حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاسی جماعتوں کے درمیان فکری اختلاف فطری بات ہے مگر جس طرح کی زبان پچھلی چند دہائیوں سے سیاسی جماعتوں کے متعلقین استعمال کررہے ہیں اور خصوصاً اب فیس بکی مجاہدین کے لشکر اس پر رونا آتا ہے۔
اس پر ستم یہ ہے کہ سستے رومانی ناولوں اور رومانس کے تڑکوں سے بھری تاریخ پڑھے دانش کی جگالی کرنے والوں نے اَت اُٹھا رکھی ہے۔
یہ دن بھی ہماری نسل کی قسمت میں لکھے تھے کہ اب لوگ مراسم دنیا کے لئے بھی ذات پات کے ساتھ مسلک پوچھتے ہیں۔
کیا دن بدل سکیں گے؟۔
پھر سے مخالفین کے لئے احترام و توقیر بھرے جذبات والے سیاسی کارکن اور صاحبان جُبہ ودستاراس سماج میں زندگی کے حسن کو دوبالا کریں گے؟۔
یہ سوال جب کبھی منہ اٹھائے آن کھڑا ہوتا ہے تو دُکھ سے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
گو ہمہ وقت اور سدا کا اُمید پرست ہوں اور اس بات پر یقین کامل ہے کہ وہ دن نہیں رہے تو یہ بھی نہیں رہیں گے۔ دن بدلتے ہیں۔ دن رات میں اور رات دن میں۔ زمانہ آگے بڑھتا ہے۔
پر وائے ہو اس جہل و تعصب پر جس نے پاکستانی سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔
اب تو حالت یہ ہے کہ پہلے منبروں پر بندر ناچتے تھے اب لگڑ بگڑ شکلوں والے گالیوں سے خطابت کا حُسن بڑھاتے ہیں۔
اس پر بھی واہ واہ ہو رہی ہوتی ہے۔
بیسواؤں کی اخلاقیات کے چرچے ہوتے تھے جتنے ان دنوں اس سے زیادہ چرچے مذہبی رہنماؤں کی منبروں پر نکالی گئی گالیوں کے ہیں۔ علم و فہم منہ چھپائے پھرتے ہیں۔
دانش نے بن باس لے لیا۔ اب یہاں وہ اُجلے نتھرے لوگ کہاں سے آئیں گے جو کہتے تھے۔ اخلاق سے دل فتح کئے
جا سکتے ہیں۔
زندگی کے کسی شعبے کو دیکھ لیجئے سب کا یہی حال ہے۔ سماجی اقدار کو روندتے چلے جانے والے معزز ٹھہرتے ہیں۔ فقیر راحموں کے بقول یہ سارے گورکھ دھندے ایک سازش کے تحت پروان چڑھائے گئے۔
میری رائے مختلف ہے۔ فصل وہی اٹھائی جاتی ہے جسکا بیج بویا جائے دھان(چاول) بو کر گندم اُگنے کا انتظار کم عقلی ہے۔
انتہاؤں میں تقسیم معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اس کے مذہبی منبروں اور سیاسی سٹیجوں سے اوئے توئے، تو تکار سے بات آگے بڑھ چکی۔ دینداروں اور دنیا داروں کی پوری پوری بدتیمز نسلیں دندناتی پھرتی ہیں۔
- زندگی کے دُکھ اس سے سوا بھی ہیں۔ مہنگائی کی بدترین لہر کا سامنا ہے لوگوں کو۔ ریاستی وسائل جن پر 22کروڑ لوگوں کا مساوی حق تھا چند صد خاندانوں کی ملکیئت ہوگئے بس چہرے بدلتے ہیں۔ کبھی لباس، نظام وہی ہے استحصالی نظام، لُٹیروں کا یہ نظام کب تک ہمارے گلوں کا طوق بنا رہے گا۔
کسی کو خبر نہیں۔ موت کے سوا ہر چیز مہنگی ہے یہاں۔ ویسے اب موت بھی مہنگی پڑتی ہے مگر پیچھے رہ جانے والوں کو جنہیں کفن دفن ، سوئم دسویں اور چہلم کے ساتھ چھ ساتھ جمعراتیں بھی بھگتانا پڑتی ہیں۔
کچھ زیادہ مایوسی بھری باتیں نہیں ہوگئیں۔لیکن کیا آدمی چار اور کے حالات سے کٹ کر جی سکتا ہے؟۔
سادہ سا جواب ہے آدمی ہوتو حالات کو بھی موسموں کی طرح محسوس کرتا ہے۔
پچھلی شب ایک دوست نے سوال کیا۔ آخر اس ملک کے عوام کے لئے کوئی کیوں نہیں سوچتا؟۔
عرض کیا بات کڑوی ہے لیکن سُن برداشت کرلیجئے۔
رعایا کو عوام تو بنائیے۔ ہر سُو غلام مارے مارے پھرتے ہیں۔ جب لوگوں میں ناک سے آگے نہ دیکھنے کا مرض پروان چڑھ جائے تو یہی ہوتا ہے۔
جو ہل چلاتے بیلوں اور پانی ڈھوتے جانوروں کے ساتھ ہوتا ہے۔
تبدیلی یا انقلاب کاشت نہیں ہوتے۔
یہ موسمی پھل ہرگز نہیں کہ بازار سے لے آئیں گے۔
آگہی کا نور اور پرعزم جدوجہد لازم ہیں دونوں کے لئے۔ بدقسمتی سے اب نہ تو آگہی کا نور پھیلانے والے ہیں اور نہ پرعزم جدوجہد کرنے والے۔
سیاسی جماعتوں کی حالت خاندانی کمپنیوں کی سی ہے۔ ملازم ملازم اور مالک مالک رہتے ہیں۔
رعایا کو عوام اور کمپنیوں کو سیاسی جماعتیں بنانا ہوگا۔کڑوا سچ یہی ہے کہ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں اس میں جی ہی لیں تو غنیمت ہے۔
سب اچھا تھا نہ ہے۔ ہونے کی امید کی جا سکتی ہے
اگر لہو سے چراغ جلانے والے فرزانے میدان عمل میں اُتریں اور تاج و تخت اچھال دیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ