اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلگت بلتستان الیکشن مہم کے دوران دو بڑی اپوزیشن جماعتوں نے پہلی بار وہاں جس نوع کا جارحانہ سیاسی بیانیہ متعارف کرایا،اس نے کنج عافیت میں پڑے اِس خوبصورت خطے کو بھی ہماری روایتی سیاسی جدلیات سے جوڑ دیا،خاص طور پہ مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے جی بی کی سیاست میں مزاحمت کے جس تاثر کو پختہ کیا اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا تھا جو انتخابی نتائج کے بعد اب رفتہ رفتہ ابھر کے سامنے آ رہا ہے۔ عوام الناس کے دل و دماغ میں پنپنے والی یہی بے چینی وہاں کے منجمد معاشرے کو اب بہت جلد ذہنی انتشار اور سیاسی پراگندگی کی لہروں میں ڈھال لے گی۔بلاشبہ انتخابات بجائے خود ایک ایسا پُرخطر عمل ہے جو سماج کے فکر و خیال میں پائے جانے والے قدرتی نظم و ضبط کو تہ و بالا کر کے اسے نامطلوب سیاسی کشمکش کے حوالے کر دیتا ہے اور ذہنی اضطراب کی یہی کیفیت پھر انہیں بچوں جیسے بھروسے کے ساتھ خود کو سیاسی لیڈر شپ کے حوالے کرنے پہ تیارکر لیتی ہے، جس کے بعد سیاسی جماعتیں نہایت آسانی کے ساتھ انہیں سیاسی جدلیات کا ایندھن بنا سکتی ہیں۔نواز لیگ تو گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنا کے مملکت میں ضم کرنے کی حکومتی پالیسی کی حمایت نہیںکرتی؛ تاہم پیپلزپارٹی سمیت کئی دیگر جماعتیں جی بی کو صوبہ بنانے میں ریاستی پالیسیوں کی مشروط معاونت پر تیار نظر آتی تھیں لیکن اسی انتخابی مبارزت نے سیاسی مفاہمت کے کھلے دروازے بند کر دیے ہیں۔مسلم لیگ نواز کو یہ علم تھا کہ انہیں جی بی کے انتخابات میں کامیابی نہیں مل سکے گی لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انہوں نے انتخابی عمل کواپنی اینٹی گورنمنٹ تحریک کا ٹول بنانے کی خاطر جارحانہ انداز میں الیکشن مہم چلا کے وہاں عوامی سوچ کے دھاروں میں اضطراب پیداکرنے کے علاوہ پیپلزپارٹی کی مقتدرہ کے ساتھ ذہنی وابستگی کو بھی متزلزل کر دیا؛ چنانچہ اسی پیش دستی کی بدولت اب گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج پی ڈی ایم کی تحریک کو زیادہ فعال بنانے کا وسیلہ بنیں گے۔
راز ہائے نہاں خانہ سے آگاہ حلقوں کا کہنا ہے کہ جی بی میں پیپلزپارٹی کو ہموار جمہوری عمل کے ذریعے حکومت بنانے کی امید دلائی گئی تھی اس لئے بلاول بھٹو زراداری نے مولانا فضل الرحمن کا ہاتھ جھٹک کے گلگت بلتستان کے انتخابی میدان میں اترنے کی راہ لی تھی؛ تاہم اب جب نتائج ان کی توقعات کے برعکس نکلے تو بلاول بھٹو کے لب و لہجہ میں بھی وہی تلخی نظر آئی جو مریم نواز کی پیکار اور مولانا فضل الرحمن کے مزاج پہ چھائی دکھائی دیتی ہے۔اب بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ اِن پُرجوش انتخابی مہمات کی بدولت جُوں جُوں لوگوں کے سیاسی شعور کی سطح بلند ہوتی جائے گی تُوں تُوں یہاں نظریاتی پیچیدگیاں بھی بڑھتی جائیں گی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے ذریعے امورِحکومت چلانا دشوار ہوتا جائے گا،اب یا تو جمہوری سیاست کی بساط لپیٹ کے کوئی استبدادی حکومت متعارف کرانا پڑے گی یا پھر تقسیم اختیارات کے آئینی فارمولے کے مطابق پُرامن انتقالِ اقتدار کے لئے شفاف انتخابی عمل کی روایات کی آبیاری ناگزیر ہو گی۔ ہماری اشرافیہ نے ہمیشہ مخصوص سوچ کی حامل سیاسی قوتوں کو خود سے وابستہ رکھ کے میدانِ سیاست میں مساوی مواقع کے احساس کو کم کیا،اس لئے اب ہماری قومی سیاست میں کارفرما طبقات پوری شدت کے ساتھ صف آرا ہونے کو ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی ریاست کی تشکیل ایسا تاریخی عمل ہے جس کو اپنی تکمیل کے پیچیدہ مراحل سے گزرنے کی خاطر کافی وقت درکار ہوتا ہے،یہاں اس امر پہ بحث کی گنجائش نہیں کہ پاکستان یا پھر تیسری دنیا کی تمام مملکتیں ریاست سازی کے عمل میں لازماً کشمکش کی اسی آزمائش سے گزریں گی جس سے یورپی اقوام گزریںلیکن اس حقیقت سے اغماض ممکن نہیں کہ ہمیں 1947ء میں مملکت کے قیام کے ساتھ ہی ان پیچیدہ امور اور سیاسی رکاوٹوں کو نمایاں کرنے کی ضرورت تھی‘ جنہیں آج کی اشرافیہ قومی انضمام کی راہ میں حائل رکھنا چاہتی ہے۔ شاید ماضی میں جمود پرور قوتوں نے جغرافیائی دباؤ کی وجہ سے خود کو علاقائی اور بین الاقوامی ماحول سے ہم آہنگ رکھنے کی خاطر داخلی نظام کی تشکیل سے صرفِ نظر کر لیا تھا لیکن ذہن انسانی کی طرح قومی شناخت کا ارتقائی عمل بھی فطرت کے متعین کردہ مراحل سے گزرے بغیر کوئی متوازن صورت پا سکتا ہے نہ اسے مصنوعی طور پر تھوپا جاسکتا ہے۔ بہرحال! عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خوش قسمت واقع ہوئے ہیں لیکن بہترین مشیر بھی خوش قسمتی سے کم اہم نہیں ہوتے کیونکہ اچھے مشورہ کے بغیر انسان وہ سب کچھ گنوا دیتا ہے جو اچھی قسمت کے ذریعے اسے حاصل ہوتا ہے۔اگر تحریک انصاف گلگت بلتستان کا الیکشن جیتنے کے بجائے پیپلزپارٹی کو واک اوور دیتی تو پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے اندر پائے جانے والے پالیسی اختلافات کی دراڑیں مزید گہری ہو جاتیں اورگلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے آئینی عمل میں پیپلزپارٹی کی معاونت اپوزیشن کی تحریک کی رہی سہی فعالیت کو بھی کند بنا سکتی تھی لیکن اب انتخابی شکست نے بلاول بھٹو زرداری کو جنونِ استرداد کی جس کیفیت سے دوچار کیا‘اس سے تو نوازلیگ کے بیانیے کو تقویت ملے گی۔
جی بی کے انتخابی معرکے نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی مشکلیں بھی آسان بنا دیں، پچھلے ڈھائی سالوں میں اپنی سیاسی مہارت کو بروکار لا کر دونوں بڑی جماعتوں کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پہ اکٹھا کرنے میں انہوں نے کامیابی ضرور پائی لیکن لیگی قیادت کے بارے میں وہ زرداری صاحب کے دل و دماغ پہ چھائی بداعتمادی کو دور کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے؛چنانچہ پیپلزپارٹی کی کہنہ مشق قیادت احتجاجی تحریکوں میں سرکھپانے کے بجائے پس پردہ لین دین میں زیادہ سہولت محسوس کرتی تھی۔پیپلزپارٹی کا یہی رویہ پی ڈی ایم کی تحریک کے پائوں کی زنجیر اور حکومت کے لئے امکان کا کھلا دروازہ تھالیکن جی بی کی انتخابی عمل کے دوران غلط تخمینوں نے نوجوان بلاول کو عمیق مایوسی سے دوچار کر کے ٹکرائو کی اس کیفیت تک پہنچا دیا،جس سے وہ ہمیشہ کنی کتراتے نظر آئے۔
گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج کے بعد سابق صدرآصف علی زرداری نے خود مولانا فضل الرحمن کو ٹیلی فون کر کے حکومت مخالف تحریک میں تیزی لانے کی خواہش ظاہر کی‘ شاید اسی لئے پی ڈی ایم کے صدر نے نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں لاہور کے جلسے کے بعد پورے ملک سے عوامی قوت کو اسلام آباد کی جانب گامزن کرنے اور استعفوں کا آپشن استعمال کرنے کا عندیہ دیا ۔ ستر سال سے جاری ناگوار کشمکش ہی ہمارا اصل مسئلہ تھا،جو ہمارے قومی وجود کو کسی نہ کسی طور تڑپاتی رہی۔بلاشبہ پاکستان اور تیسری دنیا میں کہیں بھی غالب طبقوں نے ریاست کی تشکیل اور قومی اتحاد کو فروغ دینے کیلئے مرکزیت کے مغربی تصورات کو قبول نہیں کیا۔اس لئے یہاں قومی وحدت کے بنیادی نقطہ پہ ریاستوں کا صحت مند ارتقا افزائش نہیں پا سکالیکن یہ بھی درست ہے کہ تمام ترقی پذیر ممالک کیلئے قومی ریاست کا یکساں ماڈل یا یورپی طرز پہ قوموں کی شکل کو وضع کرنا خطرناک ہو گا ۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوم مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
یہ بھی ایک تاریخی حادثہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کو نسلی،مذہبی اور لسانی گروہوں کا ایک ایسا میوزک بھی وراثت میں ملا جو ہمیں ماضی پہ فخر کرنا تو سکھاتا ہے لیکن حال کے تقاضوں اور مستقبل کے وسیع افق کو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ شناخت کا پختہ احساس اور بھرپور ثقافتی روایات نہایت مضبوط سہی لیکن یہ ہماری زندگی نہیں بلکہ نقشِ زندگی ہیں۔ مغربی نوآبادیات سے قبل صدیوں تک کچھ قبائلی گروہوں کا ایک نیم خودمختار وجود یہاں قائم تھا اگرچہ وہ بجائے خود حکومت تو نہیں تھا لیکن ان کی قبائلی اور گروہی شناخت کا محور ضرور بنا رہا لیکن اب یہی رجحان مرکزی ریاست کے ذریعے ایک مشترکہ قومی تشخص کی تعمیر میں بنیادی رکاوٹ بنا؛ چنانچہ اقتدار کی جائزیت یا پھر قانونی جواز کے بغیر معاشرے کے ان اہم شعبوں کو ریگولیٹ کرنا مزاحمت کو ہوا دے گا۔
راز ہائے نہاں خانہ سے آگاہ حلقوں کا کہنا ہے کہ جی بی میں پیپلزپارٹی کو ہموار جمہوری عمل کے ذریعے حکومت بنانے کی امید دلائی گئی تھی اس لئے بلاول بھٹو زراداری نے مولانا فضل الرحمن کا ہاتھ جھٹک کے گلگت بلتستان کے انتخابی میدان میں اترنے کی راہ لی تھی؛ تاہم اب جب نتائج ان کی توقعات کے برعکس نکلے تو بلاول بھٹو کے لب و لہجہ میں بھی وہی تلخی نظر آئی جو مریم نواز کی پیکار اور مولانا فضل الرحمن کے مزاج پہ چھائی دکھائی دیتی ہے۔اب بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ اِن پُرجوش انتخابی مہمات کی بدولت جُوں جُوں لوگوں کے سیاسی شعور کی سطح بلند ہوتی جائے گی تُوں تُوں یہاں نظریاتی پیچیدگیاں بھی بڑھتی جائیں گی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے ذریعے امورِحکومت چلانا دشوار ہوتا جائے گا،اب یا تو جمہوری سیاست کی بساط لپیٹ کے کوئی استبدادی حکومت متعارف کرانا پڑے گی یا پھر تقسیم اختیارات کے آئینی فارمولے کے مطابق پُرامن انتقالِ اقتدار کے لئے شفاف انتخابی عمل کی روایات کی آبیاری ناگزیر ہو گی۔ ہماری اشرافیہ نے ہمیشہ مخصوص سوچ کی حامل سیاسی قوتوں کو خود سے وابستہ رکھ کے میدانِ سیاست میں مساوی مواقع کے احساس کو کم کیا،اس لئے اب ہماری قومی سیاست میں کارفرما طبقات پوری شدت کے ساتھ صف آرا ہونے کو ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی ریاست کی تشکیل ایسا تاریخی عمل ہے جس کو اپنی تکمیل کے پیچیدہ مراحل سے گزرنے کی خاطر کافی وقت درکار ہوتا ہے،یہاں اس امر پہ بحث کی گنجائش نہیں کہ پاکستان یا پھر تیسری دنیا کی تمام مملکتیں ریاست سازی کے عمل میں لازماً کشمکش کی اسی آزمائش سے گزریں گی جس سے یورپی اقوام گزریںلیکن اس حقیقت سے اغماض ممکن نہیں کہ ہمیں 1947ء میں مملکت کے قیام کے ساتھ ہی ان پیچیدہ امور اور سیاسی رکاوٹوں کو نمایاں کرنے کی ضرورت تھی‘ جنہیں آج کی اشرافیہ قومی انضمام کی راہ میں حائل رکھنا چاہتی ہے۔ شاید ماضی میں جمود پرور قوتوں نے جغرافیائی دباؤ کی وجہ سے خود کو علاقائی اور بین الاقوامی ماحول سے ہم آہنگ رکھنے کی خاطر داخلی نظام کی تشکیل سے صرفِ نظر کر لیا تھا لیکن ذہن انسانی کی طرح قومی شناخت کا ارتقائی عمل بھی فطرت کے متعین کردہ مراحل سے گزرے بغیر کوئی متوازن صورت پا سکتا ہے نہ اسے مصنوعی طور پر تھوپا جاسکتا ہے۔ بہرحال! عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خوش قسمت واقع ہوئے ہیں لیکن بہترین مشیر بھی خوش قسمتی سے کم اہم نہیں ہوتے کیونکہ اچھے مشورہ کے بغیر انسان وہ سب کچھ گنوا دیتا ہے جو اچھی قسمت کے ذریعے اسے حاصل ہوتا ہے۔اگر تحریک انصاف گلگت بلتستان کا الیکشن جیتنے کے بجائے پیپلزپارٹی کو واک اوور دیتی تو پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے اندر پائے جانے والے پالیسی اختلافات کی دراڑیں مزید گہری ہو جاتیں اورگلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے آئینی عمل میں پیپلزپارٹی کی معاونت اپوزیشن کی تحریک کی رہی سہی فعالیت کو بھی کند بنا سکتی تھی لیکن اب انتخابی شکست نے بلاول بھٹو زرداری کو جنونِ استرداد کی جس کیفیت سے دوچار کیا‘اس سے تو نوازلیگ کے بیانیے کو تقویت ملے گی۔
جی بی کے انتخابی معرکے نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی مشکلیں بھی آسان بنا دیں، پچھلے ڈھائی سالوں میں اپنی سیاسی مہارت کو بروکار لا کر دونوں بڑی جماعتوں کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پہ اکٹھا کرنے میں انہوں نے کامیابی ضرور پائی لیکن لیگی قیادت کے بارے میں وہ زرداری صاحب کے دل و دماغ پہ چھائی بداعتمادی کو دور کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے؛چنانچہ پیپلزپارٹی کی کہنہ مشق قیادت احتجاجی تحریکوں میں سرکھپانے کے بجائے پس پردہ لین دین میں زیادہ سہولت محسوس کرتی تھی۔پیپلزپارٹی کا یہی رویہ پی ڈی ایم کی تحریک کے پائوں کی زنجیر اور حکومت کے لئے امکان کا کھلا دروازہ تھالیکن جی بی کی انتخابی عمل کے دوران غلط تخمینوں نے نوجوان بلاول کو عمیق مایوسی سے دوچار کر کے ٹکرائو کی اس کیفیت تک پہنچا دیا،جس سے وہ ہمیشہ کنی کتراتے نظر آئے۔
گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج کے بعد سابق صدرآصف علی زرداری نے خود مولانا فضل الرحمن کو ٹیلی فون کر کے حکومت مخالف تحریک میں تیزی لانے کی خواہش ظاہر کی‘ شاید اسی لئے پی ڈی ایم کے صدر نے نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں لاہور کے جلسے کے بعد پورے ملک سے عوامی قوت کو اسلام آباد کی جانب گامزن کرنے اور استعفوں کا آپشن استعمال کرنے کا عندیہ دیا ۔ ستر سال سے جاری ناگوار کشمکش ہی ہمارا اصل مسئلہ تھا،جو ہمارے قومی وجود کو کسی نہ کسی طور تڑپاتی رہی۔بلاشبہ پاکستان اور تیسری دنیا میں کہیں بھی غالب طبقوں نے ریاست کی تشکیل اور قومی اتحاد کو فروغ دینے کیلئے مرکزیت کے مغربی تصورات کو قبول نہیں کیا۔اس لئے یہاں قومی وحدت کے بنیادی نقطہ پہ ریاستوں کا صحت مند ارتقا افزائش نہیں پا سکالیکن یہ بھی درست ہے کہ تمام ترقی پذیر ممالک کیلئے قومی ریاست کا یکساں ماڈل یا یورپی طرز پہ قوموں کی شکل کو وضع کرنا خطرناک ہو گا ۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوم مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
یہ بھی ایک تاریخی حادثہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کو نسلی،مذہبی اور لسانی گروہوں کا ایک ایسا میوزک بھی وراثت میں ملا جو ہمیں ماضی پہ فخر کرنا تو سکھاتا ہے لیکن حال کے تقاضوں اور مستقبل کے وسیع افق کو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ شناخت کا پختہ احساس اور بھرپور ثقافتی روایات نہایت مضبوط سہی لیکن یہ ہماری زندگی نہیں بلکہ نقشِ زندگی ہیں۔ مغربی نوآبادیات سے قبل صدیوں تک کچھ قبائلی گروہوں کا ایک نیم خودمختار وجود یہاں قائم تھا اگرچہ وہ بجائے خود حکومت تو نہیں تھا لیکن ان کی قبائلی اور گروہی شناخت کا محور ضرور بنا رہا لیکن اب یہی رجحان مرکزی ریاست کے ذریعے ایک مشترکہ قومی تشخص کی تعمیر میں بنیادی رکاوٹ بنا؛ چنانچہ اقتدار کی جائزیت یا پھر قانونی جواز کے بغیر معاشرے کے ان اہم شعبوں کو ریگولیٹ کرنا مزاحمت کو ہوا دے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ