دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صحافت کو کُچلنے کیلئے پیکا قانون اور انتہا پسندوں کا استعمال۔۔۔اسد علی طور

یہ کیس میری اپنی ذات سے مُتعلقہ ہے ، میں نے دو ماہ کے دوران چار عدالتوں اور ایک تحقیقاتی ایجنسی کے سامنے اپنی پندرہ پیشیوں کو رپورٹ نہیں کیا

اسدعلی طور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کیس میری اپنی ذات سے مُتعلقہ ہے ، میں نے دو ماہ کے دوران چار عدالتوں اور ایک تحقیقاتی ایجنسی کے سامنے اپنی پندرہ پیشیوں کو رپورٹ نہیں کیا کیونکہ اپنے کیس پر رپورٹ کرنا درست نہیں سمجھتا تھا اور سچی بات ہے بطور صحافی خبر دینا چاہتا ہوں خبر بننا نہیں چاہتا۔

ایک بات کم از کم فخر سے بتا سکتا ہوں کہ دوران تعلیم میں پہلی پوزیشن کبھی نہ حاصل کرسکا لیکن میرا نام سیشن کورٹ میں ہمیشہ اول پوزیشن پر رہا. ایڈیشنل سیشن جج عارف خان نیازی صاحب نے ہر سماعت پر (میرے گھر سے پینتالیس منٹ کی ڈرائیو پر) صُبح آٹھ بجے میری عدالت میں حاضری یقینی بنائی۔ یوں مُجھے اپنی والدہ کی طرف سے بچپن میں یاد کروائی گئی تمام آیات اور سورتیں دوبارہ سُننے کا موقع ملا جو ہمیشہ عدالت کے آغاز سے قبل وہاں تلاوت کی جاتی تھیں۔

کمرہِ عدالت کا سارا عملہ مُجھے پہچاننے لگا تھا کیونکہ میں اُن سے بھی پہلے کمرہِ عدالت میں بیٹھا ہوتا تھا . کمرہِ عدالت میں لگی ہوئی سولہ ٹیوب لائٹس، سات پنکھے، چوبیس سویچ، سترہ کُرسیاں، تین میز اور واحد گھڑی مُجھے زبانی یاد ہوگئے تھے۔ یعنی اگر کمرہِ عدالت میں کوئی چیز آگے پیچھے ہوجاتی تو میں باآسانی نشاندہی کرسکتا تھا۔

بہرحال کیونکہ پاکستان کلمہ پر بنا ہے اور ہماری سرزمین پر درجنوں نامور صوفیائے کرام کے مزار ہیں تو یہ خطہ معجزات کے لیے زرخیز سرزمین قرار پایا ہے . لال مسجد سے مُنسلک شہدا فاونڈیشن کے ایک ترجمان حافظ احتشام کی بارہ ستمبر دو ہزار بیس کی صُبح اسلام آباد میں آنکھ کُھلی اور جانے دِل میں کیا آیا کہ اُس نے سورج رُخ مُنہ کرکے سفر شروع کردیا یعنی مشرق کی سمت اور پنجاب کی حدود میں داخل ہوتے ہوئے ضلع راولپنڈی کو پار کرتے ہوئے راولپنڈی کی آخری تحصیل گوجر خان کی آخری یونین کونسل جاتلی جاپہنچا۔

جاتلی پہنچ کر موصوف حافظ احتشام نے کسی نامعلوم ڈیوائس پر اپنا ٹویٹر کھولا اور وہاں سے میرے ٹویٹر اکاونٹ کو کھول کر مُشاہدہ کیا تو اُس نے دیکھا میں افواجِ پاکستان اور مُملکتِ خُدادِ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ میں مصروف ہوں۔ اب تو بھائی کو غُصہ تو بہت آیا۔ جی ہاں لال مسجد کے امام مولانا عبدالعزیز کے ایک معتقد کے دِل میں پاک فوج کا درد۔۔ معجزہ تو ہے ناں؟ کہا تو ہے ہماری مٹی معجزات کے لیے بہت زرخیز ہے۔

جی تو وہ صاحب حافظ احتشام جاتلی کے تھانے جا پہنچے اور پولیس کو درخواست دی جنہوں نے فوری طور پر میرے خلاف ایف آئی آر درج کرلی۔ پولیس نے مُجھے فون کرکے یا بُلوا کر میرا موقف تک نہ پوچھا جو عموماً پولیس ایف آئی آر سے قبل کرتی ہے ۔

میرے وُکلا عُمر گیلانی اور حیدر امتیاز نے سب سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ سے ایک ہفتے کی راہداری ضمانت کروائی کیونکہ حتمی طور پر ہمیں راولپنڈی جانا تھا کیونکہ مُقدمہ پنجاب کی حدود میں تھا۔

قارئین کے لیے بتاتا چلوں کہ ہر مُقدمہ کو سُننے کے لیے دو طرح سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ کِس عدالت کے دائرہ سماعت ہے۔ ایف آئی آر درج کرتے ہوئے جان بوجھ کر ایک ایسا کنفیوژن رکھا گیا تھا کہ مُجھے ضمانت لینے میں مُشکلات پیش آئیں اور مُختلف عدالتوں میں دھکے کھاتا پھروں ۔

انسدادِ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کو ایف آئی اے کے مُقدمات سُننے کے لیے مُخصوص عدالتیں ہی سُن سکتی ہیں لیکن پیکا عدالت نے میرا مُقدمہ یہ کہہ کر سُننے سے انکار کردیا کہ یہ ایف آئی آر تو پولیس نے درج کی ہے، اِس لیے اِس کو پولیس کے مُقدمات سُننے والی عدالت ہی سُنے گی ، اُس کے لیے مُجھے گوجر خان کی مُقامی عدالت سے رجوع کرنا ہوگا جبکہ گوجر خان کی مُقامی عدالت بھی مُقدمہ سُننے کو تیار نہیں تھی کیونکہ اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایف آئی آر تو پیکا کے تحت درج ہے ہمیں پیکا کے لیے مخصوص عدالت ہی جانا ہوگا۔

دو مُولویوں کے درمیان جب مُرغی حرام ہوگئی تو میرے وُکلا نے سیشن جج راولپنڈی سے رجوع کیا اور معاملے کی حساسیت دیکھتے ہوئے ایک بار پھر اِن چیمبر سماعت ہوئی . بالآخر سیشن جج صاحب نے میرے وُکلا کو ہدایت کی کہ گوجر خان کی عدالت سے لِکھوا کر لائیں تو پھر وہ فائل خود پیکا عدالت کو مارک کردیں گے جس کے بعد وہ جج صاحب سُن لیں گے۔

میری راہداری ضمانت کا آخری دِن چل رہا تھا ، میرے وُکلا حیدر امتیاز اور سِکندر نعیم نے مُجھے حیدر امتیاز کی ہی گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی گوجر خان کی طرف بھگا دی اور ہم بمُشکل عدالت کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہنچے اور جج صاحب سے فائل پر انکارِ سماعت لِکھوا کر نکل آئے، یوں اگلی صُبح آٹھ بجے ہم ایڈیشنل سیشن جج عارف خان نیازی کے سامنے پیش ہوگئے ، انہوں نے پچاس ہزار روپے کے مچلکوں پر مُجھے ایک ہفتے کی عبوری ضمانت دے کر پولیس سے جواب مانگ لیا۔

میرے وُکلا نے اِسی دوران ایف آئی آر کے خارج کرنے کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے بھی رجوع کرلیا جہاں میرا کیس جسٹس صادق محمود خُرم کے سامنے سماعت کے لیے مُقرر کردیا گیا۔ پولیس نے ایڈیشنل سیشن جج عارف خان نیازی کے سامنے آکر جواب دیا کہ ہم سے غلطی ہوگئی مُقدمہ درج کرتے ہوئے، یہ ہمارا کیس نہیں تھا ، ہم نے فائل ایف آئی اے کو بِھجوا دی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صادق محمود خُرم نے اور ماتحت عدالت کے جج دونوں نے ایف آئی اے سے جواب مانگ لیا۔ اِس دوران سیشن کورٹ میری عبوری ضمانت میں عارضی توسیع دیتی رہی اور مُجھے عموماً ہفتے میں دو دِن راولپنڈی کی کورٹ جانا پڑتا تھا جو میرے گھر سے پینتالیس منٹ کی ڈرائیو پر تھی اور ہر صُبح آٹھ بجے سے پہلے پہنچتا تھا۔

بہرحال ایف آئی اے نے اپنی تحریری رپورٹ میں لاہور ہائیکورٹ کے روبرو موقف اختیار کیا کہ اوّل یہ ایف آئی آر پولیس نہیں کاٹ سکتی تھی، دوم ایف آئی آر میں سیکشن غلط لگائے گئے اور تیسرا لال مسجد کے نمائندے مدعی حافظ احتشام کو جب ایف آئی اے نے بُلایا تو اُس نے آکر تحریری بیان میں کہا کہ میں پولیس سے ہی مُقدمہ چلانا چاہتا ہوں، مُجھے ایف آئی اے سے تحقیقات نہیں کروانی اور وہ پولیس جو پہلے ہی کہہ رہی کہ ہم سے غلط ایف آئی آر کٹ گئی۔ لیکن ایف آئی اے کے لیگل اے ڈی خاقان میر نے لاہور ہائیکورٹ میں بہت زور دیا کہ میٹریل موجود ہے ایف آئی اے کو کاروائی کرنی چاہیے۔

جسٹس صادق محمود خُرم نے ایف آئی اے کے انسپکٹر اعجاز خان سے پوچھا کہ آپ تحریری جواب میں کہہ رہے کیس نہیں بنتا لیکن اٹارنی کُچھ اور کہہ رہے؟ ایف آئی اے کے انسپکٹر نے کم از کم تیس سیکنڈ تک خاموشی سے کبھی جج اور کبھی اٹارنی کا منہ دیکھا اور اِس دوران جسٹس صادق محمود خُرم بار بار دریافت کرتے رہے آپ کیا کہتے ہیں؟

ایف آئی اے کے اے ڈی لیگل خاقان میر کے زور دینے پر ایف آئی اے کے انسپکٹر نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم تحقیقات کر لیتے ہیں اور دو ہفتے دے دیں ہم دونوں طرف کا بیان ریکارڈ کریں گے۔ جج صاحب نے 20 اکتوبر کو تقریباً ایک ماہ کی تاریخ دیتے ہوئے 17 نومبر کی اگلی تاریخ مُقرر کردی۔

ایف آئی اے نے مُجھے 26 اکتوبر کو صُبح نو بج کر بتیس منٹ پر واٹس ایپ پر نوٹس بِھجوا کر ڈیڑھ گھنٹے راولپنڈی دفتر میں پیش ہونے کو کہا۔۔ وہاں اپنے وُکلا حیدر امتیاز اور ایمان زینب مزاری حاضر کے ساتھ گیا اور ہم نے ایف آئی اے انسپکٹر سے ٹویٹس مانگی جِس پر جواب دینا ہوگا لیکن ایف آئی انسپکٹر کا کہنا تھا قانون کے تحت ہم میٹریل نہیں دیتے، آپ جواب دے دیں۔ ہم نے کہا پھر سامنے تو ایف آئی آر پڑی ہے اور اِس میں لگا فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کا الزام میں مُسترد کرتا ہوں۔ انسپکٹر نے کہا یہ تحریری جمع کروا دیں ہم نے کروا دیا۔

بعد ازاں ڈسٹرکٹ کورٹ میں دو نومبر کو تاریخ آئی تو میرے وُکلا سکندر نعیم اور ایمان زینب مزاری حاضر نے جج سے درخواست کی کہ پولیس نے اعتراف کر لیا غلط ایف آئی آر کٹ گئی، ایف آئی اے کہتی ہے کہ مُقدمہ نہیں بنتا ، مُدعی آج تک عدالت نہیں آیا اور وہ ایف آئی اے کو جواب دے گیا کہ آپ سے تحقیقات نہیں کروانا چاہتا تو آپ اسد علی طور کی ضمانت اب کنفرم کر دیں ، وہ دو ماہ سے عبوری ضمانت پر ہی چل رہا ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج عارف خان نیازی نے ایف آئی سے سوال کیا تو ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ مُقدمہ نہیں بنتا۔ جج نے سوال کیا کہ ملزم کا موبائل قبضے میں لیا؟ ایف آئی اے نے جواب دیا انکوائری کے مرحلہ پرموبائل قبضہ میں لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ جج صاحب نے خود بتانا شروع کردیا کہ ایف آئی آر میں ٹویٹر اور سوشل میڈیا کا لفظ لکھا ہوا تو آپ کو موبائل قبضے میں لے سکتے تھے۔ جج نے پوچھا مُقدمہ کیوں درج نہیں ہوسکتا؟ ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ ڈبل جیپریڈی ہو جائے گی کہ ایک ایف آئی آر پولیس نے بھی درج کی ہوئی اور وہی ایف آئی آر ایف آئی اے بھی کاٹ دے اور یہ خلافِ قانون ہوگا۔

یہ سب سُنتے ہوئے میں اور میرے وُکلا ایڈیشنل سیشن جج عارف خان کی سحر انگیز شخصیت اور فہم و فراست سے شدید مُتاثر ہو کر اُن کی قابلیت کے جادو کے صدقے قانون کی وادیوں میں کہیں سے کہیں نکل چُکے تھے کہ میرے وکیل سکندر نعیم نے طلسم توڑ دیا اور سوال اُٹھایا کہ ہم تو صرف ضمانت کنفرم کرنے کی درخواست لے کر آئے تھے۔ ایڈیشنل سیشن جج عارف خان نیازی نے جواب دیا کہ میں کل آرڈر دوں گا اور سماعت تین نومبر تک مُلتوی کردی۔

اگلے دِن تین نومبر کو صُبح آٹھ بجے سے لے کر بارہ بجے تک جج نے ہمیں انتظار کروایا اور جب میرے وُکلا حیدر امتیاز، سکندر نعیم اور ایمان زینب مزاری حاضر نے ضمانت کنفرم کرنے کے لیے گُذشتہ روز کے دلائل پر آرڈر مانگا تو جج نے کہا فائل نہیں پڑھی ، میں دن کے اگلے حصے میں آرڈر لکھوا دوں گا جو آپ کو مِل جائے گا اور نو نومبر کی تاریخ دے دی۔

نو نومبر تک میرے وُکلا روزانہ عدالت جاتے رہے لیکن جج صاحب نے آرڈر نہیں لکھوایا تھا۔ نو نومبر کی صبح جب میں اپنے وُکلا سکندر نعیم اور ایمان زینب مزاری حاضر کے ساتھ عدالت پہنچا تو ایڈیشنل سیشن جج عارف خان نیازی خود چُھٹی پر تھے لیکن ریڈر نے کہا آرڈر دے گئے ہیں۔ ہم نے جب آرڈر دیکھا تو وہ ایف آئی اے کو بتا رہے تھے کہ پولیس کی ایف آئی آر کینسل کرکے آپ اپنی ایف آئی آر درج کرلیں۔

بظاہر ایسا تاثر قائم ہورہا تھا جیسے جج صاحب اب خود مدعی بن رہے ہوں کیونکہ مدعی حافظ احتشام تو کہتا ہے اُس دِن تک کہ میں نے ایف آئی اے سے تحقیقات کروانی ہی نہیں۔ دلچسپی کی بات ہے کہ دو ماہ ہونے کو ہیں مُجھے آج تک نہیں پتہ کِن ٹویٹس پر مُجھےکٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھا۔

میرے وُکلا نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اِس آرڈر کو کل لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کریں گے۔ اِسی طرح کے ایک دوسرے مُقدمہ میں کراچی میں بلال فاروقی کو سندھ حکومت کی مداخلت پر پہلے ہی روز شخصی ضمانت پر رہائی مِل گئی تھی اور اُن کو آج تک عدالت نے دوبارہ طلب نہیں کیا اور تمام سماعتیں صرف وُکلا کی موجودگی میں ہوئیں جبکہ دوسری طرف میں اب تک پاکستان کی چار مُختلف عدالتوں میں جا چُکا تھا، پولیس کے بعد ایف آئی اے کے سامنے فُٹ بال بنا ہوا ہوں اور ہر ہفتے عموماً دو دفعہ عدالت میں پیشی ہوتی تھی۔

تیرہ تاریخ کو صُبح ہم ایڈیشنل سیشن جج عارف خان نیازی صاحب کی عدالت پہنچے تو انہوں نے سماعت کے آغاز میں ہی ہمیں سُننے سے قبل ہی ایف آئی اے سے سوالات شروع کردیے کہ جب آرڈر کیا تھا تو ایف آئی آر کیوں نہیں کاٹی اب تک؟ کِس قانون کے تحت ایف آئی آر کاٹنے سے انکار کررہے ہو؟ میں اور میرے وُکلا سکندر نعیم، ایمان زینب مزاری حاضر اور رمشا کامران جو پچھلی سماعت پر ہی جان چُکے تھے کہ ایڈیشنل سیشن جج عارف خان نیازی کعبے کو صنم خانے سے ملے ہویے پاسباں ہیں تو سکِندر نعیم نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اپنی پیٹیشن واپس لے رہے ہیں۔

اب ایڈیشنل سیشن جج عارف خان نیازی کے پاس ہمارے خلاف آردڑ جاری کرنے کے لیے کویی آپشن نہیں رہا تو انہوں نے پیٹیشن واپس لیے جانے پر خارج کردی۔ لیکن سب سے بڑا کام انہوں نے ابھی کرنا تھا۔۔ جیسے ہی ہم سب کمرہِ عدالت سے رُخصت ہونے لگے انہوں نے ایف آئی اے کے انسپکٹر اعجاز خان کو آواز دی انسپکٹر انسپکٹر۔۔ ہم سب رُک گئے اور انسپکٹر کو دیکھنے لگے۔ انسپکٹر اعجاز آگے بڑھے اور جج صاحب کو جی سر کہہ کر جواب دیا۔ ایڈیشنل سیشن جج عارف خان نیازی تحکمانہ لہجے میں بولے انسپکٹر ایک گھنٹے بعد تُمہیں پتہ چلے گا، سوچنا تُم نے کیا کر دیا ہے۔ یعنی کہ ایڈیشنل سیشن جج عارف خان نیازی ایف آئی اے انسپکٹر کو کُھلی عدالت میں کہہ رہے تھے کہ آپ نے یہ کہہ کرکے کہ اسد علی طور کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا اِس لیے ایف آئی آر نہیں کاٹ سکتا پتہ نہیں کون سا ایسا جُرم کیا ہے جِس کا انسپکٹر اعجاز خان صاحب کو ایک گھنٹے بعد احساس ہوگا اور یہ احساس کِس بُنیاد پر ہوگا یا کون دلائے گا اِس کی وضاحت معزز جج صاحب نے نہیں کی تھی۔

پھر سترہ نومبر کو لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ میں جسٹس صادق محمود خُرم کے سامنے میری تاریخ آئی جو حتمی ثابت ہوئی اور انہوں نے ایف آئی اے کی طرف سے مُجھے کلیئر کیے جانے پر ایف آئی آر کو غیر ضروری قرار دیتے ہویے میری بریت کا فیصلہ سُنا دیا جِس میں لِکھوایا کہ اسد علی طور کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اِس فیصلہ کُن پیشی پر میری نمایندگی ایڈوکیٹ کرنل ریٹایرڈ انعام الرحیم اور ایمان زینب مزاری حاضر نے کی۔

میں اِس موقع پر یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ مُجھے انصاف ملا نہیں بلکہ یہ انصاف مُجھے میرے انتہائی قابل اور محنتی نوجوان وُکلا نے لے کر دیا۔ یہ بہت دِلچسپ اور نظریاتی لوگ ہیں اور اِمتحان کی اِس گھڑی میں میرے اِرد گِرد میرے گھر کے افراد کی طرح ڈھال بن کر کھڑے رہے۔ اِن وُکلا میں بزنس مین فیملی سے تعلق رکھنے والی نوجوان وکیل رمشا کامران بھی شامل تھیں جو دیگر کیسز میں بھی مصروف ہونے کی وجہ سے ہر تاریخ پر تو موجود نہیں تھیں لیکن مشاورت کا حصہ رہیں۔

ایک اور نوجوان وکیل اِسکندر نعیم تھے جِن کے والد بھی قانون دان ہی تھے اور سِکندر اپنے والد کا عموماً ذکر کرتا تھا کہ انہوں نے وکالت کے پیشے سے کوئی پلازے اور دُکانیں نہیں بناییں بس ہمیں دُنیا دِکھا دی۔اِسکندر عوامی ورکرز پارٹی کے بھی مُقدمات میں معاونت کرتے ہیں لیکن میں سِکندر نعیم کی ایک بات سے بہت مُتاثر ہوا وہ سِکندر کے چہرے پر ہر وقت رہنے والا ایک سکون تھا، مُقدمے میں اتار چڑھاو آتا تھا، جج صاحب کا موڈ بدلتا تھا لیکن سکندر انتہائی سکون سے جج صاحب کا چہرہ تکتا رہتا تھا۔

سکندر نعیم خود رابطہ کرکے میری وُکلا ٹیم کے رُکن بنے تھے اور انہوں نے انتہایی عُمدہ قانونی پیروی کی۔ میرے دوست عموماً مُجھ سے ناراض رہتے ہیں کہ میں کھانے کا بِل نہیں دینے دیتا لیکن میرے جیسے ضدی شخص کو بھی سِکندر نے سینڈوچ کھلاتے اور چائے پلاتے تھے۔

اِسی طرح فوجی خاندانی پسِ منظر کے حیدر امتیاز ایک انتہائی قابل وکیل بھی میری ٹیم کا ابتدا سے آخر تک حصہ رہے۔ حیدر امتیاز بس آخری دو تاریخوں پر کورونا ہونے کی وجہ سے نہ آسکے لیکن اُنہوں نے بہت عُمدہ نمایندگی کی۔

سابق آمر جنرل مُشرف کو پھانسی کی سزا دلوانے والے حیدر امتیاز کے پاس مُجھے صحافی فریحہ عزیز نے بھیجا تھا اور دلچسپی کی بات ہے میں فریحہ عزیز کو بالکل نہیں جانتا تھا لیکن میرے خلاف ایف آئی آر کی خبر آتے ہی انہوں نے خود ٹویٹر پر مُجھ سے رابطہ کیا اور حیدر امتیاز کا نمبر دے کر کہا اِس سے رابطہ کریں میں اِن کو آپ کا بتا چُکی ہوں۔۔

میں فریحہ عزیز کا ہمیشہ مشکور رہوں گا کہ حیدر امتیاز جیسا ایماندار وکیل دیا۔

حیدر امتیاز جو تھوڑا لمبا بولتے ہیں بلکہ اِس تھوڑا کو ہم تھوڑا سا بڑھا بھی سکتے ہیں لیکن قانونی نکات کو بہت عُمدہ سمجھتے ہیں اور ایماندار بھی بہت ہیں. مثال کے طور پر ایک دِن مُجھے مُنشی کو پیسے دینے تھے تو انہوں نے مُنشی سے میرے لیے پہلے تو خود ہی پیسے کم کروائے اور پھر مُجھے کہا کہ آپ کو یہ پیسے میں واپس دوں گا کیونکہ مُجھے میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی سے جو فیس ملے گی اُس میں یہ بھی شامل ہوتے ہیں۔

میری ٹیم کے ایک اور رُکن گیلپ سروے والے اعجاز شفیع گیلانی کے صاحبزادے عُمر گیلانی بھی تھے۔ عُمر گیلانی ہر حال میں خوش رہنے والے نوجوان ہیں جو میرے ساتھ ہلکا پُھلکا مذاق کرتے رہتے تھے اور میرے کیس میں جاری ہونے والے نسبتاً سخت آرڈرز پر بھی مذاق میں اُس میں سے مُثبت پہلو نکال لیتے تھے لیکن عُمر گیلانی کی قانونی نکات سمجھنے کی حِس بہت تیز ہے اور مشاورت کے دوران مُختصر لیکن انتہائی جامع نکات بیان کرتے تھے۔

عُمر گیلانی سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ کے ساتھ سُپریم کورٹ میں خِدمات بھی سراِنجام دے چُکے ہیں۔ اِسی ٹیم میں ایک رُکن ایمان زینب مزاری حاضر بھی تھیں۔۔ ایمان زینب مزاری حاضر پر لِکھنے سے پہلے یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر میں مہوش بھٹی عُرف ماہو بلی اور ایمان زینب مزاری حاضر سے بہت مُتاثر ہوں کیونکہ دونوں نوجوان خواتین انتہائی دلیرانہ موقف رکھتی ہیں۔ ایمان زینب مزاری حاضر پاکستان بار کونسل کی طرف سے بنائی جانے والی جرنلسٹس ڈیفنس کمیٹی کی مُتحرک رُکن ہیں اور اُنہیں میرے کیس کے ساتھ جرنلسٹس ڈیفینس کمیٹی نے ہی مُنسلک کیا تھا۔

ایمان زینب مزاری حاضر عموماً صُبح مُجھ سے بھی پہلے کورٹ روم میں بیٹھی ہوتی تھیں اور مُشاورت میں بھرپور حصہ لیتی تھیں، پیٹیشن کی نوک پلک بھی سنوارتی تھیں اور آگے کیا ہونے والا ہے، جج کیا سوچ رہا ہے فوراً بھانپ جاتی تھیں۔ اچھی مہمان نواز بھی ہیں اپنے دفتر میں ہمارے مشاورتی سیشن کی میزبانی بھی کی۔

ایمان زینب مزاری حاضر وفاقی وزیرِ انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی صاحبزادی ہیں اور ڈاکٹر شیریں مزاری کو اُن کی اتنی بہترین تربیت کا کریڈٹ دینا چاہیے۔

ہمارے معاشرے میں عموماً سمجھا جاتا ہے کہ جو بچہ اپنے والدین کی رائے سے اختلاف کرے وہ شاید بدتمیز ہوتا ہے لیکن اگر تھوڑا عقل سے سوچا جائے تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ جو بچے اپنے والدین کے سیاسی اور نظریاتی سوچ سے ہٹ کر راہ چُنیں دراصل اُن کے والدین نے اُنہیں اتنا شعور اور اعتماد دیا ہوتا ہے کہ وہ دُنیا کو اپنی نظروں سے دیکھیں، سمجھیں اور پھر خود فیصلہ لیں کہ نظریاتی اور سیاسی طور پر کِس طرف کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔

ایمان زینب مزاری حاضر بھی دراصل ایک ایسی ہی بیٹی ہیں جنہیں اُن کی والدہ نے شعور اور اعتماد دیا ہے۔ سوشل میڈیا سے شاید لوگوں کو تاثر ملتا ہو کہ ڈاکٹر شیریں مزاری اور ایمان زینب مزاری حاضر میں شاید اپنی اپنی نظریاتی سوچ کی وجہ سے اختلافات رہتے ہوں گے لیکن ایمان زینب مزاری حاضر اپنی والدہ کا جتنے پیار اور احترام سے ذکر کرتی ہیں اِس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی والدہ کی بہت لاڈلی ہیں۔

ایمان زینب مزاری حاضر کے ساتھ ہی ایک اور کردار کی ڈیوٹی بھی تھی جِن کا نام عبدالقادر ہے۔ میں اُن کو قادر بھائی کہتا تھا۔ کسی قسم کی مُداخلت کئے بغیر بھی سائے کی طرح ایمان زینب مزاری حاضر کے ساتھ رہتے ہیں۔ اُن کا ماضی بہت دلچسپ تھا اِس لیے گپ شپ لگانا چاہتا تھا لیکن پھر اُن کو ڈیوٹی پر مامور دیکھ کر تنگ نہیں کرتا تھا کیونکہ اُن کی ذمہ داری زیادہ اہم تھی۔

ایک قد آور شخصیت ایڈوکیٹ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی بھی تھی جو میرے ہائیکورٹ میں تینوں پیشیوں پر خود سے آتے رہے، میری نُمایندگی بھی کرتے تھے اور میری ٹیم کو قانونی مشورے بھی تھے۔ کرنل صاحب انتہایی شفیق طبعیت کے مالک ہیں اور جنرل کیانی کی مُدتِ مُلازمت میں توسیع کو چیلنج کرنے سے لیے کر مُتعدد ہائی پروفایل مُقدمات کی پیروی کرنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا نام کسی تعارف کا مُحتاج نہیں۔

آخر میں سینیر صحافی حامد میر، مُبشر زیدی، مطیع اللہ جان، عنبر رحیم شمسی، شاہ زیب خانزادہ، اسد ملک اور ندیم ملک کا بہت شُکریہ جنہوں نے دیگر لاتعداد صحافیوں کی طرح میرے خلاف اِس جھوٹے مُقدمہ کے خلاف نہ صرف سوشل میڈیا پر آواز اُٹھائی بلکہ اپنے شوز میں بھی میرے کیس کو نمایاں کیا۔ حامد میر صاحب، مطیع اللہ جان، عنبر رحیم شمسی، مُبشر زیدی اور ڈان کے خُرم حُسین میرے کیس کی پل پل خبر بھی حاصل کرتے رہے۔

اپنے دوست ناصر طُفیل کا بھی خصوصی شُکریہ جو مُشکل وقت میں عدالتوں میں بھی جاتا رہا، میرا ضمانتی بھی بنا اور ایف آیی آر کے ابتدائی دنوں میں جب ابھی ضمانت نہیں ہوئی تھی خود آکر اپنے گھر بھی لے گیا جہاں میرا قیام رہا اور افشاں بھابی جو میری بہن ہی ہیں انہوں نے میری بہت خِدمت کی۔ لیکن ایک دوست کے غائب ہونے کا افسوس بھی ہوا جو میرے لیے گھر کے فرد جیسا تھا لیکن اُس نے اِن دو ماہ میں رابطہ نہ کیا۔

میرے بہت سے جاننے والے اور دوست یار عدالت ساتھ چلنے کے لیے بولتے تھے، حامد میر صاحب نے بھی عدالت چلنے کے لیے پوچھا لیکن میں نے سب کا شُکریہ ادا کیا اور کسی کو تکلیف نہ دی۔ مگر اِس دوست کے رابطہ نہ کرنے کا دُکھ ہوا۔ میرے لیے دوست ہی میری کُل کمائی اور اثاثہ ہیں۔۔ یہ اثاثہ کھونے کی خلش رہے گی۔

اب ذرا کُچھ گفتگو اُن پر بھی کر لوں جو یہ ایف آئی آر کرواتے ہیں۔ مُجھے معلوم ہے مُجھ پر یہ ایف آئی آر کیوں ہوئی۔

سُپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس رپورٹنگ کے دوران مُجھے حکومتی ذرائع، اسٹیبلشمنٹ کے فرنٹ مینوں اور سُپریم کورٹ کی عمارت کے اندر سے ناراضگی کے پیغامات ملنے شروع ہوگئے تھے اور مُجھے اندازہ تھا کہ کُچھ پک رہا ہے۔

پھر جب نوکری گئی تو سوچا شاید یہی قیمت ادا کرسکتا تھا لیکن پھر یہ ایف آئی آر بھی ہوئی۔

میں اِس مُلک کے وزیراعظم عمران خان سے تقریباً دو گُنا ٹیکس ادا کرتا ہوں، پُر امن اور قانون کا احترام کرنے والا شہری ہوں لیکن پھر بھی مجھ سے ٹیکس لینے والی ریاست نے میرے خلاف ایک مضحکہ خیز جھوٹی ایف آئی آر کاٹی۔ یقین مانیے عدالت میں جب جج صاحب مُجھے مُلزم کہہ کر پُکارتے تھے تو سوچتا تھا کہ کیا سوال اُٹھانا اور رپورٹ کرنا جُرم ہوگیا ہے جو مُجھے مُلزم کہا جا رہا ہے؟ اگر ایک صحافی سوال نہ اُٹھائے اور عوام کو حقائق سے باخبر نہیں رکھتا تو وہ اپنے پیشے اور قاری دونوں سے غداری کا مُرتکب ہوتا ہے۔

مجھ پر انسدادِ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی جو دفعات لگائی گئیں اُن کے تحت صرف جِس شخص کے بارے میں لکھوں وہ میرے خلاف رپورٹ کروا سکتا تھا اور کوئی ادارہ میرے خلاف کاروائی کے لیے درخواست نہیں دے سکتا تھا لیکن میرے خلاف ایک تیسرے شخص کو استعمال کیا گیا جو ایک انتہا پسند اور لال مسجد کا رُکن ہے اور پھر ہمارے ادارے ایف اے ٹی ایف میں کہتے ہیں کہ وہ انتہا پسندوں سے تعلق توڑ چُکے ہیں۔

دلچسپ بات ہے کہ دو ماہ تک عدالتوں کے چکر لگانے کے بعد مُجھے آج تک وہ ٹویٹس نہیں دیے گئے جِن کی بُنیاد پر میرے خلاف ایف آئی آر کٹی اور مُجھے مُلزم پُکارا جاتا رہا۔ اور جِس نے میرے خلاف ایف آئی آر کٹوائی وہ اِس ریاست کا اتنا لاڈلہ تھا کہ ایک تاریخ پر عدالت نے اُسے طلب نہ کیا لیکن مُجھے ہفتہ میں دو دو دِن ضرور بُلایا۔

پیکا کے بعد حکومت نے پاکستان میں سوشل میڈیا رولز کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے جِس کے تحت تحقیقاتی ایجنسی شکایت کُنندہ کا نہیں بتائے گی کہ آپ کِس کی شکایت پر کٹہرے میں کھڑے ہیں یعنی کہ آپ کو مواد پہلے ہی نہیں دیا جاتا لیکن اب شکایت کُنندہ کا بھی نہیں پتہ چلے گا۔

سُپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر نے بالکل ٹھیک لِکھا تھا کہ بونے کبھی بڑا کام نہیں کرسکتے۔ ہمارے ہاں واقعی بڑے عُہدوں پر بونے بیٹھے ہیں اور اُن کے ایسے چھوٹے کاموں کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کررہا اور یہاں تخلیقی ذہن نہیں پیدا ہورہے جو ہمارے مُلک کو ترقی یافتہ مُمالک کا ہم رکاب بنا سکیں۔

میں ایک معمولی سا صحافی ہوں اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ذمہ داریاں ادا کرتا ہوں لیکن سوچیے جو چھوٹے شہروں اور گاوں میں بیٹھے لوگ ہیں اُن کے ساتھ ہماری ریاست کا رویہ کیسا ہوگا کیونکہ اُن کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی اتنے رابطے کہ وہ اپنے ساتھ ناانصافی کے خلاف لڑ سکیں۔ اور جو یہ سب کررہے ہیں وہ ریاست کا آئینی طور پر نہ تو ستون ہیں اور نہ ہی ادارہ بلکہ ایک وزارت کا ذیلی محکمہ ہیں لیکن انہوں نے پورے پاکستان اور پاکستانی ریاست کے تینوں ستونوں کو جکڑ کر اپنی بالادستی قائم کررکھی ہے۔

میرے کیس کو ججز بھی سُنتے ہوئے حد سے زیادہ مُحتاط تھے، میرے وُکلا کو ضمانتی نہیں ملتا تھا اور یہاں تک بحث ہوتی تھی کہ کیس کسی ایسے جج کے سامنے نہ لگ جائے جِس نے ابھی کنفرم ہونا ہو۔۔ کیونکہ ججز کنفرم بھی اُنہی لوگوں کی انٹیلی جنس رپورٹوں کی بُنیاد پر ہوتے ہیں جو دراصل میری ایف آئی آر کے پیچھے تھے تو جو جج ابھی کنفرم نہ ہوا ہو وہ اُن کو ناراض نہیں کرنا چاہے گا۔

پاکستان میں غیر جانبدارانہ صحافت کے لیے اسپیس اتنی تنگ کر دی گئی ہے کہ کامران خان جیسی قدم بوسی زدہ صحافت کرو تو ہر جگہ تک رسائی اور اگر سوال اُٹھاو تو مُجھ جیسا معمولی صحافی بھی ایف آئی آر کا سامنا کرتا ہے، عدالتوں کے چکر لگاتا ہے اور نوکری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور پھر لفافہ کے الزامات سہتا ہے، سوشل میڈیا پر گالیاں سُنتا ہے۔ لیکن چلتے چلتے میں سب کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میری پہلی اور آخری وابستگی صحافت، آئینِ پاکستان اور جمہوریت سے تھی اور رہے گی ، انشااللہ

About The Author