عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں جمہوریت ہر دوسرے دن، ہر دوسری بات پر خطرے میں رہتی ہے۔ کتابی معنوں میں عوام کی حکومت عوام کے لیے، عوام کے ذریعے ہی ہوتی ہے مگر یہاں یہ معنی کسی اور مطلب میں ڈھل جاتے ہیں۔
جمہور کے سٹیج پر جاری پُتلی تماشہ اور اقتدار کے نام پر مزید اختیار کی دوڑ کو شاید جمہوریت ہی کہا جاتا ہو تاہم انتخابات کے نام پر ووٹ چُرانے کے الزامات نے عوام کی رائے کو ہمیشہ مشکوک بنایا ہے۔
جمہوریت کے نام پر جو نظام ہمارے ہاں رائج ہے اس میں شخصی آزادی، سویلین اور پارلیمانی بالادستی جیسے نعرے فقط دل لبھانے کے لیے ہی ہیں ورنہ ’جمہوریت‘ اصل میں کس چڑیا کا نام ہے کم از کم عوام اس سے آگاہ نہیں ہیں۔
جمہوریت کا صحیح مطلب اور ماخذ ہمارے ہاں صرف ’وہ‘ سمجھتے ہیں۔ جہاں جسے جب چاہا لگا دیا جب چاہا ہٹا دیا۔۔۔ جب چاہا تحریر و تقریر کی آزادی دی جب چاہا چھین لی۔ جب چاہا انقلاب کے نعرے لگوائے، جب چاہا احتساب کو ہتھیار بنایا، کم و بیش بہتر سال سے جمہوریت کی بس یہی کہانی ہے۔
جناب! اسی کو تو جمہوریت کہتے ہیں، انقلاب کا ہر راستہ براستہ راولپنڈی، تبدیلی کا ہر ماحول پوٹھوہار اور دو آمریتوں کے درمیان سانس لیتی ہلکی پھلکی جمہوریت بھی ’اُنھی‘ کی مرہون منت ہے۔
خیر اپنی جمہوریت کا نوحہ کیا پڑھنا۔ امریکہ جیسے ملک میں جمہوریت مشکلات کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ جہاں اس وقت بحث اس طور آگے بڑھ رہی ہے کہ ان انتخابات کے بعد جمہوریت کی اصل صورتحال کیا ہو گی۔
یہ خدشات اس وقت پیدا ہوئے ہیں جب صدر ٹرمپ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ پر شدید تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں اور ہارنے کی صورت میں نتائج تسلیم نہ کرنے کا اشارہ دے چکے ہیں۔ دوسری جانب شکست کی صورت میں ڈیموکریٹس کی جانب سے شدید احتجاج کا خطرہ لاحق ہے۔
امریکہ میں تجزیہ نگاروں اور جرائد کی بڑی تعداد ان شُبہات کا اظہار کر رہی ہے کہ ایسی صورت میں امریکہ بیرون ملک متنازع جمہوریتوں جیسی صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے۔ فنانشل ٹائمز جیسے جریدے نے اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ عراق اور مصر میں جمہوریت کی ناکامی محض اُن ممالک کا قومی بحران ہے لیکن امریکہ میں ایسی صورتحال عالمی بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
امریکہ میں انتخابات کا اس بار موضوع کووڈ 19، صحت عامہ، ماحولیاتی آلودگی اور سفید فام نسل پرستی کا رجحان ہے۔ معاشرے میں کھلے عام ان سب موضوعات پر بحث ہو رہی ہے۔ اختلاف رائے موجود ہے اور کہیں کہیں روس نوازی کی صورت غداری کے الزامات بھی سُنائی دے رہے ہیں۔ کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے اس کا فیصلہ دس امریکی سوئنگ ریاستیں کرتی ہیں یا ڈاک سے ملنے والے ووٹ۔۔۔ فیصلہ بہرحال عوام کا ہی ہو گا۔
امریکہ کے حالیہ انتخابات کے نتائج پاکستان کے لیے کتنے اہم ہیں؟ دوست احباب گاہے گاہے اس بارے میں پریشانی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں اس سے کیا لینا دینا کہ ٹرمپ کامیابی کے جھنڈے گاڑتا ہے یا جو بائیڈن۔ امریکی عوام کووڈ 19 کے حوالے سے کس کے بارے میں اچھی رائے رکھتے اور کس بارے نہیں، ہمیں تو افغانستان میں امن کے نتائج دینے ہیں تاکہ امریکی افواج یہاں سے سرخرو لوٹیں۔
ایک طرف چین کی قربت اور دوسری جانب انڈیا کا پاکستان سے عناد، ایران سعودی عرب کا جھگڑا اور سب سے اہم پاکستان کے ذریعے دنیا کے لیے دروازے کھولتی راہداری اور اُن سب سے بڑھ کر امریکہ کے خطے میں مفادات۔ ہمیں آنے والے دنوں میں اسی تناظر میں لیا جائے گا۔ وہی ہو گا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، یعنی ڈو مور کے مطالبے۔ بائیڈن آئے یا ٹرمپ ہمیں اس سے کیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر