رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح اشتراکیت کا دیو ہیکل بُت گر پڑا، کیا جمہوریت کاپہاڑ جیسا نظام بھی ڈگمگا رہا ہے ؟آج دنیا کے رویّے دیکھتے ہوئے اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔کمیونزم کا تصور دنیا کے ذہین ترین دماغوں نے وضع کیا تھا۔اُس دور کے اعلیٰ ترین مفکر بیٹھے تھے جنہوں نے کہا کہ صاف نظر آرہا ہے، دنیا نا انصافی کے تلے کچلی جارہی ہے۔انسان جینے کے لئے مشقت اٹھا کر مرا جارہا ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ محنت ایک شخص کررہا ہے اور اس محنت کا پھل وہ لوگ کھا رہے ہیں جنہیں ایک تنکا توڑنے کی بھی توفیق نہیں۔ان عظیم دانش وروں نے کہا کہ ایک بچہ بھی دیکھ سکتا ہے کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں، کیوں نہ سب مل کر کمائیں اور آپس میں مل بانٹ کر کھائیں؟انہوں نے کہا کہ انسان شیطان صفت ہے، آسانی سے نہیں مانے گا۔ اس منزل کو پانے کے لئے محنت کرکے روزی کمانے والوں کو اٹھنا ہوگا اور دنیا کے نا انصافی کے اس نظام کے بُت کو اپنے ہاتھوں سے پاش پاش کرنا ہوگا۔
کیساشان دار تخیل تھا۔بات سیدھی سادی تھی۔ سمجھ میں آتی تھی۔ اتنی سی بات تھی کہ آؤ سب مل کر کمائیں اور آپس میں بانٹ کر کھائیں۔ دیکھنے میں اتنی معقول دلیل نے انسان کے ذہن میں گھر کر لیا اور عالی شان انقلاب کی چنگاریاں شعلوں کی شکل اختیار کرتی نظر آنے لگیں۔اس کے بعد تاریخ کی آنکھ نے، جو ہزار طرح کے منظر دیکھتی آرہی تھی ، وہ منظر دیکھا جسے صحیح معنوں میں انقلاب کہتے ہیں۔ انسان اٹھا اور اس نے صدیوں سے رائج نا ہمواری کے نظام کو اٹھا کر وقت کے کچرے دان میں پھینک دیا۔ایک نیا سویرا طلوع ہوا۔ ایسا سویرا جس کا خواب آنکھوںمیں مچل رہا تھا کہ حقیقت بن جائے اور انسان کے کاندھوں پر مسلّط استحصال کی لادی اتار پھینکی جائے۔انقلاب آیا اور نئی صبح نمودار ہوئی مگر پھر کیا ہوا۔ اس انقلاب کے موجد اس کا حشر دیکھنے سے پہلے چل بسے۔ اشتراکیت کی اونچی عمارت اپنے ہی بوجھ تلے دب کر نیچے آرہی۔ نئے زمانے کے مفکروں نے کہا کہ یہ کسی دیوانے کا خواب تھا۔ اشتراکیت کا سارا تصور ہی قدرت کے نظام کے خلاف ہے۔یہ انسانی فطرت اور مزاج پر پورا نہیں اترتا۔قدرت نے انسان کو اس طرح وضع ہی نہیں کیا ہے۔ اس کو تو ختم ہونا ہی تھا۔
لیجئے صاحب، اپنے وقت کے اعلیٰ ترین فلسفے دیوانے کی بڑ نکلے۔ اشتراکیت کا خواب چکنا چور ہوا۔اب کچھ ان سے بھی اعلیٰ دماغ اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک نئی فکر توانا ہونے لگی۔ انسان کو آزادی کی ضرورت ہے، اسے حق ہونا چاہئے کہ جو اس کے مزاج میں آئے وہ وہی کرے۔ سب مل کر جئیں اور دوسروں کو جینے دیں۔یہ تھیں وہ جمہوری قدریں اور روایات جن کو اس دور کے انسان نے گلے سے لگایا۔جمہوریت پھلی پھولی، پروان چڑھی اور مستحکم بنیادوں پر سر بلند ہونے لگی۔
اُن کافلسفہ سہل تھا۔ کسی بھی معاشرے میں اصل طاقت عوام ہوتے ہیں، طاقت کا سر چشمہ اور اپنی تقدیر کے مالک وہ افراد ہوتے ہیں جن کے ملنے سے دنیا کا نظام چلتا ہے۔ بس تو طے پایا کہ جو عوام چاہیں ، وہ ہوگا۔اپنا نظام انسان خود قائم کرے گا اور حسبِ دل خواہ یعنی جیسے جی چاہے گا، چلائے گا۔نئے پرانے ، جدید اور قدیم معاشروں سے آواز اٹھنے لگی کہ جمہوریت ہی ماضی کی زیادتیوں کا بہترین انتقام ہے۔مگرایک بار پھر کہیں سے کچھ ٹوٹنے اور چٹخنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ جمہوریت کی فصیل میں شگاف کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ پھر کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ انسانی فطرت سے میل نہیں کھاتی۔جن انتخابات کے عمل پر اس کی تعمیر ہوئی ہے اور جس چناؤ کی کارروائی پر اس کی عمارت کھڑی ہے اسے آج کا بد دیانت اور بد خواہ انسان اپنی چال بازیوں سے توڑ مروڑ سکتا ہے۔یہ نظام اُس کی مرضی کا تابع ہے جو طاقتور ہے یا اقتدار کی لگام جس کے ہاتھوں میں ہے۔ ابھی ووٹوں کی گنتی جاری ہے کہ وہی جانا پہچانا نعرہ اپنا حلیہ بدل کر سنائی دینے لگا ہے کہ میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا۔
کیسا وقت آن لگا ہے کہ لوگ انتخابات سے پہلے ہی کہنے لگے ہیںکہ اگر ہم نہ جیتے تو نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ کچھ بھی ہو،جیتیں گے ہم ہی۔ اگر کوئی دوسرا کامیاب قرار دیا گیا تو ہم اسے مسترد کردیں گے۔کسی نے کیا اچھی بات کہی ہے کہ انتخاب جیتنا مشکل کام ہے اور انتخابات ہارنا اس سے بھی مشکل کام ہے۔ تو کیا اشتراکیت کی طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چناؤ اور الیکشن کا عمل انسانی فطرت سے میل نہیں کھاتا۔ وہ نظام ہی ناقص ہے جس میں شکست بھی ہوتی ہے۔ ہم اُسی چناؤ کو مانگیں گے جس میں ہمارے جلسوں میں شریک ہونے والے لاکھوں لوگوں نے ہمارے حق میں نعرے لگائے تھے۔ بس، یہ ہمارا آخری فیصلہ ہے۔
دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت امریکہ اور بھارت میں ہے۔ بھارت کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ جذباتی نعروں سے پورے جمہوری عمل کو ہائی جیک کیا جا سکتا ہے۔ڈیڑھ ارب کے قریب عوام کو بھانت بھانت کے نعرے لگا کر پوری کارروائی کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔اب رہ گیا امریکہ سو اس کے مہذب ہونے کی بڑی شہرت تھی۔ اس کو ہی مثال بنا کر کہا جاتا تھا کہ جمہوریت کا سارا تعلق علم سے ہے، معاشرہ جاہل ہوگا تو ووٹ کو عزت دینا محال ہو جائے گا۔ چنانچہ امریکہ جیسے پڑھے لکھے ، اعلیٰ تہذیب یافتہ معاشرے میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ انتخابات کے نتیجوں کو رد کیا جارہا ہے اور بعض اوقات الیکشن عدالتوں میں جیتا جارہا ہے۔دنیا دیکھ رہی ہے کہ ایک آزمودہ اور تجربہ کار سیاست دان صدارت کے منصب پر اور تامل ناڈوکے کسی گاؤں سے نمودار ہونے والی خاتون نائب صدر کے عہدے پر کامیاب ہو چکے ہیں لیکن شکست کھا جانے والا دوسرا امیدوار اپنی بات پر اڑا ہوا ہے کہ وہی جیتا ہے اوروہ اپنی شکست تسلیم نہیں کرے گا۔ایسے میں بس ایک ہی لفظ ہے جو نیل کے ساحل کی دونوں جانب گونج رہا ہے۔ دھاندلی ، دھاندلی اور دھاندلی۔اب خیر منائیے جمہوریت کی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ