ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیب کے معروف دانشور اور قانون دان صوفی تاج محمد خان گوپانگ ایڈووکیٹ گزشتہ روز (12 نومبر 2020ء ) کو انتقال کر گئے ۔ نماز جنازہ فاضل پور ضلع راجن پور میں ادا کی گئی ۔ صوفی تاج گوپانگ دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے ادیب ، شاعر اور مترجم تھے ۔ تھنکر فورم کے صدر کی حیثیت سے علم و دانش کو عام کرنے میں انکا بھرپور کردار ہے ۔
وہ اچھے لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے ۔ ساری زندگی وہ محکوم انسانوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے رہے ۔ وہ صوفی منش تھے ، اس لئے اپنے نام کے ساتھ صوفی لکھنا پسند کیا۔ وہ ایک عرصے سے علیل تھے ۔ قوت گویائی سے محروم تھے ۔ اس کے باوجود اپنے قلم سے علم و دانائی کے جوہر دکھاتے رہے ۔ چند دن پہلے اپنے دوست میاں شاہد کے ساتھ تیمار داری کے لئے گیا تو مرض اور علاج کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اشاروں سے بتایا کہ جو بیماری چوہدری شجاعت حسین کو لاحق ہے ، میں بھی اسی بیماری کا مریض ہوں ۔ بلاشبہ صوفی تاج گوپانگ کی بہت خدمات ہیں ، مہرے والا سرائیکی میلہ کے بانی عاشق بزدار ہیں لیکن ان کے ساتھ صوفی تاج گوپانگ ، منظور خان دریشک کا حصہ بھی نمایاں ہے ۔ صوفی تاج گوپانگ کی کتاب ’’ صدیں سچ الایا ‘‘ ایک شاہکار کتاب ہے ۔ وسیب کے جن لوگوں کی سرائیکی دانش سے متاثر ہوں ان میں سے صوفی تاج گوپانگ کا نام سر فہرست میں ہے۔
بڑے شہروں اور علمی مرکز سے دور راجن پور کی ایک چھوٹی سی بستی کوٹلہ خدائی میں آنکھ کھولنے والے صوفی تاج گوپانگ کی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر وقت سرائیکی کا سوچتے ، سرائیکی بولتے اور سرائیکی زبان و ادب کے لئے کام کرتے مگر اس کے باوجود ہمیں حیرانگی کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ دانشور وسیب کیلئے کتاب کیوں نہیں لکھتا؟ میرے اس سوال کا جواب ان کی کتاب ’’صدیں سچ الایا ‘‘ کی صورت میں آیا ، اچھی بات یہ ہے کہ تاج گوپانگ نے سرائیکی زبان کو کتاب دی ہے پر ’’ سک‘‘ کے ساتھ ۔ سرائیکی وسیب ازل سے دانا اور دانشمندوں کی دھرتی ہے، اس خطے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسان کی تاریخ ، ہماری یہ بخت بھری دھرتی زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ مردم خیز ہونے کا شرف بھی ہمیشہ سے حاصل ہے ۔
رگ وید ، رامائن اور اس طرح کی دوسری قدیم کتابوں کا کھوج لگائیں تو حیرانگی کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوتی ہے کہ یہ کتابیں اسی دھرتی پر لکھی گئیں ۔ وسیب کے تباہ ہوئے شہروں کے نشان ،آثار قدیمہ کے کھنڈرات اور ان میں سے ملنے والی لکھتیں وسیب کی عظمت کی گواہ ہیں ۔ سرائیکی وسیب کے ساتھ ساتھ سارے جہان کے قدیم ادب کو پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پیار ، محبت ، سچائی اور اچھائی خدائی طاقت ہے اور اسی طاقت سے خدا کی ساری خدائی قائم ہے ۔ صوفی تاج گوپانگ کی کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ یہ صدیاں سچ نہ بولتیں تو کائنات تباہ ہو جاتی ۔
اگر ہم ان کی کتاب ’’ صدیں سچ الایا‘‘ کی بات کریں تو وہ اپنے وقت کی ایسی کتاب ہے جو سرائیکی تو کیا دوسری زبانوں کے ادب سے اس کی حیثیت منفرد اور جدا ہے ، کتاب میں آدم سے لیکر اب تک مختلف زبانوں میں ہونے والی شاعری کا سرائیکی میں منظوم ترجمہ پیش کیا گیا ، یہ کتاب سرائیکی کیلئے اتنا بڑا کام ہے جس کی الفاظ میں تعریف کرنا مشکل ہے۔ صوفی تاج گوپانگ ایک صوفی ہے، صوفی انسان دوست ہوتا ہے، انسان کو انسان کے ساتھ ملاتا ہے، بندے کو بندے کی پہچان کراتا ہے ، تاج گوپانگ نے ہمیں کائنات کی شاعری اور کائنات کے کلاسیکل ادب کی پہچان کرائی، سرائیکی قوم اس کا یہ احسان کبھی نہیں اتار سکے گی ۔ چاہے کلاسک رومن زبان کا لفظ ہے پر اب یہ ساری زبانوں کے فنون لطیفہ ،ادب اور ثقافت کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔
شاعری کے میدان میں کلاسک اس کو کہا جاتا ہے جو شاعری چاہے پرانی ہو مگر ہر دور میں نئی لگے ۔ صرف ایک نہیں بلکہ ہر زمانے کیلئے ہو، اسلوب سادہ ، میٹھا اور من کو بھانے والا ہو ۔ میں اپنے دفتر میں دوستوں کے ساتھ اچھی اور کلاسک شاعری بارے بات کر رہا تھا اور میں کہہ رہا تھا کہ اچھی شاعری وہ ہے جو سمجھ آئے ، اس میں سبق ہو ، انسان میں اچھائی ، بہتری اور ترقی کی بات ہو ،ہر وقت اور ہر زمانے کیلئے ہو ، شاعری وہ ہو جو ہوا اور خوشبو کی طرح محسوس ہو ، کسی کے ہاتھ نہ آئے مگر اپنی مہک سب کو پہنچائے۔ اچھی شاعری کے ساتھ ساتھ یہ بات ضروری ہے کہ شاعر آپ بھی اچھا ہو اور سخی ، ہمدرد اور غمگسار ہو اور جھوٹا یا جھوٹوں کا دوست نہ ہو ۔
اس کے نتیجے میں صوفی شعراء کے کلام کی طرح شاعری با اثر اور طاقتور ہو جاتی ہے ۔ میری لمبی بات سے تنگ آ کر ایک دوست بولا آپ نے جتنے اوصاف گنوائے ، یہ شاعر نہ ہوا کوئی پیمبر ہوا ، میں نے کہا کہ جی ہاں ! شاعری شیوہ پیغمبری ہے، میں نے کہا کہ شاعر اور اس کی شاعری کو آپ مجنوں کی بات نہ سمجھیں ، قوموں کی ترقی میں شاعری کا بڑا عمل دخل ہے ، یوں سمجھیں کہ شاعری زندگی کا پیغام ہے ۔ صدیں سچ الایا پیش کر کے صوفی تاج گوپانگ نے میری بات کو سچ کر چھوڑا، انہوں نے ثابت کیا کہ شاعری آج سے نہیں ازل سے مقدم ہے ۔ صدیں سچ الایا میں شاعروں کی جو فہرست موجود ہے ،صرف اس کو دیکھ لیں تو کتاب کی بڑائی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ کتاب میں‘ میں نے جس کی شاعری دیکھی اس میں اچھائی کی بات اور خدا کی تعریف نظر آئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیار ، محبت اور اچھائی کا نام خدا اور خدا کا نام اچھائی، پیار اور محبت ہے ، یہی آج کے صدی کا سچ ہے ۔ صوفی تاج گوپانگ نے سرائیکی زبان میں اپنے موضو ع کی واحد اور انوکھی کتاب پیش کی ۔ مجھے یقین ہے کہ صدی کا یہی سچ ہے کہ یہ کتاب اور پیغام نہ صرف آپ زندہ رہے گی بلکہ صوفی تاج گوپانگ اور انکی بستی کوٹلہ خدائی کو بھی صدیوں تک زندہ رکھے گی اور جیسا کہ بابا بلھے شاہ سئیں نے فرمایا ’’ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں ، گور پیا کوئی ہور‘‘ ۔ صوفی تاج گوپانگ زندہ رہیں گے اپنی خوبصورت یادوں اور اپنے دانش کے ساتھ ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ