زور بازو کا اندازہ کر رہے ہیں۔ اس لڑائی کے ممکنہ خدوخال بھی ابھر رہے ہیں۔ سیاست اور سیاست دان کو ہم نے گالی بنا ڈالا۔ ایک نہیں، تین نسلیں سیاست پر سنگ زنی میں پروان چڑھی ہیں۔ جان لیجئے کہ جہاں سیاست کو ایک اہم ترین تمدنی سرگرمی کے طور پر مطعون کیا جاتا ہے، وہاں آمریت سیاست پر قبضہ کر لیتی ہے۔ جہاں سیاسی حریف کو غدار قرار دیا جائے، وہاں سیاسی مکالمے میں پولرائزیشن (قطبیت) پیدا ہوتی ہے۔ جمہوریت دستور کے بیان کردہ وسیع تر دائرے میں عوام کی تائید، پالیسی کے اختلاف اور کارکردگی کے تقابل سے آگے بڑھتی ہے۔ فریق مخالف کے لئے راستہ بند کر کے یک فردی جلوسِ شاہی کا اہتمام کرنے سے بے چہرہ سائے نمودار ہو جاتے ہیں۔ سیاست سائے سے حمام نہیں، مخالف رائے سے کلام کا نام ہے۔ اس مکالمے کو روکنے کے لئے بھاڑے کے دست فروشوں سے میڈیا کے خلاف گالی، دشنام سے مملو ٹرینڈ چلوائے جاتے ہیں۔ گویا سیاست کی تکذیب سے جو بات چلی تھی، وہ اب میڈیا کو حرف غلط بنانے کے درپے ہے۔ اگر یہی منشائے خسرواں ہے تو امیر محمد خاں کالاباغ کا نسخہ برت لیجئے۔ انہوں نے قدرت اللہ شہاب کے ہاتھ ایوب خان کو پیغام بھیجا تھا کہ چند برس کے لئے تمام سکول کالج بند کر دیے جائیں۔ یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’ہمارے باپ دادا کونسے کالج یونیورسٹی میں پڑھے تھے‘‘۔ کوئی اڑھائی کروڑ بچے یوں بھی سکول سے باہر ہیں، میٹرک پاس آبادی کی شرح 27 فیصد ہے اور ڈگری یافتہ کی ذہنی سطح بھی کچھ ایسا راز نہیں۔ سیاست اور میڈیا سب تعلیم کی فتنہ گری ہے۔ ہمت کیجئے۔ یہی نہ کہ نومبر کی رات طویل ہو جائے گی اور کاتک کے چاند پر دھند اتر آئے گی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ