دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

12 پکسل کا نیلا نقطہ۔۔۔ اشفاق نمیر

ہمیں اپنے آپ کو سنوارنے کے لیے اس تصویر سے بہتر کوئی اور مثال نہیں مل سکتی ہے

اشفاق نمیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

‏1981ء میں ناسا کے ماہرِ فلکیات کارل سیگن نے کہا کہ وائیجر1 جو سیارہ زحل کے پاس سے گزر رہا ہے سے زمین کی ایک تصویر اتاری جائے سیگن یہ تصویر سائنسی مطالعے کے لیے نہیں لینا چاہتے تھے بلکہ اس تصویر سے کائنات میں زمین کی موجودگی ‏کا اندازہ لگانا تھا اس تصویر میں روشنی کی چند لکریں لہراتی ہوئی نظر آئیں اگر اس تصویر کو غور سے دیکھیں تو اس میں بھورے رنگ کی پٹی پر ایک اعشاریہ نظر آتا ہے جو 12 پکسل کا مدھم سا نیلا نقطہ ہے آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ یہ مدھم نیلا نقطہ ہماری زمین ہے کارل سیگن نے اس تصویر کو دیکھنے کے بعد اس تصویر پر تبصرہ کیا تھا جس کا مفہوم درج ذیل ہے کارل سیگن کہتےہیں

"جس دوری سے تصویر لی گئی ہے دُوری کے اِس مقام سے زمین شاید کسی خاص دلچسپی کا باعث نہیں ہو گی لیکن ہمارے لیے یہ معاملہ گہری دلچسپی کا حامل ہے زمین کے اُس نقطے پر غور کریں تو آپ کو احساس ہو گا کہ یہی وہ نقطہ ہے جہاں ہم رہتے ہیں جہاں پر ہمارا گھر ہے اس نقطہ میں ہم موجود ہیں یوں سمجھ لیں کہ وہ نقطہ ہم ہیں وہ تمام لوگ جو آپ کو جان سے زیادہ پیارے ہیں وہ تمام لوگ جن کو ‏آپ جانتے ہیں جن لوگوں کے بارے میں آپ کبھی کبھار سنتے رہتے ہیں وہ تمام انسان جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں جو کبھی اس دنیا میں رہتے تھے سب لوگ اسی نقطے پر زندگی گزار کے گئے اور اب ہم اسی نقطے پر زندگی گزار رہے ہیں ہماری ساری خوشیاں اور ہم سب کے سارے دکھ اسی نقطہ پر ہوتے ہیں اس نقطہ پر ہزاروں مذاہب، نظریات اور معاشی عقائد کے لوگ بستے ہیں تمام شکاری اور متلاشی، سارے بہادر

اور بزدل اسی نقطہ پر آباد ہیں تمام تہذیبوں کے بانی اور سارے تخریب کار، سارے بادشاہ اور فقیر، ہر ‏محبت اور نفرت کرنے والا، سارے والدین، موجد اور محقق، اخلاقیات کے سارے استاد، سارے سیاستدان، سارے سُپر سٹار، سب عظیم لیڈر، سارے درویش اور گناہگار غرض جو کوئی بھی بنی نوعِ انساں میں گزرا یا زندگی گزار رہا ہے سب نے اُسی نقطہ پر زندگی گزاری اور گزار رہے ہیں زمین کائنات کے وسیع و عریض میدان میں موجود ایک بہت چھوٹا سا معمولی نقطہ ہے ذرا ‏خون کے ان دریاؤں کے بارے میں سوچیں جو تمام فوجی جرنیلوں اور حکمرانوں نے صرف اس لیے بہا دیے کہ ان کی حکومت قائم رہ سکے تاکہ وہ اپنی فتح اور عظمت کے نشے میں رہ کر اس نقطے کے ایک چھوٹے سے حصے کے وقتی طور پر مالک بن سکیں ان ناختم ہونے والے مظالم کا تصور کیجیے جو اِس 12پِکسل کے ایک چھوٹے سے نقطے کے ایک چھوٹے سے کونے کے باشندوں نے کسی دوسرے کونے کے باشندوں پر ‏ڈھاۓ ہوں گے اور ڈھاتے ہیں، ان کے اختلاف کتنے بڑے ہیں کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور مار ڈالنے کے لیے بےچین ہیں ان لوگوں کی نفرتیں کس قدر شدید ہیں یہ ہماری خام خیالی ہے اور ہمارا یہ احساسِ اہمیت خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ ہم کائنات کی کوئی بلا چیز ہیں اور ہم اس پوری کائنات میں کوئی اعزازی مقام رکھتے ہیں ایسے سب لوگوں کو مدھم سی روشنی کا یہ چھوٹا سا نقطہ چیلنج کرتا ہے ہمارا چھوٹا سا سیّارہ اس کائنات کی عظیم ‏اور اپنی لپیٹ میں لے لینے والی تاریکی میں ایک تنہا ذرہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے گُمنامی کے اس وسیع و عریض جہان میں کہیں سے کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا جو ہمیں خود اپنے آپ سے بچانے کے لیے کسی اور جگہ سے کوئی مدد کو پہنچ سکے زمین ابھی تک وہ واحد معلوم دنیا ہے جہاں زندگی کا وجود ہے کم ازکم مستقبل قریب میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے ‏جہاں ہماری نسل ہجرت کر کے جا سکے یہ بات آپ کو اچھی لگے یا بری لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ فی الوقت زمین ہی ہمارا مسکن ہے کہتے ہیں کہ فلکیات کا علم آپ میں عاجزی اور انکساری پیدا کرتا ہے اور آپ کی شخصیت اور کردار کی تعمیر کرتا ہے انسانی تکبر کی نادانیوں کا سب سے بہترین مظاہرہ ہماری چھوٹی سی دنیا کی اس تصویر کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے میریے خیال میں یہ تصویر ہماری اس ذمہ داری کو اور زیادہ واضح کرتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ خوشدلی اور محبت سے پیش آئیں اور اس مدھم سے اس نیلے نقطے کی حفاظت کریں کیونکہ یہی وہ گھر ہے جس پر ہم سانس لے سکتے ہیں”

ہمیں اپنے آپ کو سنوارنے کے لیے اس تصویر سے بہتر کوئی اور مثال نہیں مل سکتی ہے

ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور اپنی ترجیہات پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے کیا ہم ایسے نظریات کے پیچھے آنکھیں بند کر کے تو نہیں چل رہے جن کی بنیاد خوف، لالچ اور لاعلمی پرمبنی ہیں؟ ‏اور کیا ہم ایسے نظریات کے غرور میں ہم دوسرے انسانوں کو کمتر سمجھتے ہیں؟ ان نظریات اور من گھڑت کہانیوں کو سچ سمجھتے ہوۓ انسانوں کی جان لینے اور دینے میں فخر محسوس کرتے ہوں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ زمانہ تو قیامت کی چال چل گیا اور ہم ابھی تک پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں اپنی ترجیحات پر غور کرنے کی ضرورت ہے اس زمین کو امن کی چڑیا اور اس نیلے نقطے کو سنوارنے کے لیے اس تصویر سے بہتر کوئی اور مثال نہیں مل سکتی

About The Author