عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سچی کہانی ہے چکوال کے ایک چرواہے کی۔ وہ اچھا خاصا گاؤں کی زمین پہ بکریاں چراتا تھا۔ بکریاں اس کے اشارے سمجھتی تھیں وہ بکریوں کی زبان سمجھتا تھا۔
پھر نجانے کیسے یہ سرکاری نوکری والی چُل اٹھی اور اس کی جانب سے درخواست جمع کرا دی۔ اسے نوکری مل گئی دو گریڈ کےسرکاری بیل دار کی، یعنی بیلچے یا کرچھے سے زمین کھود کر نرم کرنے والا، جھاڑیاں کاٹنے والا بیل دار۔
اس بیل دار کی زبانی مجھے علم ہوا کہ سرکار میں مالی کا بھی کوئی اسسٹنٹ یعنی معاون ہوتا ہے جو بیل دار کہلاتا ہے۔ یہ دبلا پتلا سا جوان سخت محنت کا عادی تھا۔ اس کی ڈیوٹی اسلام آباد کی سبزی منڈی میں لگ گئی۔
منڈی انتظامیہ نے اسے منڈی کے مرکزی رستوں پر جمی تجاوزات ہٹانے کا کام دے دیا۔ کہانی یہیں سے سنگین رخ اختیار کر گئی۔
بکریاں بیچاری ہوتی ہیں انہیں ہانکنا آسان تھا، یہاں سامنے پتھارے دار تھے جن کی دیہاڑی، روزی روٹی، آڑھتی سے قرض پر اٹھائی سبزی مختصر یہ کہ کُل جمع پونجی اس پتھارے پہ دھری ہوتی ہے۔ بیل دار نے غیرقانونی پتھارے ہٹانے کا کہا تو کسی نے نہیں مانا۔ اس نے پلٹ کر صاحب کے دفتر عرضی پیش کی کہ ہٹاوں تو کوئی ہٹتا نہیں، کیا کروں!
باضابطہ تو خیر کیا ہی جواب ملنا تھا، منڈی کے ساتھیوں نے بتایا کہ جو پتھارا نہ ہٹائے اس کی سبزی پھل اور پتھارا اٹھا کر منڈی کے دفتر میں جمع کرانے کا تمھیں اختیار ہے۔ یہ سننا تھا کہ یہ سرکار کی طاقت کا سوچ کر اور چوڑا ہوگیا۔ اگلے دن یہی کیا۔ مگر کیا دیکھتا ہے ٹھیلے، خوانچے اور پتھارے یہی کوئی پندرہ بیس منٹ بعد وہیں کھڑے تھے جہاں سے اٹھائے تھے۔ سوچنے لگا یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔
یوں دن پہ دن گزرتے رہے اور بیل دار کو سمجھ آنے لگی کہ غیرقانونی پتھارہ لگانے والا پہلے ان بیل داروں یا چوکی داروں کی جیب گرم کرتا ہے۔ بات یہاں نہ بنےتو یہ جس کے پاس سے مال اٹھاتا ہے اس آڑھتی سے شکایت کرتا ہے۔
آڑھتی کی ڈائریکٹ صاحب کے دفتر تک پہنچ ہوتی ہے۔ بات وہاں تک تو بن ہی جاتی ہے اور نہ بنے تو پھر منڈی کے بڑے ڈیلرز تو کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیتے ہیں۔ تجاوزات لگانے اور ہٹانے کا یہ ایسا سیٹ اپ ہے جس میں سب ایک دوسرے سے خوش ہیں۔
شانے پہ مار کھانے کے کئی داغ، پھوٹی ہوئی ایک آنکھ اور گہری چوٹ سے دُکھتا گھٹنا لیے وہ میرے سامنے بیٹھا اپنی کتھا سنا رہا تھا۔ ساتھ میں کہتا جاتا: ’باجی مجھے گاؤں سے والد نے یہ کہہ کر بھیجا تھا کہ بیٹا حرام نہیں کھانا، پتھارے داروں سے مار کھانے اور پیچھے سے اپنے دفتر والوں کے انجان بن جانے کے بعد سمجھ آگئی کہ اس سرکاری نوکری کے دو ہی اصول ہیں یا تو کرپشن کرو یا گھر بیٹھو۔‘
اسی بیل دار کی کہانی ان ہزاروں پر بھی پوری اترتی ہے جو پولیس میں سپاہی یا کانسٹیبل ہیں، جو زمینوں کی رجسٹریشن کے محکمے میں کلرک ہیں، جو ٹریفک سارجنٹ ہیں یا پھر بلدیاتی اداروں میں ملازم ہیں۔ کبھی کبھی سسٹم ان چھوٹے گریڈ والوں کو راشی اور مُرتشی کے بیچ میں پیس کر رکھ دیتا ہےکہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔
کراچی میں اسی نچلے درجے کے ایک سرکاری ملازم سے کچھ عرصہ قبل ملاقات ہوئی تھی جس کے افسر نے اس کی ڈیوٹی دفتر کی بجائے اپنے گھر پہ لگا رکھی تھی۔ میں نےسوچا کہ ہوگا کوئی بڑا افسر لیکن پوچھنے پہ پتہ چلا وہ افسر نہیں گیارہ گریڈ کا سرکاری ملازم تھا مگر رشوت کھانے کے ایسے سائنسی طریقے آتے تھے کہ بڑے بڑے افسران بھی اپنا حصہ لیتے اور اس سائنس دان کے آگے پانی بھرتے تھے۔
یہ دو گریڈ کے ایک سرکاری ملازم کا شکوہ ہے جو کرپشن کے اس معمولی سے گورکھ دھندے میں خود کو اجنبی محسوس کر رہا ہے۔ آپ کو سرکاری دفاتر میں اس چرواہے جیسے اور بھی کئی ملازم ملیں گے جن بیچاروں کو ان کے ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی کہ بیٹا حرام کما کر جہنم نہیں بھرنا۔
بات ہو رہی ہے چھوٹے چوروں، رشوت خور مافیا کے ہرکاروں، سرکاری فائلیں کھاجانے والے بھوتوں یعنی کرپشن کی دنیا کے گمنام سپاہیوں کی۔ رشوت خور کلرک نہ ہو تو جیسے سرکاری دفتر کچھ ادھورا سا سُونا سُونا سا لگتا ہے۔ ان کے دم سے دفتری نظام میں جیب بھری رکھنے کا انتظام خوب ہوتا ہے۔
بعض سرکاری دفاتر میں تو افسران کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ کلرکوں نے کتنی اندھی مچا رکھی ہے۔ یہ نماز، چائے اور کھانے کی بریک کے دوران بچنے والے تھوڑے بہت وقت میں اپنے ہاتھ کا کام دکھا جاتے ہیں۔ یہ فائل صاحب کے سامنے جانے سے پہلے اس کی قیمت لگا چکے ہوتے ہیں۔
بڑے کرپٹ عناصر جنہیں وزیر اعظم عمران خان پہلے اپنا دوست اور اب مافیا کہتے ہیں انہیں مگرمچھ کہہ لیجیے، پھر بیوروکریٹس ہیں جنہیں آپ سرکاری تالاب میں بڑی مچھلیاں سمجھ لیں۔ یہ جو گند کریں وہ دور سے نظر آ جاتا ہے، انہیں ہٹایا جاتا ہے، شکار کیا جاتا ہے، نیب، اینٹی کرپشن اور سرکاری قوانین کے جال میں پھنسایا جاتا ہے۔
لیکن تالاب کو مستقل گندہ رکھنے کی قصور وار وہ لاکھوں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی ہیں جو بڑے تانے بانوں سے بُنے جال کے بیچ سے نکل جاتی ہیں۔ یہ سرکاری سسٹم کی جڑ میں بیٹھے چھوٹے گریڈ کے کرپٹ ملازمین ہیں۔ انہیں اطمینان ہے کہ وہ پاکستان میں ہیں یعنی کم از کم اس دنیا میں تو ان کا حساب کتاب نہیں ہونے والا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ