اسلم ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرانس کے سرکاری ریڈیو نے برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اور مشہور فٹ بالر پیلے کی موت کی خبریں نشر کرنے کے بعد تردید کرکے معافی مانگ لی.
بتایا گیا ہے کہ RFI (ریڈیو فرانس انٹرنیشنل) نے اہم شخصیات کی موت کی خبریں پہلے سے تیار کررکھی ہیں تاکہ جب ایسی اطلاع آئے تو ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر نشر ہوسکیں. کمپیوٹر کی کسی خرابی کی وجہ سے آج یہ چند خبریں نیوز ریڈر کے لیپ ٹاک پر چلی گئیں اور اس نے پڑھ ڈالیں.
اپریل میں کسی نے بی بی سی ورلڈ کے جعلی ٹویٹر اکاؤنٹ سے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے کورونا سے انتقال کی خبر دے دی تھی اور بڑے ٹی وی چینلز دھوکہ کھا گئے تھے.
ٹیلی ویژن چینلز میں سخت مقابلہ ہے، کوئی خبر دینے میں پیچھے نہیں رہنا چاہتا. ایک دیتا ہے تو بلا تحقیق سب نقل کرتے جاتے ہیں. سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے انتقال کی جھوٹی خبر بھی سب نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی نشر کردی تھی اور پھر سب نے تردید اور معذرت کی خفت اٹھائی۔
احمد فراز کے انتقال کی غلط خبر تو پی ٹی وی نے دی تھی، تو سب نے اٹھا لی۔ ظاہر ہے پھر معذرتیں ہوئیں۔ فراز کا انتقال کچھ عرصے بعد ہوا۔
ٹیلی ویژن کے زمانے میں تردید تھوڑی دیر بعد ہوجاتی ہے ۔ لیکن سوچیں جب صرف اخبار تھے تو ایسی خبر کی تردید 24 گھنٹے بعد ہو پاتی تھی۔
22 فروری 1979کو روزنامہ جنگ نے سید قائم علی شاہ کے انتقال کے جھوٹی خبر شائع کردی تھی ، اگلے دن تردید اور معذرت چھپنے تک ہزاروں افراد ان کے گھر جمع ہو چکے تھے۔ قائم علی شاہ41 سال بعد بھی حیات ہیں۔ اس دوران کئی بار وزیر اور وزیر اعلیٰ رہے، اب بھی کسی بھی ذمہ داری کیلئے تیار ہیں۔
لاہور کے ایک ہیوی ویٹ سابق ایم پی اے نے تو واپڈا کے ایک افسر سے کسی ناراضی پر باقاعدہ ادائیگی کر کے دوتین اخبارات میں اس افسرکے انتقال اور اگلے دن جنازے کا اشتہار چھپوا دیا تھا۔ افسر صاحب کے مہمانداری پر ہزاروں روپے خرچ ہوگئے۔ یہ معاملہ عدالت کچہری تک بھی پہنچا ۔
سجاد علی شاہ تو اگلے دن واقعی انتقال کر گئے تھے لیکن ماضی کے دو واقعات یاد آئے جب کسی اہم شخصیت کو قریب المرگ سمجھ کر ان کی یاد میں ضمیمے بھی تیار کر لئے گئے لیکن وہ پڑے رہے اور وہ شخصیات کافی عرصہ جیتی رہیں۔
ایک ضمیمہ خان عبدالغفار خان کا ’’امروز‘‘ میں کافی عرصہ پڑا رہا اور دوسرا ملکۂ ترنم نور جہاں کا ’’جنگ‘‘ میں۔ اس کی خبر ملکۂ ترنم تک بھی پہنچ گئی تھی اور انہوں نے ہمارے سینیر دوست عاشق چودھری کو خوب سُنائی تھیں.
بہت پہلے اخباروں کو اپنی ساکھ کا ایسا خیال ہوتا تھا کہ یہ لطیفہ بھی بنا کہ کوئی اپنے ہی انتقال کی خبر کی تردید کرانے کیلئے گیا تو اسے کہا گیا کہ ہم اپنی خبر کی تردید تو نہیں چھاپ سکتے ، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ کی پیدائش کی خبر چھاپ دیں.
انتقال کی ایک جھوٹی خبر میں ہم بھی ملوث ہوئے ۔۔۔
ان دنوں میں ’’ امروز ‘‘ میں تھا۔ آل انڈیا ریڈیو سے خبر آئی کہ چندی گڑھ میں ہونے والی ایک کانفرنس میں پاکستان کے فلاں زرعی سائنسدان اجلاس کے دوران حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔ غیر معمولی خبر تھی فوراََ لگادی۔
چند ماہ بعد پولیس والے دفتر آئے اور پوچھا کہ خبر کس نے لگائی تھی، اس سے تفتیش کرنی ہے ۔ وہ صاحب زندہ ہیں اور انہوں نے اخبار پر دعویٰ کیا ہے۔ چیف ایڈیٹر ظہیر بابر صاحب نے کہا کسی نے بھی لگائی ہو، ایڈیٹر میں ہوں، میرا نام چھپتا ہے ، میں ذمہ دار ہوں ۔
نیوز ایڈیٹر فضیل ہاشمی صاحب نے نیوز روم میں پوچھا، میں نے بتایا کہ میں نے خود سن کر نوٹ کی تھی۔ انہوں نے ایڈیٹر صاحب سے کہا ، میں نیوز ایڈیٹر ہوں ، ساری ذمہ داری میری ہے۔
اب سوچتا ہوں آج کا زمانہ ہوتا تو انتظامیہ ، کیس سے جان چھڑانے کیلئے اگلے ہی دن اشتہار لگا دیتی کہ غیر ذمہ داری پر اسلم ملک کو ادارہ سے نکال دیا گیا ہے۔
ویسے یہ آج تک پتہ نہیں چلا کہ وہ زرعی سائنسدان کون تھے اور آل انڈیا ریڈیو پر خبر کیسے چلی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور