موناخان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں دن بدن کرونا (کورونا) وائرس کی کیسز کی تعداد اور ٹیسٹس کے مثبت آنے کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کئی ماہ کے وقفے کے بعد روانہ کے نئے کیسز کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے پاکستان میں وبا کی دوسری لہر جاری ہے اور اس میں پہلی لہر کے مقابلے میں وائرس کا انفیکشن ریٹ اور بھی زیادہ ہے۔ ایک معروف پلمونالوجسٹ کا ایک بیان بھی میڈیا میں گردش کرتا رہا کہ وائرس میوٹیٹ ہوگیا ہے جبکہ گذشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے بھی کہہ ڈالا کہ ملک میں وائرس نے اپنی شکل تبدیل کر لی ہے۔
لیکن کیا واقعی پاکستان میں وائرس کی ساخت میں تبدیلی یا میوٹیشن آئی ہے؟ اس پر بات کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان سے رابطہ کیا، جن کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی طبی ثبوت موجود نہیں کہ پاکستان میں کرونا وائرس میں کوئی بڑی تبدیلی آئی ہو۔
انہوں نے مزید کہا: ’یہ کہنا کہ وائرس پہلے دن جیسا ہے یہ بھی غلط ہے کیونکہ وائرس کا تبدیل نہ ہونا حیران کن بات ہو گی، تبدیلی ایک نارمل عمل ہے۔‘
ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق پاکستان میں مختلف لیبارٹریوں میں روزانہ وائرس کی ساخت کی جانچ جاری ہے، وہ تھوڑا بہت میوٹیٹ تو ہوتا ہے، اور میوٹیشن سے کبھی وائرس زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے تو کبھی بے ضرر، اور کبھی پھیلاؤ زیادہ ہو جاتا ہے جس میں موسم بھی کردار ادا کرتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’لیکن یہ بات سو فیصد ہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس میں کوئی بڑی خطرناک تبدیلی ابھی تک ثابت نہیں ہوئی۔‘
جب ان سے وزیر اعظم کے بیان کے بارے میں پوچھا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وائرس نے شکل تبدیل کر لی ہے اور تیزی سے پھیل رہا ہے، تو ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم سائنسی ریسرچ پڑھتے رہتے ہیں اور انہوں نے اس تناظر میں بات کی ہو گی تاکہ لوگ اختیاط سے کام لیں۔
یاد رہے کہ معروف پلمونالوجسٹ ڈاکٹر شازلی منظور نے دعویٰ کیا ہے کہ کرونا وائرس میں میوٹیشن ہوئی ہے اور یہ نئی شکل ٹیسٹ میں بھی ظاہر نہیں ہوتی جو کہ زیادہ خطرناک بات ہے اور یہ جسم میں زیادہ دیر قیام پذیر رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا یہ پہلی لہر کی نسبت زیادہ خطرناک ہے جو پاکستان میں اموات کا باعث بنے گا۔
اس حوالے سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شازلی منظور ایک سینیئر ڈاکٹر ہیں اور انہوں نے یہ بات اپنے مشاہدے سے کہی ہو گی۔
ڈاکٹر شازلی منظور سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کہا اور وضاحت کی کہ ان کا بیان ان کے ذاتی مشاہدے اور تجربے پر مبنی ہے۔
وائرس میں تبدلی کا پتہ لگانے کی ٹیکنالوجی اور پاکستان
قومی ادارہ صحت کے ڈاکٹر سلمان نے بھی کرونا وائرس کی ہیت میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کے دعوے کو یکسر مسترد کر دیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وائرس کی ساخت میں تبدیلی یا میوٹیشن کا پتہ لگانے کے لیے درکار جنیٹک سیکوینسنگ ٹیکنالوجی کیا پاکستان میں موجود ہے تو ان کا کہنا تھا کہ جب وبائی مرض سے گزر رہے ہوتے ہیں تو بڑے پیمانے پر سیکوینسنگ نہیں ہو رہی ہوتی، اس میں وقت لگتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’سیکیوینسنگ کی ٹیکنالوجی اب ہمارے پاس موجود ہے اور کچھ تجربات ہم نے بھی کیے ہیں لیکن وائرس میں کوئی بڑی تبدیلی ہم نے نہیں دیکھی۔ لیکن یہ ایک جاری رہنے والا عمل ہے اور اس کی سرویلنس کرنی پڑتی ہے۔‘
ڈاکٹر سلمان کے مطابق قومی ادارہ صحت کے پاس اب تک کا جو میسر ڈیٹا ہے اس میں ایسا کچھ نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ کرونا وائرس میوٹیٹ ہو چکا ہے۔
مشاہدے اور سائنسی ثبوت
دوسری جانب اسلام آباد کے پمز ہسپتال کے آئی سی یو میں نو ماہ سے کرونا وائرس یونٹ میں کام کرنے والے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر فضل ربی نے ڈاکٹر شازلی منظور کے مشاہدے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ انہیں خود بھی یہ لگ رہا ہے کہ دوسری لہر میں کرونا وائرس پہلے سے زیادہ انفیکشس یعنی پھیلنے کی قابلیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’اس کے علاوہ بہت سے لوگ دوبارہ وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں، ایک مفروضہ یہ ہے کہ جو اینٹی باڈیز بن رہی ہیں شاید وہ کچھ وقت بعد خود ہی ختم ہو رہی ہیں یا وائرس جسم سے ختم نہیں ہوتا چھپ جاتا ہے اور کچھ عرصے بعد دوبارہ سامنے آ رہا ہے۔‘
تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ یہ سب مشاہدے کی بنیاد پر ہے اور اس کا کلینکل ثبوت نہیں ہے۔
دوسری جانب گردش کرتے ہوئے ایسے مشاہدوں کے بارے میں اسلام آباد کے نجی ہسپتال شفا انٹرنیشنل کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقبال خان نے سخت الفاظ میں کہا کہ ’یہ بہت غیر ذمہ دارانہ بیان ہے کہ مشاہدے کی بنیاد پر اور بغیر کسی لیبارٹری سائنسی ریسرچ کے یہ کہہ دیا جائے کہ کرونا وائرس کی نئی ہیت کی شناخت ہوئی اور وہ پہلے سے زیادہ پھیلاؤ رکھتا ہے اور ٹیسٹ میں بھی ظاہر نہیں ہوتا۔‘
ڈاکٹر اقبال نے کہا کہ پاکستان میں کراچی میں واقعے ڈاکٹر عطاالرحمن کی لیبارٹری وائرس کی جنیاتی ہیت پر کام کر رہی ہے اور ایسا کچھ ان کی ریسرچ میں بھی سامنے نہیں آیا۔
انہوں نے مزید کہا: ’جہاں تک وائرس کے پھیلاؤ کا تعلق ہے تو سیدھی بات یہ ہے کہ پہلی لہر میں جتنی اختیاط ہم نے کی تھی وہ اختیاط اب عوام نہیں کر رہی، ہسپتالوں میں کرونا وارڈز کے علاوہ پی پی ای اور N95 ماسک کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے، لوگ آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں جو وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔‘
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ