نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنگین ترین معاملات کی بابت بھی ہمارا اجتماعی رویہ ’’مٹی پائو‘‘ والا ہے۔ کبوتر سے منسوب بلی کو دیکھ کر آنکھ بند کرکے خود کو محفوظ تصور کرنے والی جبلت۔ شتر مرغ کی طرح خطرات کو نظرانداز کرنے کے لئے ریت میں سر چھپانا۔ یوں کرتے ہوئے ہم پنجابی محاورے میں بتائی اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ ہاتھوں سے لگائی گرہوں کو بالآخر دانتوں سے کھولنے والی مشقت اٹھانا پڑتی ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز میں ’’مسلم اُمہ کی واحد ایٹمی قوت‘‘ کا دارالحکومت راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر دئیے احتجاجی دھرنے کی بدولت پورے دو روزمحاصرے کی حالت میں رہا۔ دورِحاضر میں بنیادی ضرورت ہوئے موبائل فونز بند رہے۔ ہنگامی حالات میں کئی مریض بروقت ہسپتال نہ پہنچ پائے۔روزمرہّ زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔
بارہا دیانت داری سے اصرار کرتا رہا ہوں کہ جو احتجاج ہوا اس کی وجوہات کو گنہگار ترین مسلمان بھی ’’نامناسب‘‘ قرار دے نہیں سکتا۔ عالمی دُنیا اور خاص کر یورپ کو مؤثر پیغام دینے کے لئے بلکہ ضروری تھا کہ مذکورہ احتجاج سے قبل اس کا اہتمام کرنے والوں سے سنجیدہ اور پُرخلوص رابطے ہوتے۔ ان رابطوں کی بدولت یقینی طورپر ایسے SOPsتلاش کئے جاسکتے تھے جوپاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو منظم انداز میں اپنے جذبات دنیا کے روبرو لانے کا موقعہ فراہم کرتے۔ حکومت نے انتہائی رعونت سے مگر ’’ریاستی رٹ‘‘ کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا۔ ٹی وی سکرینوں پر مذکورہ احتجاج کے سرسری ذکر کی اجازت بھی میسر نہ ہوئی۔ موبائل فونز بند کرکے انتظامیہ مطمئن ہوگئی۔ احتجاجی ہجوم کو ’’تشہیر‘‘ کی سہولت سے محروم کرنے کے بعد لاٹھیوں اور آنسو گیس کے ضرورت سے زیادہ استعمال کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش ہوئی۔ تمام حربے ناکام ہوجانے کے بعد مظاہرین سے مذاکرات کا فیصلہ ہوا۔ بالآخر ایک اور ’’تحریری معاہدے‘‘کے ذریعے امن وامان بحال کردیا گیا۔
حالات معمول پر آجانے کے بعد حکومتی ترجمان بی بی سی وغیرہ کو اب یہ بتارہے ہیں کہ مبینہ ’’تحریری معاہدہ‘‘ قابل عمل نہیں۔ ’’رات گئی بات گئی‘‘ہوچکا ہے۔ جو دعویٰ ہورہا ہے وہ ہرحوالے سے خود فریبی ہے۔ اس پر اصرار بلکہ حالیہ دھرنا دینے والوں کو یہ جواز فراہم کرے گا کہ وہ دو سے تین ماہ گزرجانے کے بعد ایک بار پھر اپنے ساتھ ہوئے ’’معاہدے‘‘ پر عملد درآمد‘‘ کو یقینی بنانے کے لئے اسلام آباد کا رُخ کریں۔
نظر بظاہر ’’تحریری معاہدے‘‘ کے ذریعے یہ ’’وعدہ‘‘ ہوا ہے کہ پاکستان کی منتخب پارلیمان کو On Boardلے کر فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات کو کوئی ایسی صورت دی جائے گی جو ایک نہایت جذباتی معاملے پر ہمارے احتجاج کا بھرپور اظہار ہو۔مبینہ وعدہ کرتے ہوئے عمران حکومت کے نمائندوں نے کمال مکاری سے فرانس کے ساتھ ریاست پاکستان کے تعلقات کو نئی صورت دینے کی تمامتر ذمہ داری ’’سب پر بالادست‘‘ ہونے کی دعویدار پارلیمان کے سرڈال دی ہے۔ فرانس کے ساتھ اب ہمارے تعلقات موجودہ سطح پر ہی برقرار رہیں گے تو حکومت نہیںپارلیمان کو اس کا ذمہ دار تصور کیا جائے گا۔حکومت خود کو اس ضمن میں ’’بے بس‘‘ ہونے کا ڈھونگ رچائے گی۔ آئندہ احتجاج کا غیض وغضب لہٰذا قومی اسمبلی اور سینٹ میں بیٹھے ہر رکن کا مقدر ہوگا۔افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ ان دوایوانوں میں بھاری بھر کم تعداد میں موجود اپوزیشن نے مذکورہ چالاکی کا نوٹس ہی نہیں لیا۔دل ہی دل میں شاید وہ بھی ’’رات گئی بات گئی‘‘ والے گماں میں مبتلا ہوکر شترمرغ کی طرح ممکنہ خطرے کو بھانپنے کی جرأت نہیں دکھارہے۔
تلخ ترین حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ جنرل مشرف نے اکتوبر 1999میں اقتدار پر قبضے کے تین سال گزرجانے کے بعد 2002 کے انتخاب کے ذریعے جو پارلیمان تشکیل دی وہ محض ہمارے سیاسی حقائق کو ’’جمہوری شوشا‘‘ کے ذریعے چھپانے کا باعث ہوئی ۔2008کے انتخاب کے بعد مگر بڑھک لگائی گئی کہ ہم ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کی جانب لوٹ آئے ہیں۔اٹھارویں ترمیم کا اس کی بدولت بہت چرچا ہوا۔ ’’منتخب پارلیمان‘‘ کی اصل اوقات مگر مئی 2011میں بے نقاب ہوگئی۔ اسامہ بن لادن کے خلاف ہوئے آپریشن کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا ’’اِن کیمرہ‘‘ مشترکہ اجلاس ہوا۔اس کے اختتام پر ایک ’’متفقہ ‘‘قرار داد منظور ہوئی۔ اس کے ذریعے جاوید اقبال صاحب کی سربراہی میں ایک کمیشن کا اعلان ہوا۔ مذکورہ کمیشن سے تقاضہ ہوا کہ وہ اسامہ آپریشن سے جڑے تمام حقائق عوام کے روبرو لائے۔ سات سال قبل جاوید اقبال کی سربراہی میں بنائے کمیشن نے اپنی رپورٹ مکمل کرکے ان دنوں کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف صاحب کو بھجوادی تھی۔ وہ رپورٹ مگر ابھی تک منظرِ عام پر نہیں آئی ہے۔اپنے تئیں ہم نے ’’اسامہ آپریشن‘‘ کو گویا ’’رات گئی بات گئی‘‘ بنادیا۔ دُنیا مگر اسے بھولی نہیں ہے۔
امریکہ کے دس سے زیادہ بہت ہی ’’باخبر‘‘ تصورہوتے صحافیوں نے اب تک مذکورہ آپریشن کی بابت ٹھوس معلومات سے بھرپور کتابیں لکھی ہیں۔ سی آئی اے نے اپنا ورژن پھیلانے کے لئے ایک فلم بھی تیار کروائی۔ ہم مگر ’’میموگیٹ‘‘ میں اُلجھ گئے۔ سابق امریکی صدر اوبامہ نے رواں ہفتے منظرعام پر آئی اپنی تازہ ترین کتاب کے ذریعے اسامہ آپریشن کے بارے میں نئے سوالات اٹھادئیے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دعویٰ ہورہا ہے کہ ہمارے سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے ترجمان کے ذریعے اوبامہ کی بیان کردہ کہانی کو ’’یک طرفہ‘‘ ٹھہرایا ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن کے چند ہی روز بعد میری آصف علی زرداری سے ایوانِ صدر میں ایک تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ بطور صدر موصوف ’’خبر‘‘ کو ہر صورت چھپانے کے عادی ہوگئے تھے۔ میں رپورٹر والی ڈھٹائی سے مگر ان سے کچھ نہ کچھ اگلوا لیتا۔ ان سے ہوئی گفتگو کی بدولت یہ تسلیم کرنے کو مجبور ہوں کہ اوبامہ نے کئی اعتبارسے ’’یک طرفہ‘‘ کہانی بیان کی ہے۔ مجھ دو ٹکے کے صحافی کی گواہی مگر کسی وقعت کی حامل نہیں۔
ریاستِ پاکستان اگر واقعتا اوبامہ کی بیان کردہ کہانی کو جھٹلانا چارہی ہے تو اسے ایبٹ آباد آپریشن کے بعد امریکی صدر کی ہمارے صدر اور ان دنوں کے آرمی چیف کے مابین ہوئی گفتگو کی تفصیلات دُنیا کے روبرو رکھ دینا چاہیے۔ایسا مگر ہوگا نہیں۔اوبامہ کے دعویٰ کو بھی ہم ’’رات گئی بات گئی‘‘ ہی شمار کرتے رہیں گے۔
ہماری پارلیمان کے ’’سب پر بالادست‘‘ ہونے کی طلب گار اپوزیشن جماعتوں نے میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کو تو اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں تفصیلی تقاریر کے ذریعے بتاتے کہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے کس نوعیت کے ’’نئے قوانین‘‘ متعارف ہوئے ہیں۔ ان قوانین کے لاگو ہوجانے کے بعد ہمارے ہاں صدیوں سے جاری کونسے رویے ناقابل برداشت ہی نہیں بلکہ ’سنگین جرائم‘‘ شمار ہونا شروع ہوجائیں گے۔’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے اس ضمن میں تیار ہوئے قوانین پر تاہم سرعت سے انگوٹھے لگادئیے۔ ’’بغاوت‘‘ دکھانے کو فقط اس وقت مجبور ہوئے جب عمران حکومت کے ترجمانوں کی فوج ظفرِ موج نے کہانی یہ پھیلانا شروع کی کہ FATFنے آصف علی زرداری کے ’’جعلی اکائونٹس‘‘ اور شریف خاندان کو ملی “TTs”کی وجہ سے پاکستان کو اپنی گرے لسٹ میں ڈالا تھا۔ عمران حکومت نے مگر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے سینیٹ سے ’’مسترد‘‘ہوئے قوانین کو بآسانی منظور کرواتے ہوئے ان کی ’’بغاوت‘‘ کو بے اثربنادیا۔
پارلیمان کی بالادستی کے گماں سے آزاد ہوکر ٹھوس حقائق پر نگاہ ڈالیں تو ایمان داری سے اعتراف کرنا ہوگا کہ ہماری قومی اسمبلی اورسینیٹ ’’غریب کی جورو‘‘بن چکے ہیں۔یہ ہماری ریاست کی ’’بھابھی‘‘ نہیں بلکہ ’’باندی‘‘ ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ