نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجن پور کی خبریں

راجن پورسے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

حاجی پورشریف

(ملک خلیل الرحمن واسنی)

ڈی جی، داجل،قادرہ کینالز میں پانی کی بندش غریب کسان گندم اور دیگر فصلات کی بوائی کے لئے شدید پریشانی کا شکار سینکڑوں کلومیٹرز پر مشتمل لاکھوں ایکڑ رقبہ سیراب

اور لاکھوں جانداروں کو پینے کا پانی مہیاء کرنے والی کینالز صوبائی وزیر آبپاشی ضلع راجن پور سے ہونیکے باوجود سالانہ نہ ہوسکیں

انسانوں کیساتھ دیگر جاندارپانی کی بوند بوندکو ترس گئے نہروں کو سالانہ کرنے کا مطالبہ

تونسہ بیراج سے نکلنے والی سینکڑوں کلومیٹرز پر مشتمل ڈی جی کینال اور اس سے نکلنے والی داجل کینال ،

قادرہ کینال اور ان سے نکلنے والی درجنوں سب کینالز سینکڑوں چھوٹی چھوٹی نہریں، ندی نالے خشک ہوچکے ہیں جو کہ لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلات کی سیرابی اور لاکھوں انسانوں چرند،پرند اور جانداروں کوپینےکا پانی بھی مہیاء کرتے ہیں

اورہیڈ تونسہ شریف سے لیکر روجھان کے ٹیل تک پانی پہنچانے والی نہروں میں پانی کی کئی ہفتوں سے بندش کے سبب انسان اور جاندار پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں،کیونکہ زیر زمین پانی کڑوا اور انتہائی مضر صحت ہے جوکہ

فصلات کی سیرابی کے لیئے بھی زرعی ماہرین کیمطابق مناسب نہیں ہے.سولر سسٹم ،ڈیزل ، پٹرول کی قیمتیں بھی غریب کسان کی استطاعت سے باہر ہیں

اور کئی مرتبہ صوبائی وزیر آبپاشی پنجاب ضلع راجن پور سے ہونیکے باوجود بھی یہ نہریں سالانہ نہ ہوسکیں،

اور سب سےبڑھ کر ظلم آج بھی پانی کی فراہمی اور بندش کا شیڈول لاہور سے جاری ہوتا ہے حالانکہ اسکو مقامی سطح پر لایا جائے اور چھوٹے غریب کسان ، کاشتکار ، زمیندار کی مشاورت سے پانی کی فراہمی اور بندش کا شیڈول جاری ہوناچاہیئے

تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو.جبکہ غریب کسان پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہے درج بالا نہریں ششماہی ہونے کے بوجود پورے 6 مہینے بھی مکمل نہیں چلتیں،سابقہ ادوار میں ان نہروں میں سال بھر پانی کی فراہمی کے لئے لاہورکی پنجاب اسمبلی،

اسلام آباد کے اعلی ایوانوں تک پیدل لانگ مارچ کیئے گئے،کمشنر ڈی جی خان ڈپٹی کمشنر راجن پور ،چیف انجینئر انہار،ایکسیئن،ایس ڈی او انہار کے دفاتر کےسامنے دھرنے دیئےگئے ہیڈ تونسہ ہر بھی دھرنے دیئے گئے

احتجاج ریکارڈ کرائے گئے مگر بدقسمتی سے ہردور میں ظلم و زیادتی اور وسیب کے ساتھ استحصال تو کیا گیا مگر کوئی بھی اس مظلوم طبقے کا اور یہاں کے پسماندہ وسیب کا پرسان حال نہ ہوا،

اور ملکی و معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا کسان شدید پریشانی اور ذہنی اذیت کا شکار ہےاور کوئی اسکی سننے والا نہیں ہے،ان نہروں کے آبنوش کسانوں ، کاشتکاروں ،

زمینداروں اور علاقہ مکینوں نے ” ڈیلی سویل ” کے توسط سے وزیر اعظم پاکستان،،وزیر اعلی پنجاب، وفاقی وزیرآبپاشی،

حلقہ پی پی 293 کے ایم پی اے صوبائی وزیر آبپاشی سردار محسن خان لغاری،چیف سیکریٹری پنجاب،

سیکریٹری انہارپنجاب،کمشنر ڈی جی خان ،چیف انجینئر انہار اور ڈپٹی کمشنر راجن پور سے ان نہروں کو سالانہ کرنےاور فی الفور پانی کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::؛.

: حاجی پورشریف

(ملک خلیل الرحمن واسنی)

ڈی جی، داجل،قادرہ کینالز میں پانی کی بندش غریب کسان گندم اور دیگر فصلات کی بوائی کے لئے شدید پریشانی کا شکار سینکڑوں کلومیٹرز پر

مشتمل لاکھوں ایکڑ رقبہ سیراب اور لاکھوں جانداروں کو پینے کا پانی مہیاء کرنے والی کینالز صوبائی وزیر آبپاشی ضلع راجن پور سے ہونیکے باوجود سالانہ نہ ہوسکیں

انسانوں کیساتھ دیگر جاندارپانی کی بوند بوندکو ترس گئے نہروں کو سالانہ کرنے کا مطالبہ

تونسہ بیراج سے نکلنے والی سینکڑوں کلومیٹرز پر مشتمل ڈی جی کینال اور اس سے نکلنے والی داجل کینال ، قادرہ کینال اور ان سے نکلنے والی درجنوں سب کینالز سینکڑوں چھوٹی چھوٹی نہریں، ندی نالے خشک ہوچکے ہیں

جو کہ لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلات کی سیرابی اور لاکھوں انسانوں چرند،پرند اور جانداروں کوپینےکا پانی بھی مہیاء کرتے ہیں اورہیڈ تونسہ شریف سے لیکر روجھان کے ٹیل تک پانی پہنچانے والی نہروں میں پانی کی کئی ہفتوں سے بندش کے سبب انسان اور جاندار پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں،

کیونکہ زیر زمین پانی کڑوا اور انتہائی مضر صحت ہے جوکہ فصلات کی سیرابی کے لیئے بھی زرعی ماہرین کیمطابق مناسب نہیں ہے.سولر سسٹم ،ڈیزل ، پٹرول کی قیمتیں بھی غریب کسان کی استطاعت سے باہر ہیں

اور کئی مرتبہ صوبائی وزیر آبپاشی پنجاب ضلع راجن پور سے ہونیکے باوجود بھی یہ نہریں سالانہ نہ ہوسکیں،

اور سب سےبڑھ کر ظلم آج بھی پانی کی فراہمی اور بندش کا شیڈول لاہور سے جاری ہوتا ہے حالانکہ اسکو مقامی سطح پر لایا جائے اور چھوٹے غریب کسان ، کاشتکار ، زمیندار کی مشاورت سے پانی کی فراہمی اور بندش کا شیڈول جاری ہوناچاہیئے تاکہ

کسی کی حق تلفی نہ ہو.جبکہ غریب کسان پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہے درج بالا نہریں ششماہی ہونے کے بوجود پورے 6 مہینے بھی مکمل نہیں چلتیں،

سابقہ ادوار میں ان نہروں میں سال بھر پانی کی فراہمی کے لئے لاہورکی پنجاب اسمبلی،اسلام آباد کے اعلی ایوانوں تک پیدل لانگ مارچ کیئے گئے،کمشنر ڈی جی خان ڈپٹی کمشنر راجن پور ،چیف انجینئر انہار،

ایکسیئن،ایس ڈی او انہار کے دفاتر کےسامنے دھرنے دیئےگئے ہیڈ تونسہ ہر بھی دھرنے دیئے گئے احتجاج ریکارڈ کرائے گئے مگر بدقسمتی سے ہردور میں ظلم و زیادتی اور وسیب کے ساتھ استحصال تو کیا گیا مگر کوئی بھی

اس مظلوم طبقے کا اور یہاں کے پسماندہ وسیب کا پرسان حال نہ ہوا،اور ملکی و معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا کسان شدید پریشانی اور ذہنی اذیت کا شکار ہےاور کوئی اسکی سننے والا نہیں ہے،

ان نہروں کے آبنوش کسانوں ، کاشتکاروں ،زمینداروں اور علاقہ مکینوں نے ” ڈیلی سویل ” کے توسط سے وزیر اعظم پاکستان،،وزیر اعلی پنجاب،

وفاقی وزیرآبپاشی، حلقہ پی پی 293 کے ایم پی اے صوبائی وزیر آبپاشی سردار محسن خان لغاری،چیف سیکریٹری پنجاب،سیکریٹری انہارپنجاب،

کمشنر ڈی جی خان ،چیف انجینئر انہار اور ڈپٹی کمشنر راجن پور سے ان نہروں کو سالانہ کرنےاور فی الفور پانی کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

: حاجی پورشریف

( ملک خلیل الرحمن واسنی )

ضلع راجن پور ہردور میں میگا پراجیکٹس سے محروم یا پراجیکٹس یونیورسٹی کیطرح دوسرے شہروں میں منتقل،

مقامی سیاستدان اور مقامی ممبران قومی وصوبائی اسمبلی بھی ذاتی مفادات کے حصول تک محدود،محرومیوں اور استحصال کے خاتمے کے لئے ماڑی کیڈٹ کالج کا قیام عمل

میں لایا جائے آرمی چیف ومتعلقہ حکام سے پرزور مطالبہ

ضلع راجن پور اور حاجی پور شریف کے عوامی سماجی،مذہبی،صحافتی حلقوں نے "ڈیلی سویل "کے توسط سے پاکستان آرمی کے چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور

متعلقہ حکام سے بھر پور مطالبہ کیا ہےکہ ضلع راجن پور کی محرومیوں کے خاتمے اور ہر دور میں کیئے گئے

استحصال کے ازالے کے لئے ضلع راجن پور میں قدرتی صحت افزاء مقام ٹھنڈک سے بھر پور قدرتی حسن سے مالامال کوہ سلیمان کے دامن میں ماڑی کیڈٹ کالج کا قیام عمل میں

لایا جائے کیونکہ سابقہ ادوار میں بھی اس حوالے سے باتیں تو کی گئیں مگر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی.کیونکہ یہ علاقہ سابقہ ادوار میں نوگو ایریا تصور کیاجاتاتھا

اور جرائم پیشہ افراد اور انکے پشت ہناہوں کیخلاف ضرب عضب کی طرزپر ضرب آہن ون اور ضرب آہن 2 جیسے آپریشن عمل میں لائےگئے .

کیڈٹ کالج کے قیام سےآئےروز بڑھتی جرائم کی وارداتوں میں خاطر خواہ کمی کیساتھ ساتھ یہاں کے عوام میں احساس کمتری کےخاتمے ترقیاتی کاموں میں اضافے اور

بہتر سے بہتر تعمیروترقی کے مواقع بھی میسر آسکیں گے.اور یہاں برسوں سے ذہنی اور جسمانی طور پر غلام ذہنیت اور غلام سوچ کے خاتمےاور سرداری،

جاگیرداری،تمن داری اوروڈیرہ شاہی کے سسٹم کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکے گا.کیونکہ قیام پاکستان سےقبل تاریخی حوالے سے یہ علاقہ خصوصی اہمیت کا حامل رہا ہے.

مگر قیام پاکستان کے بعد سے یہاں کے سیاستدانوں،مقامی ممبران قومی وصوبائی اراکین سینٹ صرف اپنے مفادات کے حصول تک محدود رہے

جس سے اجتماعی مفاد عامہ اور اجتماعی فلاح و بہبود کو یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا جس کی واضح ترین مثال انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا قیام ہے

جس کا افتتاح تو ضلع راجن پور میں ہوا مگر اس پراجیکٹ کو اسلام آباد منتقل کر کے یہاں کے غریب و مجبور و بے بس عوام کا استحصال کیا گیا

اور اعلی تعلیم کےحصول کو گھرکی دہلیز پر میسر ہونے کے پراجیکٹ کو ایک خواب ہی رہنے دیا گیا.جس کے سبب یہاں کے ہزاروں نوجوان طلبہ وطالبات دوسرے

شہروں کے دھکے کھانے پر مجبور ہیں یا اعلی تعلیم سے محروم ہیں اور آج بھی ضلع راجن پور میگا پراجیکٹس سے محروم ہے جبکہ ملک کے اور صوبہ پنجاب کے دیگر

شہروں اور علاقوں میں ترقیاتی کام عملی طور پر ہو بھی رہے ہیں اور اعلانات بھی کیئے جارہے ہیں، اور بدقسمتی سے ضلع راجن پور صرف اعلانات سے بھی محروم ہے

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

* تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی *

تحریر : ملک خلیل الرحمن واسنی( حاجی پورشریف)

کچھ حاصل کرنےکے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے دنیا کا کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا

آج ہم سہولیات کےفقدان کی باتیں کرتے ہیں بے شک انکی فراہمی ریاست اور حکومت کی ہے مگر کچھ اپنے حصے کا کام ہمیں بھی کرناچاہیئے

جس سے شاید ہم اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں اسکی ایک چھوٹی سی مثال ملک پاکستان میں دوادارے ہیں جو مزدور / ورکرز کی فلاح و بہبود کے لئے ہیں

مگر بدقسمتی کہیں یا المیہ یکم مئی عالمی طورپر یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن جس کے نام پر یہ دن ہے وہ روزی روٹی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے مزدوری میں بے

خبر مصروف ہوتا ہے اور لاتعلق لوگ یا یونین لیڈرز اس دن کو منارہے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح مزدور / ورکر بھی اپنے اس حق سے محروم اور ناواقف ہے.

محکمہ سوشل سیکیورٹی اور اولڈ ایج بینیفٹس ہیں جو مزدور / ورکر جو اس ادارے سے رجسٹرڈ ہوتے ہیں انہیں سہولیات فراہم کرتے ہیں محکمہ سوشل سیکیورٹی صحت( بیماری کی صورت میں ورکر اور اسکے لواحقین کا مفت علاج معالجہ )،

تعلیم(ورکر کے بچوں کی مفت ابتدائی تعلیم سے لیکر اعلی تعلیم تک) کی سہولیات ،خدانخواستہ کسی حادثے کیصورت میں مکمل طور پر معاونت جس میں معذوری پینشن ادارے سے بیماری کی صورت میں چھٹی پرمعاوضہ،فوتیگی کیصورت میں

ڈیتھ گرانٹ ، بچی کی شادی کیصورت میں میرج گرانٹ وغیرہ وغیرہ اسی طرح محکمہ اولڈ ایج بینیفٹس 15 سال سروس اور60 سال کی عمر ہونے پر بڑھاپا پینشن جوکہ اب -/8500 روپے ماہانہ ہے

یا 15 سے پہلےورکر کے فوت ہونیکی صورت میں اسکے لواحقین کو فوری طور ضروری کاروائی کھ بعد دی جاتی ہے

مگر اسکے لیئے شرط یہ ہے کہ ورکر جہاں کام کرتاہے وہ ادارہ، دوکان،فیکٹری،انڈسٹری رجسٹرڈ ہو اور اس ورکر کا ماہانہ کنٹری بیوشن بھی جمع ہورہا ہوں.اور وہ ادارہ،دوکان،فیکٹری، انڈسٹری جہاں کم سے کم 3 سے5 اورزیادہ سےزیادہ جتنا بھی

ورکر کام کرتے ہوں رجسٹر ہو سکتا ہے لیکن اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں کتنے ادارے ہیں کتنی دوکانیں ،کتنی فیکڑیاں اور کتنی انڈسٹریاں ہیں جہاں مزدور / ورکر کام کرتے ہیں اور علم و آگہی نہ ہونے کے سبب اس سہولت سے محروم ہیں اور اب رجسٹرڈ ورکر کی ماہانہ تنخواہ 17500 روپے ہے اور روزانہ کیصورت میں کم وبیش 700 روپےروزانہ اور ڈیوٹی ٹائم کے علاوہ اوور ٹائم اسکےعلاوہ ہے جوکہ نہیں دیجاتی

اگر اپنے علاقے میں اسطرف شعور و آگہی دی جائے تو یہاں کےلاکھوں نہیں تو ہزاروں ورکرز ضرور ہونگے اور انکے لاکھوں کی تعداد میں لواحقین اگر

یہ رجسٹرڈ ہوجائیں تو یہاں سوشل سیکورٹی کیطرف سے ورکرز ہسپتال ورکرز ویلفیئر سکولز ، کالجز، ورکرز کی رہائشی کالونیاں بن سکتی ہیں اور بڑھاپے یا معذوری کیصورت میں پینشن مل سکتی ہے

ورکر کے فوت ہونیکی صورت میں اسکےوالدین یابیوی بچوں کو پینشن اور مالی امداد ہوسکتی ہے

اور ہمارامعاشرہ معاشی طور پر مستحکم ہو سکتا ہے مگر اسکے لئے ورکر کی طرف سے ماہانہ کچھ کنٹری بیوشن ان دونوں اداروں میں جمع ہونا لازم ہے.

اور وہ ادارہ، دوکان،پٹرول پمپ ، بیکری،پرائیویٹ سکول،کارخانہ،فیکٹری،انڈسٹری رجسٹرڈ ہونی شرط ہے.

اگر اس طرف بھی توجہ دی جائے تو بہت کچھ بہتر اور ممکن بنایاجاسکتا ہے.

جزاکم اللہ خیرواحسن الجزاء فی الدنیا والآخرہ

About The Author