نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایوب کا زوال گوہر کا کمال! ۔۔۔ اختر بلوچ

گندھارا انڈسٹریز کا نام اس سے پہلے جنرل موٹرز تھا جس کے حصص خریدنے کے بعد گوہر ایوب کے سسر لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خان خٹک نے اس کا نام گندھارا موٹرز تجویز کیا۔

اختر بلوچ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کی جانب سے گوہر ایوب کو ایوب خان کے زوال کا ایک بڑا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ فوج سے استعفیٰ دینے کے بعد ان کی کاروباری اور سیاسی سرگرمیاں تھیں۔

ان سرگرمیوں میں 2 معاملات اہم تھے۔ ایک تو گندھارا انڈسٹریز کا قیام اور دوسرا ان کے والد صدر ایوب خان کی صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں کامیابی کے بعد جشنِ فتح منانے کے لیے کراچی میں نکالے جانا والا جلوس۔ اس جلوس کے نتیجے میں شہر بھر میں فسادات پھوٹ پڑے اور 14 افراد اپنی جان سے گئے۔

گوہر ایوب کا جنم 8 جنوری 1937ء کو ان کے آبائی گاؤں ‘ریحانہ’ میں ہوا۔ ان کی والدہ نے ان کا نام حبیب اللہ رکھا لیکن ان کے والد ایوب خان نے ان کا نام گوہر ایوب تجویز کیا۔ ان کا ابتدائی نام حبیب اللہ تھا، اس کو حسنِ اتفاق کہا جائے یا کچھ اور کہ ان کے سسر کا نام بھی حبیب اللہ تھا۔ گوہر ایوب نے اپنے سسر کے ساتھ کاروبار کا آغاز کیا اور وہی کاروبار ایوب خان کے لیے ایک دردِ سر بن گیا، کیونکہ حزبِ اختلاف کی جانب سے گوہر ایوب کی کاروباری سرگرمیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

گوہر ایوب نے فوجی تربیت مکمل کرنے کے بعد 1958ء میں اپنے والد یعنی اس وقت کے کمانڈر ان چیف کے اے ڈی سی کی ذمہ داریاں بھی نبھائی تھیں۔ گوہر ایوب نے 1953ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور 11 سال فوج میں گزارنے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔

م ۔ب۔ خالد اپنی کتاب ’ایوان صدر میں سولہ سال‘ کے صفحہ نمبر 139 پر ’پسرانِ ایوب‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ’ایوب خان ایوانِ صدر میں منتقل ہوئے تو بَری فوج کی طرف سے اے ڈی سی ان کے اپنے بیٹے کیپٹن گوہر ایوب خان تھے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد کیپٹن گوہر ایوب خان نے پاک فوج سے ریلیز لی اور نجی کاروبار میں مشغول ہوگئے۔ ان کی جگہ ایوب خان کے دوسرے صاحبزادے کیپٹن اختر ایوب خان، صدرِ پاکستان کے اے ڈی سی بن کر تشریف لے آئے۔ تھوڑے عرصے بعد انہوں نے بھی پاک فوج سے ریلیز لے لی اور کاروبار میں مصروف ہوگئے۔ ایوب خان کے یہی 2 لڑکے فوج میں تھے جنہوں نے یکے بعد دیگرے فوجی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا‘۔

م۔ ب۔خالد اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 140 سے 142 پر مزید لکھتے ہیں کہ ’فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، جس شخص کا پشتوں سے پیشہ آبا سپہ گری رہا ہو، جس نے مملکتِ خداداد پاکستان کے پہلے پاکستانی سپہ سالار ہونے کا بلند ترین اعزاز حاصل کیا ہو، جس نے اپنے خون پسینے سے بَری فوج جیسے مقدس ادارے کی آبیاری کی ہو اور جو صرف اپنے فوجی عہدے کی بدولت صدرِ پاکستان کے بلند ترین مرتبہ پر پہنچا ہو، وہ اپنے لڑکوں کو عین عالمِ شباب میں جب وہ تقریباً 25 یا 26 برس کے ہوں اور صرف 4، 5 سال کی سروس کی ہو فوج سے ریلیز کرکے نجی کاروبار میں لگادے، یہ ناقابل فہم ہے۔ والد کے صدرِ پاکستان بن جانے کے بعد اولاد کے لیے فوج سے وابستگی کیا مقدس پیشہ نہیں رہا تھا؟ صدرِ پاکستان کے لڑکوں کا فوج میں رہنا غیر محفوظ یا غیر منافع بخش ہوگیا تھا؟ ایک کیڈٹ کی تعلیم و تربیت پر حکومت کا زرِ کثیر خرچ ہوتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں اتنے کم عرصے سروس کے بعد فوج سے ریلیز لینا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اگر صدرِ پاکستان کے علاوہ کسی عام شہری کے لڑکے ہوتے تو کیا وہ بھی یوں آسانی سے ریلیز حاصل کرسکتے تھے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب پریزیڈنٹ ایوب خان نے عہدِ صدارت میں یا باقی ماندہ زندگی میں کبھی نہ دیا۔

ملک میں پہلا مارشل لا لگانے کے اگلے ہی دن یعنی 8 اکتوبر 1958ء کو ایوب خان بذریعہ ریڈیو پاکستان سے خطاب کرنے کے بعد
ملک میں پہلا مارشل لا لگانے کے اگلے ہی دن یعنی 8 اکتوبر 1958ء کو ایوب خان بذریعہ ریڈیو پاکستان سے خطاب کرنے کے بعد

’خود تو جنرل کے عہدے سے فیلڈ مارشل بن گئے مگر اپنی اولاد کو فوج سے نکل جانے کی اجازت دی بلکہ نکال لیا۔ ان کے پریزیڈنٹ بننے کے بعد یہ پہلی لغزش تھی جو ان سے سرزد ہوئی اور جس کی انہیں بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ ان کے لڑکوں کے بارے میں جھوٹی سچی کئی کہانیاں مشہور ہوئیں اور باپ ہدفِ تنقید بنتا رہا۔ میرے ایک دوست اور ان کی بیگم جن کا اپنا تعلق وزارتِ دفاع سے تھا، پریزیڈنٹ ایوب خان کے بڑے مداح ہوا کرتے تھے، مگر لڑکوں کے کردار کی وجہ سے انہیں اپنی رائے بدلنا پڑی۔ ایک دفعہ میں نے ایوب خان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اولاد بالغ ہو تو اپنے قول و فعل کی خود ذمہ دار ہوتی ہے اور یہ کہ ان کی کسی بُرائی کو باپ کے کھاتے میں ڈالنا انصاف نہیں، تو وہ خاتون مجھ پر برس پڑیں کہ چھوڑیے جی! جو باپ اپنی اولاد کو کنٹرول نہیں کرسکتا، پورے ملک کو سنبھالنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ مجھے خاموش ہونا پڑا، کیونکہ مجھے اس سے اتفاق تھا۔ کیپٹن گوہر ایوب نے اپنے سسر لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خان کے ساتھ مل کر گندھارا انڈسٹریز کی بنیاد رکھی مگر کیپٹن اختر ایوب خان چھوٹے موٹے کاروبار پر قناعت کرتے رہے۔ ایوب خان کو البتہ اپنے بڑے لڑکے گوہر ایوب خان سے زیادہ توقعات وابستہ تھیں، اگرچہ گندھارا انڈسٹریز سے منسلک ہونے کی وجہ سے گوہر ایوب خان کا شمار سرمایہ داروں میں ہونے لگا تھا، اس کے برعکس اختر ایوب خان غریب عوام میں رہتے ہوئے ان کی خدمت سے لطف اٹھانے میں مگن رہے‘۔

گندھارا انڈسٹریز کا نام اس سے پہلے جنرل موٹرز تھا جس کے حصص خریدنے کے بعد گوہر ایوب کے سسر لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خان خٹک نے اس کا نام گندھارا موٹرز تجویز کیا۔ گندھارا موٹرز کے قیام کے ساتھ ہی حزبِ اختلاف کے ہاتھوں گویا ایوب خان کے خلاف ترپ کا پتا آگیا۔ حزبِ اختلاف نے اس معاملے کو ایوب خان کی جانب سے اقربا پروری کی بدترین مثال قرار دیا۔ حزبِ اختلاف کی رائے تھی کہ ایک سازش کے تحت جنرل موٹرز کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا کاروبار پاکستان سے سمیٹے۔ اس کے نتیجے میں انہیں کمپنی ایوب خان کے بیٹے اور اس کے سسر کو فروخت کرنی پڑی۔

لیکن گوہر ایوب اپنی کتاب GLIMPSES INTO THE CORRIDORS OF POWER (ایوانِ اقتدار کی جھلکیاں) کے صفحہ نمبر 52 پر لکھتے ہیں کہ ’فوج سے استعفیٰ کے بعد میں نے اپنے سسر حبیب اللہ خان کے کاروبار میں حصہ لیا۔ میری گندھارا انڈسٹریز سے وابستگی بعد ازاں حزبِ اختلاف کے ہاتھوں ایک ایسا ہتھیار بن گئی جس کا نشانہ میرے والد کو بنایا گیا۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے جنرل موٹرز پاکستان کی خریداری اور بعد ازاں اسے گندھارا انڈسٹریز میں تبدیل کرنے کو میرے والد کی جانب سے ہمارے لیے تحفہ قرار دیا۔ وہ اس بات سے انکاری تھے کہ یہ دو کمپنوں کے درمیان ایک نجی کاروباری معاہدہ تھا جس کا حکومتِ پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

’مخالفین نے اس بات کو عام کیا کہ صدر ایوب خان نے لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ ان کا پورا زور میرے والد کی کردار کشی پر تھا۔ گوکہ وہ سرِعام میرے والد پر تنقید نہیں کرتے تھے لیکن انہوں نے عوام میں یہ بات پھیلا دی تھی کہ میں نے پاکستان کے تقریباً منافع بخش ادارے خرید لیے ہیں۔ ایک بار میرے والد نے اپنے دورہ کراچی کے دوران لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خان اور مجھے دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ جب گفتگو کا آغاز ہوا تو اس کا رخ گندھارا انڈسٹریز کی جانب ہوگیا۔ میرے والد نے بالکل صاف انداز میں ہمیں کہا کہ جنرل موٹرز خرید کر ہم نے غلطی کی ہے‘۔

جیسا کہ ہم ابتدا میں ہی یہ ذکر کرچکے ہیں کہ ایوب خان کے زوال میں گوہر ایوب کے کردار کو نمایاں حیثیت دی گئی ہے۔ قدرت اللہ شہاب اپنی سوانح عمری ’شہاب نامہ‘ کے صفحہ نمبر 968 سے 970 پر رقم طراز ہیں کہ ’ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان 3 جنوری 1965ء کو کیا گیا۔ صدر ایوب کے حق میں49 ہزار 647 ووٹ اور فاطمہ جناح کے حق میں 28 ہزار 345 ووٹوں کا اعلان ہوا۔ بظاہر ایوب خان 21 ہزار 302 ووٹوں کی اکثریت سے جیت گئے تھے‘۔

صدارتی امیدوار محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان
صدارتی امیدوار محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان

ایوب خان اپنی سوانح عمری ‘جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی’ کے صفحہ نمبر 392 پر لکھتے ہیں کہ ’فاطمہ جناح کو صرف دو شہروں میں اکثریت حاصل ہوئی تھی، ایک ڈھاکہ اور دوسرا کراچی۔ مغربی پاکستان میں کراچی کے سوا باقی ہر ایک ڈویژن اور ڈسٹرکٹ میں میرا پلّہ بھاری رہا۔ مشرقی پاکستان میں 17 میں سے 13 اضلاع میں مجھے اکثریت حاصل ہوئی۔ رائے دہندگان کی مجموعی تعداد میں سے 99.62 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ مس جناح کی 36 فیصد کے مقابلے میں مجھے 63 فیصد کی اکثریت حاصل ہوئی‘۔

قدرت اللہ شہاب اپنی سوانح عمری میں اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’انتخابات میں ڈھاکہ اور کراچی نے بھاری اکثریت سے صدر ایوب کے خلاف ووٹ ڈالے تھے۔ ڈھاکہ کے متعلق تو وہ خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے لیکن کراچی میں ان کے فرزند دل پذیر گوہر ایوب نے اہلیانِ شہر کی گوشمالی کا بیڑا ٹھایا۔ چنانچہ 5 جنوری کو جشنِ فتح کے نام پر کراچی میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا۔ جس کی قیادت گوہر ایوب کے ہاتھ میں تھی۔ ان کے جلوس میں سڑکوں پر جیپوں، ویگنوں، بسوں اور رکشوں کی طویل قطار تھی۔

‘اس کا بدلہ چکانے کے لیے رات کے اندھیرے میں ان بستیوں پر شدید حملے کیے گئے۔ آگ لگائی گئی اور کافی جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا۔ اس نقصان کا صحیح اندازہ کسی کو نہیں، لیکن ’شہیدانِ لیاقت آباد‘ کی یاد منانے کے لیے ہر سال 5 جنوری کو ایک تقریب منائی جانے لگی۔ کئی روز تک کراچی میں خوف و ہراس طاری رہا اور پٹھانوں اور مہاجروں کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہوگئی۔ کچھ راویوں کے مطابق اس زمانے میں ایک بار پھر ‘ہندو مسلم’ فسادات کے واقعات کی یاد تازہ ہوگئی۔ صدارتی انتخاب جیتنے کے فوراً بعد یہ صورتحال صدر ایوب کے نئے دورِ حکومت کے لیے صریحاً ایک شدید بدشگونی کی علامت تھی۔

‘گندھارا انڈسٹریز کے بعد گوہر ایوب کا یہ دوسرا شگوفہ تھا، جس نے صدر ایوب کی ساکھ پر بدنامی، بدسگالی، بدفالی اور نحوست کی گہری دھول اڑائی۔ اس کارنامے کے بعد اس فرزندِ دل پذیر نے مزید کل پرزے نکالنا شروع کیے جس سے بادی النظر میں یہ گمان گزرتا تھا کہ شاید صدر ایوب اس برخوردار کو اپنی ولی عہدی کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ کراچی کے نظم و نسق میں بڑی حد تک دخیل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد جب انہیں کراچی مسلم لیگ کی رابطہ کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا تو یہ افواہ پھیل گئی کہ اس تقرری کے پردے میں اس نوجوان کو اگلا صدارتی انتخاب لڑنے کی تربیت دی جارہی ہے۔

‘کراچی میں ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جن کے دل میں گوہر ایوب کے خلاف غم و غصے کی آگ پہلے ہی سے سلگ رہی تھی۔ اس افواہ نے جلتی پر تیل کا کام دیا۔ اس صورتحال کا علم نہ صدر ایوب خان کو تھا نہ گوہر ایوب کو، کیونکہ بیشتر سرکاری اور سیاسی ادارے ان دونوں کی خوشامد و چاپلوسی میں لگے ہوئے تھے۔ اہلیانِ کراچی کی آشفتگی، برہمی اور جھلاہٹ کا بھانڈا اس وقت پھوٹا، جب رمضان المبارک کے پہلے جمعہ کے موقع پر گوہر ایوب نے کراچی کی میمن مسجد میں تقریر کرنے کی کوشش کی۔ اس پر مسجد میں زبردست ہنگامہ برپا ہوگیا۔ لوگوں نے تقریر سننے سے صاف انکار کردیا۔ کسی قدر ہاتھا پائی بھی ہوئی، اور گوہر ایوب کو بمشکل پولیس کی حفاظت میں مسجد سے باہر لایا گیا۔ اس احتجاجی واقعہ نے ایک طرف تو گوہر ایوب کی بڑھتی ہوئی توقعات اور خواہشات کی بساط الٹ دی۔ دوسری جانب صدر ایوب کے اقتدار کی سیڑھی کے پائیدان کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

’یوں بھی اقتدار کی سیڑھی کے اس پائیدان میں پہلے ہی سے بہت سی دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ میمن مسجد والے حادثے سے تقریباً 4 ماہ قبل کراچی میں ایک اور واقعہ بھی رونما ہوچکا تھا۔ جولائی 1967ء میں مادرِ ملّت مس فاطمہ جناح کی وفات پر کراچی میں لاکھوں شہری ان کے جنازے میں شامل ہوئے۔ جلوس کے ایک حصے نے سیاسی رنگ اختیار کرلیا، کچھ نعرے حکومت کے خلاف بلند ہوئے، کچھ نعروں میں ’ایوب خان مردہ باد‘ کہا گیا۔ اس پر پولیس حرکت میں آئی اور لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے علاوہ گولیاں بھی چلائی گئیں۔ مرنے والوں کی صحیح تعداد مصدقہ طور پر کبھی بھی متعین نہیں ہوئی، لیکن خون کی جو قدر مقدار بھی اس موقعہ پر بہائی گئی بلاشبہ اس نے صدر ایوب کے زوال کی راہ کو ہموار کرنے میں بدنصیبی کا چھڑکاؤ کیا۔

’کراچی کی میمن مسجد میں گوہر ایوب کو جو سانحہ پیش آیا تھا اس کے بعد پے درپے بدفال واقعات کا ایسا تانتا بندھ گیا جس نے صدر ایوب کے راج سنگھاسن کو نہایت بُری طرح جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ دسمبر 1967ء کے آخری حصے میں وہ مشرقی پاکستان کے دورہ پر گئے ہوئے تھے۔ میں بھی اسی سلسلہ میں ڈھاکہ گیا ہوا تھا، یکایک خبر اڑی کہ صدر ایوب کو اغوا کرکے انہیں قتل کرنی کی سازش پکڑی گئی ہے، اس خبر کے پھیلتے ہی صدر کی ذاتی حفاظت کا انتظام کئی گنا زیادہ سخت کردیا گیا اور ڈھاکہ میں ایوانِ صدر پر پولیس اور فوجی گارڈز بھی غیر معمولی طور پر بڑھادیے گئے‘۔

اب یہاں پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ گندھارا انڈسٹریز کو کس طریقے سے گوہر ایوب اور ان کے سسر حبیب اللہ خان کی جانب سے خریدا گیا اور پھر حزبِ مخالف کی جانب سے ایوب خان پر اقربا پروری کاالزام لگاکر انہوں نے اپنے بیٹے ان کے سسر کو فائدہ پہنچانے کے لیے کس طرح ایوانِ صدر کے وسائل استعمال کیے۔ اس بات کو جواز بناکر حزبِ اختلاف نے ایوب خان کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا۔

گوہر ایوب پر دوسرا الزام یہ تھا کہ انہوں نے کاروبار کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی مداخلت کا آغاز کردیا۔

الطاف گوہر کے مطابق پاکستان کے ایک سینئر سیاستدان پیر علی محمد راشدی نے ایوب خان کو یہ مشورہ دیا کہ ’چونکہ وہ عالم اسلام کی ایک بہت بڑی شخصیت ہیں اس لیے انہیں فوری طور پر اپنی بادشاہت کا اعلان کرکے گوہر ایوب کو اپنا ولی عہد نامزد کردینا چاہیے‘۔

ان تمام باتوں کا ہم مرحلہ وار جائزہ لیتے ہیں۔

سب سے پہلے گندھارا انڈسٹریز کے قیام کا ذکر کرتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ اس میں بھی ورلڈ بینک کے ملازمین کا ذکر ہے اور 2020ء میں بھی ہماری معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ورلڈ بینک کے ملازمین ہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

م ۔ب۔ خالد اپنی کتاب ’ایوان صدر میں سولہ سال‘ کے صفحہ نمبر 135 تا 137 پر اس پوری صورتحال کو ’ایوب خان کا وزیرِ خزانہ’ کے عنوان سے یوں بیان کرتے ہیں کہ ’اپنے نظریاتی عقائد اور تحریکِ آزادی کے پس منظر کی وجہ سے ہم شروع ہی سے اشتراکی روس سے الرجک رہے، امریکا نے اپنے بین الاقوامی مفاد میں ہمارے رویے کی پذیرائی کی بعد میں پچاس کے عشرے میں بغداد پیکٹ (عراق میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد سینٹو) اور سیٹو کی رکنیت اختیار کرکے دفاعی اعتبار سے ہم مکمل طور پر امریکا ہی کے دستِ نگر بن گئے۔ یہ اس پالیسی کا نتیجہ تھا جسے وزیرِاعظم لیاقت علی خان اور وزیرِ خزانہ غلام محمد نے ترتیب دیا تھا اور ان کے بعد ہر آنے والی حکومت نے اسی ایک سمت پیش قدمی جاری رکھی یہاں تک کہ واپسی کے لیے کوئی راستہ نہ رہا۔ ایوب خان کے خیال میں ایسا کرنا لیاقت علی خان کی مجبوری تھی اور اس وقت کے حالات کا یہی تقاضہ تھا۔ اپنی ذاتی خواہش کے برعکس ایوب خان نے اسی پالیسی پر گامزن رہنے میں خود کو مجبور پایا۔ انہوں نے اپنی پہلی کابینہ تشکیل دی تو وزارتِ خزانہ کے قلمدان کے لیے ورلڈ بینک میں پاکستانی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناب ایم شعیب کا انتخاب کیا حالانکہ ایم شعیب کا امریکی سی آئی اے سے تعلق کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔

’پاکستان کا وزیرِ خزانہ بن کر بھی ایم شعیب اپنی تنخواہ ورلڈ بینک سے باقاعدہ زرِ مبادلہ وصول کرتے رہے۔ دونوں طرف سے بیک وقت دو تنخواہیں وصول کرنا ملکی مفاد اور اخلاقی اصولوں کے خلاف تھا مگر شعیب نے اس کھلی بے قاعدگی کی ایوب خان سے تحریری اجازت لے رکھی تھی۔ ورلڈ بینک کی تنخواہ کے مقابلے میں پاکستانی وزیر کی تنخواہ اتنی قلیل تھی کہ شعیب ایثار سے کام لے کر اسے چھوڑ بھی سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ایک طرف مارشل لا آرڈر کے تحت لوگ باہر کے بینکوں میں اپنی جمع شدہ رقم پاکستان منتقل کرنے پر مجبور تھے اور دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ خزانہ غیر ملکی بینک میں ہر مہینے ڈالر جمع کروا رہے تھے۔

’ایم شعیب میں صوبائی تعصب کی یہ کیفیت تھی کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو بلاتمیز ’بلڈی پنجابی‘ کہا کرتے تھے۔ یہ سب ایوب خان کے علم میں تھا جس سے وہ مصلحتاً چشم پوشی کرتے رہے۔ ورلڈ بینک اور امریکا سے اقتصادی اور فوجی امداد حاصل کرنے کی خاطر ایوب خان شعیب کو استعمال کرنا چاہتے تھے مگر الٹا شعیب کے ہاتھوں استعمال ہونا شروع ہوگئے۔ شعیب نے سب سے پہلے ایوب خان کی پدری کمزوری کا فائدہ اٹھایا۔ ایوب خان کے دونوں بڑے بیٹے گوہر ایوب خان اور اختر ایوب خان بَری فوج میں کیپٹن تھے، انہیں فوج سے نکل کر کاروبار کرنے کی ترغیب دی اور ہر قسم کے تعاون اور مدد کا لالچ دیا۔ حُسنِ اتفاق سے موقع بھی ہاتھ آگیا۔

‘جنرل حبیب اللہ خان، جو بَری فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف اور سب سے سینئر افسر تھے امپریل ڈیفنس کالج لندن سے کورس کرکے واپس آئے تو ایوانِ صدر میں ایوب خان کے مہمان کی حیثیت سے ٹھہرے۔ ان کے پہنچنے سے پہلے افواہ گرم تھی کہ وہی ایوب خان کی جگہ کمانڈر ان چیف بننے والے ہیں۔ ایوانِ صدر میں ان کے قیام سے اس افواہ کو مزید تقویت ملی جس کی وجہ سے ان کی عزت اور اثر و رسوخ میں کثیر اضافہ ہوا۔ ایوب خان نے اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے جنرل حبیب اللہ خان کو فوج سے ریٹائر کردیا اور ان کے بجائے جنرل محمد موسیٰ کو کمانڈر ان چیف بنایا جن کی وفاداریاں شک و شبہ سے بالا تھیں۔

’جنرل حبیب اللہ خان کی بیٹی کیپٹن گوہر ایوب خان سے منسوب تھیں اور خدشہ تھا کہ جنرل حبیب اللہ خان کی ایوب خان سے ناراضگی اس رشتے پر اثر انداز ہوگی مگر فریقین نے دانش مندی کا ثبوت دیا اور شادی بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔ گوہر ایوب خان نے بَری فوج سے ریلیز لے لی اور ایم شعیب نے انہیں امریکا کی مشہور فرم جنرل موٹرز کی ایجنسی لے دی۔ یوں سسر اور داماد نے مل کر گندھارا موٹرز کے نام سے کاروبار شروع کردیا۔ گندھارا موٹرز جلد ہی گندھارا انڈسٹریز میں تبدیل ہوگئی اور مالکان کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہونے لگا۔

’شعیب نے ایوب خان کے دوسرے لڑکے اختر ایوب خان کو بھی ترغیب دی مگر وہ کاروباری سوجھ بوجھ کے اعتبار سے گوہر ایوب جیسے نہیں تھے، نہ ہی انہیں جنرل حبیب اللہ خان جیسا سسر میّسر آیا۔ ان کی شادی بیگم ایوب خان کے بھائی عبدالرحمٰن خان کی صاحبزادی سے ہوئی جو جرمنی میں پاکستان کے سفیر تھے۔ اختر ایوب خان نے کبھی جم کر کاروبار نہ کیا اور قناعت پسندی پر اکتفا کیے رکھا۔

’ایوب خان کا اپنے دونوں بیٹوں کو یکے بعد دیگرے فوج سے نکال کر کاروبار میں جھونک دینا کوئی معمولی قدم نہ تھا۔ اس کے بڑے دُور رس نتائج برآمد ہوئے اور یہ سودا ایوب خان کو بڑا مہنگا پڑا۔ جن لڑکوں کا والد کمانڈر ان چیف اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہو، دادا (رسالدار میجر میر دادا) اپنے وقت میں دیسی فوجیوں کے لیے بلند ترین عہدے سے ریٹائر ہوا ہو، وہ صرف کیپٹن کے عہدے پر ہی پہنچ کر بیل آؤٹ کرگئے اور یوں سپہ گری کے پیشے کو حقارت سے ترک کردیا۔ ایوب خان کے دوسرے بیٹے شوکت ایوب خان اور طاہر ایوب خان اس وقت زیرِ تعلیم تھے۔ بعد میں انہوں نے بھی نجی کاروبار ہی کو ترجیح دی اور اپنے ساتھ اپنے باپ کی بھی بدنامی کا باعث بنے۔ ایوب خان کے زوال میں ان کے بیٹوں کے بارے میں جھوٹی سچی داستانوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا‘۔

پاکستان میں ایک مثل عام ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اس مثال کو عموماً لوگ اپنے اپنے انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے استعمال کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ سیاست میں آپ کوئی بھی عمل کریں اس کے لیے کسی اخلاقی جواز کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بنیادی بات یہ ہے کہ آپ کا عمل آپ کو اس حوالے سے فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ ایوب خان نے بالکل اسی طرح کیا، ان کے چھوٹے بھائی سردار بہادر خان ان کی خود ساختہ قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف تھے اور ایوب خان کی ذات اور ان کی حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔

سردار بہادر خان سے اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے انہوں نے ایک ترکیب بنائی جس کا ذکر گوہر ایوب اپنی کتاب GLIMPSES INTO THE CORRIDORS OF POWER (ایوانِ اقتدار کی جھلکیاں) کے صفحہ نمبر 84 پر کرتے ہیں کہ ’1962ء میں جب میرے والد صدرِ پاکستان تھے اور ان کے چھوٹے بھائی سردار بہادر خان قائد حزبِ اختلاف تھے تو دونوں کے درمیان 7 برس قبل ایک تنازعہ پیدا ہوا۔ جب میرے والد نے خاندانی روایات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اپنے بچوں کو اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ خاندان سے باہر اپنی مرضی کے مطابق شادیاں کرسکتے ہیں تو سردار بہادر خان نے میرے والد سے بول چال بند کردی جس کے باعث میری دادی کو گہرا صدمہ پہنچا۔ 1964ء کے وسط میں میرے والد نے مجھے کراچی سے طلب کیا اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ اب جبکہ ان کے بھائی قائدِ حزب اختلاف نہیں تھے تو انہوں نے مجھے کہا کہ تم 1965ء کے عام انتخابات میں اپنے چچا کے خلاف ہزارہ سے عام انتخابات میں حصہ لو۔ اس موقع پر میں نے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ اختر ایوب اس کام کے لیے بہترین امیدوار ہوں گے، کیونکہ وہ ریحانہ میں رہائش پذیر ہیں اور مقامی سیاست میں بھرپور حصہ لیتے ہیں جس کے سبب لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔

’والد صاحب نے میرے اس مشورے کو پسند کیا لیکن آخر میں کہا کہ تم پسند کرو یا نہ کرو تمہیں لازماً الیکشن میں حصہ لینا ہے۔ صدارتی انتخابات کا انعقاد دسمبر 1964ء میں ہوا۔ ایک سخت مقابلے کے بعد والد صاحب نے یہ جنگ جیت لی۔ پاکستان کنونشن مسلم لیگ کراچی کی جانب سے ایک مظاہرے کا اہتمام کیا گیا تھا تاکہ والد صاحب کی فتح کا جشن منایا جائے۔ گوکہ کراچی کے عوام کی بڑی تعداد نے محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں ووٹ دیے تھے۔

‘کنونشن لیگ کے کارکنوں اور حمایتیوں نے مجھے پی ای سی ایچ ایس میں واقع میرے گھر سے اپنے ہمراہ لیا اور پولو گراؤنڈ کی جانب چل پڑے جہاں پر جشن کا آغاز ہونا تھا۔ مجھے جلوس کے راستے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا ماسوائے اس کے کہ جلوس کا اختتام مزارِ قائد پر ہوگا جہاں پر فاتحہ ہونے کے بعد جلوس منتشر ہوجائےگا۔ بدقسمتی سے کراچی کے مختلف علاقوں میں جلوس نکالے گئے جس کے نتیجے میں ہمارے حمایتیوں اور مخالفین کے درمیان تصادم کے واقعات رونما ہوئے۔ جس کے نتیجے میں دونوں جانب سے قیمتی جانوں کا زیاں ہوا۔ اس واقعے نے مجھے ذہنی کرب میں متبلا کردیا۔ یہ اس وقت ہوا جب میں اپنی پوری صلاحیتیں اس ضمن میں استعمال کررہا تھا کہ مہاجروں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے جنہوں نے پاکستان کی صنعتی اور معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ مجھے اس صورتحال پر دلی افسوس ہوا‘۔

ایوب خان، گوہر ایوب کو سیاست میں لے آئے، ان کے فیوض و برکات کی وجہ سے جنرل موٹرز گندھارا انڈسٹریز میں تبدیل ہوگئی۔ حزبِ مخالف نے ان پر براہِ راست تنقید کے بجائے گوہر ایوب کو تختہ مشق بنایا۔ کیونکہ وہ ایوب خان کے مقابلے میں ایک آسان ہدف تھے اور پاکستان کی تاریخ میں یہ کوئی ایسی نئی بات بھی نہیں ہے۔ کسی بھی حکمران کی نااہلی کا سبب اس کے وزرا یا اہلخانہ کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا آغاز تقسیمِ ہند سے ہی ہوگیا تھا لیکن جب بات فوجی آمروں تک پہنچی تو ان کے اہلخانہ کے بجائے ان کی عادات و اتوار کو موضوعِ بحث بنایا گیا۔ ایوب خان تو خوش قسمت تھے کہ ان کے زوال کا سبب ان کے نجی معاملات کے بجائے ان کے بیٹے کو قرار دیا گیا۔ لیکن ایوب خان کے سینے میں یہ بات ایک پھانس کی طرح چبھتی تھی کہ لوگ آخر کیوں ان کے بیٹے کو موضوعِ بحث بناتے ہیں۔

اس حوالے سے ہمایوں مرزا اپنی کتاب FROM PLASSEY TO PAKISTAN (پلاسی سے پاکستان تک) کے صفحہ نمبر 295 پر ایوب خان سے 29 دسمبر 1965ء کو ہونے والی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ملاقات کے دوران سب سے پہلے سیاسی اور خاندانی امور پر بات ہوئی۔ پھر اچانک ایوب خان نے مجھ سے سوال کیا کہ ناجانے کیوں میرے بیٹوں کے بارے میں گمراہ کن خبریں پھلائی جارہی ہیں۔ تمہارے والد بھی پاکستان کے صدر تھے۔ تمہارے بارے میں کسی نے کچھ بھی نہیں لکھا۔ میں ان کے اس سوال پر حیران رہ گیا کہ وہ کس طرح مجھے اپنے بیٹوں کے ساتھ ملارہے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب چند ماہ پہلے ہی پاکستان اور انڈیا کے درمیان مسئلہ کشمیر پر جنگ ہو چکی تھی۔

صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری تاشکنت معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کررہے ہیں، تصویر میں اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بھی نظر آرہے ہیں
صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری تاشکنت معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کررہے ہیں، تصویر میں اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بھی نظر آرہے ہیں

‘خیر، میں نے ان کے سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے اپنی روزی روٹی کے لیے بہت جدوجہد کی اس حوالے سے میرے والد نے میری کسی طرح بھی مدد نہیں کی۔ جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ گوہر ایوب نے فوج سے اس وقت علیحدگی اختیار کی جب آپ صدرِ پاکستان تھے اور میری معلومات کے مطابق انہیں اپنے معاملات آگے بڑھانے کے لیے ایوانِ صدر کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ یہ سنتے ہی ایوب خان کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا اور ہماری یہ ملاقات اختتام پا گئی۔ میں ان کے اس ردِعمل پر حیران ہوا کیونکہ گوہر ایوب کی بدعنوانیاں زبان زدِ عام تھیں۔ اب یہ ایوب خان کی معصومیت تھی یا ان تمام معاملات سے چشم پوشی۔ اس بارے میں کوئی بھی بات سن کر ایوب خان سیخ پا ہوکر غصے میں آجاتے تھے اور بغیر کسی لحاظ کے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے‘۔

الطاف گوہر اپنی کتاب ‘ایوب خان، فوجی راج کے پہلے دس سال’ کے صفحہ نمبر 448 پر لکھتے ہیں کہ ’ایوب خان کو اس نقصان کا بھی کوئی اندازہ نہ تھا جو ان کی ذات اور حکومت کو ان کے خاندان پر بدعنوانیوں کے الزامات کے نتیجے میں پہنچا تھا۔ وہ ایک غیر ملکی جریدے میں پاکستان کے بارے میں ایک تبصرہ پڑھ کر بہت غضب ناک ہوئے جس میں کہا گیا تھا کہ ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے اپنے والد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انہیں ‘افواہ سازی’ کا کارخانہ الاٹ کرادیں کیونکہ ملک میں اس جنس کی سب سے زیادہ کھپت تھی۔ انہوں نے سیکرٹری اطلاعات سے پوچھا کہ ‘آخر یہ سب لوگ میرے بیٹے کے پیچھے کیوں پڑگئے ہیں؟’ سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ ‘اس لیے جناب صدر کہ وہ آپ کو اپنی اولاد کے اعمال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں‘۔

جب کوئی حکمران ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہو اور امورِ مملکت میں عوام کی رائے کی اہمیت ختم ہوچکی ہو تو حکمران کے عزیز و اقارب کی بے قاعدگیاں اور بدعنوانیاں اس کی اپنی شہرت اور کردار پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ایوب خان کے لیے یہ دلیل ناقابلِ فہم تھی۔ گوکہ ایوب خان نے اپنی سوانح عمری ‘جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی’ میں اپنے بیٹوں کا اور ان کی بحیثیت اے ڈی سی تقرری کا کوئی ذکر نہیں کیا، لیکن یہ ضروری نہیں کہ جن باتوں کا ذکر آپ نہ کریں تو کوئی اور بھی نہ کرے۔ بالکل ایسے ہی ہوا۔ ایوب خان کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں اور خود، ان کے اپنے بیٹے گوہر ایوب نے ان باتوں کا تذکرہ تفصیل سے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔

ہم نے کوشش کی ہے کہ دورِ ایوبی کے ان گمشدہ حصوں کو بے نقاب کیا جائے جو اقتدار کے دوران حاکموں کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں۔ یہ تحریر حرفِ آخر نہیں ہے، اس حوالے سے اگر کوئی اور معلومات کسی کے پاس ہو تو اس کا فرض بنتا ہے کہ اس بارے میں ضرور لکھے۔


حوالہ جات:

  • م ۔ب۔ خالد ، ’ایوان صدر میں سولہ سال‘ اشاعت اول، جولائی 1988ء، مطبوعہ دید شنید پبلی کیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ۔
  • گوہر ایوب، GLIMPSES INTO THE CORRIDORS OF POWER (ایوانِ اقتدار کی جھلکیاں )سنِ اشاعت2007ء مطبوعہ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی
  • قدرت اللہ شہاب ۔’شہاب نامہ‘بار چہارم، جنوری 1988ء
  • الطاف گوہر، ’ایُّوب خان، فوجی راج کے پہلے دس سال‘ سنِ اشاعت1999ء، مطبوعہ سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور
  • ہمایوں مرزا، From Plassey To Pakistan (پلاسی سے پاکستان تک)، اشاعت دوم 2016ء، مطبوعہ فیروز سنز لاہور۔

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

About The Author