ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم عمران خان نے تربت میں عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کو باقی صوبوں کے برابر لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں سیاسی لوگوں نے خود کو فائدہ پہنچایا ۔ سابق وزیراعظم نے بلوچستان کی بجائے لندن کے دورے زیادہ کئے ۔ ملک کے ایک صدر ایسے بھی تھے جس نے بلوچستان کی نسبت دبئی کے زیادہ ٹرپ کئے ۔
وزیراعظم کا اعلان خوش آئندہ ہے ، بلوچستان ترقی کا حقدار ہے کہ جس طرح سرائیکی وسیب کووڈیروں ، سرداروں اور جاگیرداروں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، یہی کچھ بلوچستان میں بھی ہوا ہے ، پچھلے دنوں چار روز بلوچستان میں گزرے ، وہاں کی محرومی کو دیکھنے اور مسائل کو جاننے کا موقع ملا ، یہ بھی حقیقت ہے کہ چند سال پہلے بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں بدامنی تھی مگر ایف سی نے حالات پر بہت قابو پا لیا ہے اور امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہوئی ہے ۔ بلوچستان کی ترقی کے حوالے سے بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ابھی باقی ہے ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نے بلوچستان کا دورہ کیا ہے ۔
وزیراعظم کو وسیب کے دورے پر بھی آنا چاہئے کہ ان کے پاس مینڈیٹ وسیب کا ہے۔ میرا یہ کالم لورالائی کے حوالے سے ہے کہ ہم ڈی جی خان فورٹ منرو سے بلوچستان میں داخل ہوئے تو لورالائی نے ہمارا استقبال کیا ، لورالائی میں یونیورسٹی موجود ہے اور وسیب کے بہت سے اساتذہ وہاں پڑھاتے ہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر ناصر عباس اس یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں ۔ اب وہ یہاں موجود نہیں مگر انہوں نے لورالائی کے حوالے سے بہت کچھ بتایا اور لورالائی کے بارے میں معلوماتی مواد بھی فراہم کیا ۔
لورالائی کے مشہور علاقوں میں دکی شامل ہے ، اس علاقے کو بہادروں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے ۔ ضلع لورالائی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے درمیان میں واقع ہے۔ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ لورالائی اکتوبر 1903ء میں ضلع بنایا گیا تھا۔ لورالائی قصبہ اس کا صدر مقام تھا۔ 1992ء میں لورالائی کو مزید حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ جب موسیٰ خیل اور بارکھان کو انتظامی طور پر ضلع کا درجہ دیا گیا۔
مغل شہشاہ ہمایوں نے 1545ء میں دُکی جو صوبہ قندھار کا حصہ تھا کو میر سید علی کو دیا۔ قندھار کا صوبہ مغلوں کے زیر اثر رہا جو بعد میں 1595ء تک ایران کے سفاود بادشاہوں کے زیر تسلط رہا۔ 1595ء میں اسے اکبر اعظم نے واپس لے لیا۔ اکبر کے دور میں دُکی کا علاقہ جو اصل میں ایک فوجی علاقہ تھا اسے صوبہ قندھار کی مشرقی سرحد قرار دیا گیا اور اسے 500 گھوڑ سوار اور 1000 پیدل سپاہی دے گئے اور 1622ء میں قندھار واپس ایران کے بادشاہوں کے زیر تسلط چلا گیا۔تاریخی کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ 1653ء میں شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنے بڑے بیٹے دارالشکوہ کے زیر کمان قندھار کو فتح کرنے کے لیے ایک بہت بڑی فوج بھیجی جسے شکست ہو گئی یہ مغل بادشاہوں کی طرف سے قندھار کو حاصل کرنے کے لیے سب سے بڑا حملہ تھا جس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے ان کے ہاتھ سے چلا گیا۔میر وائس غلزی یا خلجی نے 1709ء میں قندھار میں اپنی طاقت بنائی اور 30 سال کے بعد غلزی / خلجیوں نے اپنی طاقت نادر شاہ کو دے دی جس نے ایک لمبی جدوجہد کے بعد اسے 1737ء میں فتح کیا۔
بعد میں 1747 ء میں نادر شاہ کا قتل ہو گیا اور احمدشاہ درانی نے اسے حاصل کر لیا۔ درانی 1826ء تک چلے اور پھر بارکزئی نے دوست محمد خان کے زیر اثر کر لیا۔ تقریباً تمام لورالائی 1879ء تک اُس کی سلطنت میں رہا اور ہمیشہ خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ 1879ء میں دُکی اور تحصیل چٹالی بلوچستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ برطانیہ کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ 1879ء میں افغان جنگ کے پہلے حصہ کے خاتمے کے بعد قندھار سے واپسی پر برطانیہ کے فوج پر پشت سے قبائیلوں نے جن کا تعلق ژوب اور بوری سے تھا نے شاہ جہاں (چیف آف ژوب) کمانڈر کے تحت بادی باکھو کے مقام پر حملہ کیا۔ لیکن انہیں شکست ہو گئی۔
1881ء میں تحصیل چوٹالی (سبی) جو دُکی میں شامل تھا کو ہرنائی پولیٹیکل ایجنسی کا حصہ بنا دیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1886 ء میں چھاونی دُکی سے لورلائی منتقل کر دی گئی اور مل پوسٹ سنجاوی، میختر اور کنگری میں قائم کر دی گئی اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ دُکی کا ہیڈ کواٹر بھی لورالائی تبدیل کر دیا گیا۔نومبر 1887 ء کو دُکی اور تھل چوٹالی (سبی) کو ہندوستان کا حصہ قرار دے دیا گیا تھا تاکہ انتظامی طور پر کام ہو سکے اور پولیٹیکل ایجنٹ کا عہدہ بھی ڈپٹی کمشنر میں تبدیل کر دیا گیا۔1888ء میں سر رابرٹ سنڈیمن نے ایک چھوٹی سی فوج کے ساتھ شمالی ژوب پر موسیٰ خیل کے راستے حملہ کر دیا جس کی وجہ سے وادی ژوب پر 1889ء میں قبضہ ہو گیا۔ 1894 ء تک لورلائی کا قبضہ اور تھل چوٹھالی (سبی) ضلع کے اندر رہا جب تک یہ ژوب ایجنسی کا حصہ نہیں بن گیا۔ اکتوبر 1903 ء میں تھل چوٹالی اور ژوب کو دوبارہ ترتیب دیا گیا اور نام تبدیل کر کے ضلع سبی رکھ دیا گیا اور ایک نیا ضلع لورالائی کے نام سے بنا دیا گیا۔
1882میں اس جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ کی فوجیں لورالائی شہر میں داخل ہو گئیں اور بوری، دُکی، سنجاوی اور میختر کے اکثر علاقوں پر قبضہ کر لیا ۔ بہت سی قسم کے پھل اور سبزیاں ضلع میں پیدا کی جاتی ہیں۔ لورالائی زیادہ طور پر اپنے باداموں اور سیب کے لیے مشہور ہے۔ لورالائی میں سنگ مرمر بھی ہے اور یہ اپنے سنگ مرمر کی ٹائیلوں کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہے۔ سنگ مر مرکاٹنے والی بہت سے کارخانہ یہاں پر لگائے گئے ہیں مگر یہ ترقی بہت ناکافی ہے ، بلوچستان کی مجموعی ترقی کیلئے بہت زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ