مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جذباتی قوم کے جذباتی افسر۔۔۔۔محمد حنیف

پرچہ کٹ گیا پھر کچھ غیر جذباتی افسروں نے جذباتی جونیئرز سے تفتیش کی اور رپورٹ بھی جاری کی کہ بس ذرا ہمارے بندے تھوڑے جذبات میں بہہ گئے تھے

محمد حنیف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

میرے شہر کراچی میں ایک چھوٹا سا مسئلہ تھا۔ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نامی ایک بندے کے خلاف پرچہ کٹوانا تھا، شاید گرفتار بھی کروانا تھا۔ کراچی کے حساب سے یہ ایک ایس ایچ او لیول کا کام تھا۔ اگرچہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر شریف خاندان کے رکن ہیں لیکن ان کا اتنا ہی سیاسی قد ہے جتنا ہمارے معاشرے میں گھر جوائیوں کا ہوتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ اگر کراچی صدر کا کوئی ایک عام سا ایس ایچ او آواری ہوٹل پہنچ کر کہتا کہ صفدر نکالو تو ہوٹل کے سکیورٹی گارڈ ہی انہیں کمرے سے نکال کر پیش کر دیتے۔ لیکن کچھ لوگوں کے جذبات قائد اعظم کے مزار پر انہیں نعرے لگاتے ہوئے دیکھ کر بھڑکے ہوئے تھے، انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ اور جذباتی لوگوں سے کیا۔ انہوں نے جذبات میں آ کر یہ فیصلہ کیا کہ سندھ کے غیر جذباتی آئی جی کو ابھی اٹھا کر لاؤ اور کہو کہ اتنی رات گزر گئی پرچہ کیوں نہیں کٹا۔

پرچہ کٹ گیا پھر کچھ غیر جذباتی افسروں نے جذباتی جونیئرز سے تفتیش کی اور رپورٹ بھی جاری کی کہ بس ذرا ہمارے بندے تھوڑے جذبات میں بہہ گئے تھے لیکن آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ سندھ پولیس اتنی سست روی سے کام لے رہی تھی۔ اس پورے معاملے میں ڈراؤنی بات یہ ہے کہ جو کام کراچی کا ایک ایس ایچ او کر سکتا تھا اور ایسے کر سکتا تھا کہ اگلے دن کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے جسم پر کوئی نشان بھی نہ ہوتا، وہ کام ہمارے سپہ سالار جنرل قمر باجوہ کو کرنا پڑا۔ اور پورے ایک مہینے تک ہمارے تجزیہ نگاروں اور ترجمانوں کو قلابازیاں لگانا پڑیں کہ یہ کام ہوا ہی نہیں، یہ تو ایک کامیڈی ہے، ہم نے تو کہا ہی نہیں کہ آپ ایسا کام کرو۔ اور اب رپورٹ آ گئی تو پھر یہی کہا کہ ادارے نے تو اپنے جذباتی افسروں کی سرزنش کرلی لیکن وہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو کسی نے کیوں نہیں پکڑا؟

تجزیہ آگے بڑھانے سے پہلے عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے اداروں اور ان کے اہلکاروں کو کبھی کبھی سیاسی تجزیہ نگاروں کو چھوڑ کر نوجوان فنکاروں کی بات سننی چاہیے۔ ہمارے سب سے سینیئر صحافی کامران خان کے تجزیے ہمارا قومی سرمایہ ہیں۔ لیکن اگر آپ ابھرتے ہوئے نوجوان علی آفتاب سعید کا گانا ’جذباتی‘ سنیں تو شاید قوم کی نفسیات سمجھنے میں زیادہ مدد ملے۔ وہ فرماتے ہیں بلکہ گاتے ہیں:

بن پوچھے سمجھاتی ہے

سب کا غم بٹاتی ہے

ایویں اکھ بھر آتی ہے

میری قوم بڑی جذباتی ہے

امریکہ سے یاری پہ

ملک کی خود مختاری پہ

اسلام کی پہرہ داری پہ

یہ اپنا شہر جلاتی ہے

ویر عقل سے ذاتی ہے

میری قوم بڑی جذباتی ہے

جے بھارت نے حملہ کیتا

فوج تے ایٹم بم چلیسی

اسرائیل دا نان نا رہ سی

سی آئی اے دی ایسی تیسی

اس طرح کی باتیں کر کے

اپنا دل بہلاتی ہے

سر کا ساڑ بجھاتی ہے

میری قوم بڑی جذباتی ہے

علی آفتاب کا گایا ہوا تجزیہ اس لیے زیادہ معقول لگتا ہے کہ انہوں نے کسی ایک ادارے کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ قوم کی بات کی ہے۔ کراچی والے اپنے گریبان میں جھانکیں اور سوچیں کہ واہ کیا جذبات تھے جس میں آ کر وہ منزل نہیں رہنما ڈھونڈتے رہے۔ قوم کے غم میں رت جگے کاٹنے والے ہمارے جیسے ہی رات کے آخری پہر عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی سیڑھیاں چڑھ کر پوچھنے پہنچ جاتے تھے کہ کراچی جل رہا ہے، آپ یہاں پہاڑی پر آرام سے سو رہے ہیں۔ پھر جواب نہ آتا تھا تو سوچتے تھے کہ کیفے کلفٹن ابھی کھلنے والا ہو گا حلوہ پوری کھا کر قوم کا غم غلط کرتے ہیں۔

کراچی کے باہر سے آنے والے شاید نہ مانیں لیکن کراچی میں اگر بندہ دو سال کی پوسٹنگ پر بھی آئے تو تھوڑا زیادہ جذباتی ہو جاتا ہے۔ کراچی کو الطاف بھائی کے چنگل سے چھڑانے کے لیے پہلے فوجی آپریشن میں ایک کرنل صاحب کا انٹرویو کیا جو نئے نئے کراچی آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ وہ بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم کا مسئلہ تو انہوں نے چٹکی بجا کر، کچھ لوگوں کو اٹھا کر، کچھ کو بٹھا کر حل کر لیا۔ لیکن یہ بوٹ بیسن میں کیا ہو رہا ہے۔ میں نے کہا تکے کباب اور کیا، انہوں نے کہا وہاں پر ادھ ننگی لڑکیاں گھومتی ہیں، میرے جوان ڈیوٹی پر وہاں کھڑے ہیں، ساری رات ڈر لگتا ہے کہ کہیں غیرت میں آ کر مشین گن سے فائر ہی نہ کھول دیں۔

میں نے عرض کیا کہ ایسا بھی ماحول نہیں ہے جیسا آپ کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے بغیر آستین کی قمیض پہننے والی لڑکیوں اور حوالداروں کی نفسیات کے بارے میں لیکچر دیا۔ شکر ہے ان کی کمان میں حوالداروں نے اپنے جذبات پر قابو رکھا اور کوئی سانحہ نہیں ہوا۔ اس جذباتی قوم کے جذباتی اداروں میں ترقی کرنے کا واحد طریقہ یہ ہی ہے کہ تھوڑا سا غیر جذباتی ہو کر رہا جائے۔

جب جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن والے معاملے پر پٹیشن ہوئی کہ اس کا قانون ہی موجود نہیں ہے تو وہ بالکل جذباتی نہیں ہوئے۔ انہوں نے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہا تو قانون بنا دو۔ اور سب سلیکٹڈ، ریجیکٹڈ، ریاست کے اندر ریاست اور ریاست کے اوپر ریاست کا شور مچانے والوں نے بغیر جذباتی ہوئے سترہ منٹ میں قانون پاس کر دیا۔

تو ہمارے بڑوں کو چاہیے کہ وہ اداروں میں ہوں یا اداروں کے کسی گیٹ کے باہر کھڑے ہوں، تو وہ اپنے سے چھوٹوں کو بھی غیر جذباتی ہونے کا درس دیا کریں۔ دل اس خیال سے دہل گیا کہ اگر کل کسی جذباتی نے چین میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی تصویریں دیکھ لیں اور رات کے پچھلے پہر دوسرے جذباتیوں سے کہا کہ وہ ذرا اس سی پیک والے کو اٹھا کر لے آؤ، اس کو سمجھاتے ہیں۔

پھر دل کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ قوم جذباتی ہے لیکن اتنی بھی نہیں۔

%d bloggers like this: