سہیل میمن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ ایک ہفتہ میں سندھ میں تین ایسے بھیانک واقعات ہوئے ہیں جس نے جدید ریاست مدینہ پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ سوشل میڈیا پر صرف یہ ہی ایک سوال گردش کر رہا ہے کہ یہ ہی ریاست مدینہ بنائی گئی ہے پاکستان میں جس میں کوئی بھی محفوظ نہیں، نہ ساٹھ سال کا بوڑھا، نہ جوان مرد خواہ عورت اور نہ ہی پانچ سالہ بچہ یا بچی۔ اب وزیر اعظم پاکستان یہ کہہ کر جان چھڑا لیں کہ پولیس اور جرائم کو روکنا صوبائی معاملہ ہے تو وزیر اعظم صاحب، سندھ اور بلوچستان کے ساحل بھی تو صوبائی معاملہ ہیں اور یہ آئین پاکستان کی آرٹیکل 172 اور 173 کے تحت 12 ناٹیکل میل یعنی 21 کلو میٹر تک صوبوں کی ملکیت ہیں پھر آپ نے آئین پاکستان کو روند ڈالا مگر، شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا تو ریاست کی ذمے داری ہے، اس میں آپ کیوں خاموش ہیں۔
سندھ میں ان تینوں واقعات کی وجہ سے صف ماتم بچھی ہوئی ہے مگر سندھ حکومت سو رہی ہے۔ ایک واقعہ ایک چار سالہ معصوم بچی کو ماں سمیت 3 دن تک گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا جب پولیس پہنچی تو بچی نے شلوار نیچے کرتے کہا دیکھیں پولیس انکل ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا، کیا ہے!
یہ واقعہ کشمور کا ہے۔ کراچی کی اعظم بستی کی تبسم اور اس کی پانچ سالہ معصوم بیٹی علیشا کو اغوا کر کے کشمور لایا گیا اور تین دن تک ماں سمیت بچی کو بھی وحشت کا نشانہ بنانے بعد درندوں نے اس شرط پر ماں کو رہا کیا کہ دوسری لڑکی لے آؤ اپنی بچی لے جاؤ۔ تبسم نے ہمت کی اور پولیس کے پاس پہنچی تو ملزمان کو جھانسہ دے کر پکڑنے کے لئے ایک لڑکی کی ضرورت پڑی اے ایس آئی محمد بخش برڑو نے مدد کے لئے اپنی بیٹی پیش کرتے ہوئے اس کی ملزمان سے بات کروائی اور ملزمان تک پہنچے، مرکزی ملزم رفیق ملک گرفتار ہوا۔
پولیس کا یہ اے ایس آئی ہیرو ہے اور اس گندے سماج میں ایک امید کی کرن ہے، حالانکہ سوال یہ بھی ہے کہ پورے ضلع میں کیا ایک بھی لیڈی کانسٹیبل نہیں جو پولیس کا یہ کام کر سکتی؟ ملزم رفیق نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا ہے جو ریمانڈ پر پولیس کسٹڈی میں ہے اور اس کے مجرم ساتھیوں کی تلاش جاری ہے۔ مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے مقامی لیڈر پولیس پر دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ کیس میں زینب الرٹ بل کی دفعات شامل نہ ہو سکیں اور کیس کمزور رہے۔ علیشہ کے ساتھ اتنا ظلم ہوا ہے کے اس کی آنتیں تک جائے مخصوص سے باہر نکلی ہوئی تھیں۔
دوسرا واقعہ، میرپور خاص میں غیرت کے نام پر چھبیس سالہ شادی شدہ فہمیدہ کا قتل کیس ہے۔ میرپور خاص کی تحصیل سندھڑی کی رہائشی چھبیس سالہ شادی شدہ فہمیدہ نے تین ماہ قبل غلام قادر شر سے کورٹ میں شادی کرلی تھی پر شر برادری کے زمینداروں نے ایک فیصلے کے تحت نوجوان غلام قادر شر پر جرمانہ عائد کیا اور فہمیدہ کو شوہر سے چھین کر ورثا کے حوالے کر دیا، فیصلے سے پہلے فہمیدہ نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا تھا جس میں اس نے کچھ نام لے کر کہا اگر ہمیں کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کے ذمے داران رئیس کریم بخش شر، غلامو شر، اسماعیل شر، مولا بخش شر، اسحاق شر، دینو شر، نظیر شر اور دیگر ہوں گے، جس کے بعد فہمیدہ کے ورثا نے اس کو تین روز قبل زہریلی دوا پلا کر قتل کر دیا اور واقع کو خودکشی بتایا، بظاہر یہ ایک عام کیس لگتا ہے مگر اس پورے کیس میں ٹرننگ پوائنٹ وہ وڈیو ہے جس میں فہمیدہ نے صاف بتایا کہ اس کو قتل کیا جا رہا ہے، مدد کی جائے، مگر کسی نے اس کی مدد نہ کی۔
تیسرا واقعہ، گلشن شر کا ہے جسے بھی غیرت کے نام پر بیدردی سے قتل کر دیا گیا ہے اور اس واقعے کی نوعیت بھی و ہی ہے، گلشن کا قتل سے قبل وڈیو بیان، کہ مجھے مارا جائے گا، اور تین دن بعد اس کو کالی کر کے قتل کر دیا گیا، ریاست مدینہ میں کوئی آپ ہی بتا رہا ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے گا مگر کسی نے اس کو تحفظ نہیں دیا۔ گلشن جو پانچ دن پہلے سانگھڑ ضلع کے ہیڈکوارٹر میں اپنے تحفظ کے لئے اپیلیں کرتی رہی، باپ سمیت پولیس اسٹیشن میں آئی، میڈیا پر بھی آواز اٹھائی کہ شوہر اور برادری مجھے قتل کرنے لئے میرے بھائیوں اور باپ پر دباؤ ڈال رہے لیکن اس غریب لڑکی کی فریاد کا کسی نے نوٹس نہیں لیا، پولیس نے انہیں وہاں کے فیوڈلز اور برادری سے تحفظ نہیں دلوایا اور پھر بھائی نے غیرت کے نے نام پر اس کو قتل کر دیا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور