ماہِ مئی میں انتخابات ہوتے ہیں ،پی ایم ایل این برسرِ اقتدار آتی ہے ،مگر جلد ہی دھاندلی کا شُور اُٹھتا ہے اور دوہزار چودہ میں دوپارٹیاں، پی ٹی آئی اور پی اے ٹی، اسلام آباد کی اُور یلغار کرتی ہیں،ایک برس قبل منتخب حکومت اِ ن دونوں جماعتوں کے نزدیک جعلی ٹھہرتی ہے۔سولہ دسمبر دوہزار چودہ کو اے پی ایس کا سانحہ رُونما ہوتا ہے تو پی ٹی آئی کا دھرنا اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔
اگست سے دسمبر تک کا ساراعرصہ نعرے ،تقریروں،گالم گلوچ کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ، ایک طرف طاہرالقادری اور عمران خان تقریریں کرتے تو دوسری طرف اُن کا جواب دینے کے لیے حکومتی وزراء اور مشیر پریس کانفرنسیں کرتے۔ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر مسلسل ایک جیسی خبریں پھوٹنے لگیںاوراقتدار کی راہداریوں سے چوراہوں تک ایک ہی موضوع زیرِ بحث رہنے لگاتو اکتاہٹ کی دُھند نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔یہ دُھند معلوم نہیں کب چھٹتی کہ اے پی ایس کا سانحہ رُونما ہو پڑا۔
حکومت اور پاکستان تحریکِ انصاف جس بندگلی میں پہنچ چکے ہوتے ہیں ،وہاں سے مذکورہ سانحہ کی بدولت نکل آتے ہیں۔مجموعی طورپر دوہزار چودہ سیاسی نظام میں اُتھل پتھل ،انتشار اورعدم استحکام کا سال ثابت ہوتا ہے۔دوہزار پندرہ میں قدرے ٹھہرائو محسوس کیا جاتا ہے۔اسی سال بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہوتا ہے۔دوہزار تیرہ میں ہونے والے انتخابات کے فوری بعد مبینہ دھاندلی کا شور بھی اسی سال آکر تھمتا ہے۔جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد یوں محسوس ہوتاہے کہ سیاسی جماعتیں آگے کا سوچ رہی ہیںاوراب آگے کوئی بندگلی نہیں ہے۔
اسی سال بلدیاتی انتخابات اور ضمنی انتخابات ، قبل ازوقت عام انتخابات کے تاثر کو بھی زائل کردیتے ہیں۔یہ سال گزشتہ کی نسبت سیاسی استحکام کا حامل ٹھہرتاہے ۔دوسری طرف معاشی استحکام کی بنیاد بھی اسی سال پڑتی ہے۔سی پیک جیسا منصوبہ معاشی استحکام کی نوید سناتا ہے۔دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہو تاہے ۔اُس وقت کی حکمران جماعت کا جو سانس دوہزار چودہ میں اُکھڑا تھا،وہ دوہزار پندرہ میں بحال ہوتاہے ۔
فوج اور حکمران جماعت ایک صفحے پر نظر آتے ہیں۔اسی سال آصف علی زرداری اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کر کے اپنے لیے بندگلی کا انتخاب کرتے ہیں لیکن مجموعی طورپر دوہزار پندرہ سیاسی و معاشی استحکام کا سال ٹھہرتا ہے۔دوہزار سولہ کا سورج پھوٹتا ہے ۔پانامہ اسیکنڈل کا مرحلہ آن پہنچتا ہے۔
ایک بار پھر اُس وقت کے وزیرِ اعظم نوازشریف کے استعفیٰ کا مطالبہ گونج اُٹھتا ہے۔سیاسی عدم استحکام کی صورت حال جنم لے اُٹھتی ہے۔دوہزار چودہ کے بعد یہ دوسرا موقع ہوتا ہے ،جب میاں نوازشریف کو وزارتِ عظمیٰ چھن جانے کا احساس ہوتاہے۔یہ سال ایک بار پھر نعروں ،تقریروں ، پریس کانفرنسوں اور گالم گلوچ کی نذر ہوجاتا ہے۔دوہزارسترہ ،دوہزار سولہ کا تسلسل ٹھہرتا ہے ۔
میاں نوازشریف وزیرِ اعظم نہیں رہتے۔جی ٹی روڈ میدان سج جاتا ہے ،مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے گونج اُٹھتے ہیں۔نوازشریف پانامہ اسکینڈل کی بدولت نااہل ٹھہر کرایک بار پھر بندگلی میں جا پہنچتے ہیں۔دوہزار اَٹھارہ میں انتخابات ہوتے ہیں۔عمران خان صاحب کو کارکردگی دکھانے کا بھرپور موقع میسرآتا ہے۔جولائی دوہزار اَٹھارہ سے جولائی دوہزار اُنیس تک میڈیا اور اپوزیشن کی جانب سے نئی حکومت کی کارکردگی پر سوالات نہیں اُٹھائے جاتے ،سوالات اُٹھنے ہی لگتے ہیں کہ دوہزار بیس طلوع ہوتا ہے اور کورونا وباء اپنی یلغار میں لے لیتی ہے ۔
کورونا وباء کی دوسری لہر کے اعلان سے قبل اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف میدان میں آجاتی ہیں۔ پہلے جلسے کے بعد دوسرا ،پھر تیسرا جلسہ ہوتا ہے اور پھر بندگلی آجاتی ہے۔اِ س وقت ،حکومت اور اپوزیشن جماعتیں بند گلی میں ہیں۔یہ بند گلی ،ماضی کی بندگلیوں جیسی نہیں ہے۔یہ زیادہ تاریک اور تنگ ہے۔ایاز صادق کے بیان نے مسلم لیگ ن کو جہاں مزید مشکل میں ڈال دیا ہے ،وہاں پاک فوج کی دوبھارتی طیارے مارگرانے اور ایک پائلٹ گرفتار کرنے کی کامیابی کو بھی داغدار کرنے کی کوشش کی ہے ،مگر تاریخ جھٹلائی نہیں جاسکتی اور تاریخ یہی ہے کہ پائلٹ کی گرفتاری اور بعدازاں اُس کی رہائی نے پاکستان کو سفارتی و دفاعی سطح پر کامیابی سے ہمکنار کیا تھا،یہ وہ لمحہ تھا جب پاک فوج نے پاکستان کے عوام کو اعتماد بخشا تھا۔سابق وزیرِ اعظم اور اُن کی بیٹی جس لڑائی کو عوام کی لڑائی قرارا دے رہے ہیں ،اس پر سنجیدہ سوالات اُٹھتے ہیں ۔
جس وقت حکومت اور اپوزیشن جماعتیں تاریک و تنگ گلی میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں ،مَیں اور میرے جیسے کروڑوں عام پاکستانی کمیٹیاں ڈال رہے ہیں،دودونوکرایاں کررہے ہیں،یا نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھِر رہے ہیں اور فیوچر پلاننگ کررہے ہیں ۔ حالانکہ کمیٹیاں ڈال کر موٹرسائیکل،چھوٹی موٹی گاڑی یا شہر سے دُور تین چارمرلے کا پلاٹ خریدنے والے ،نوکریوں کی تلاش اور فیوچر پلاننگ کرنے والے ہی بنیادی طورپر بندگلی میں ہیں۔عام پاکستانیوں کو بند گلی میں دھکیلنے کی ذمہ داری ہر طاقت وار طبقے پر پڑتی ہے ۔
سیاست دانوں پر ذمہ داری یوں زیادہ پڑتی ہے کہ عوام اِن پر اعتماد کرتے ہیں ،لیکن یہ عوام کے اعتماد کو مجروح کرتے ہیں اور باہمی لڑائیوں میںعام آدمی کو تنگ اور تاریک گلی میں دھکیل دیتے ہیں۔لیکن اس بار کی لڑائی صحیح معنوں میں اِن کوخود بند گلی میں لے آئی ہے۔شاید اِن کو پہلی با ر ہی صحیح معنوں میں محسوس ہوکہ بند گلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے اوراس کی تاریکی رگ رگ میں اُتر کر کس طرح کی اذیت سے ہمکنار کر جاتی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر