کیا آپ نے کبھی سنا کہ کسی شاعر کو اس کی محبوبہ نے کہا کہ ہو
آ! میں اور تو خوابوں کے درمیان سے نکل آئیں
نہیں نا، میں نے بھی پہلے نہیں سنا تھا لیکن اب سن بھی چکا اور دیکھ بھی لیا کہ خواب بدر ہونے کے بعد شاعر کی دنیا بس چند دریچے ہوکر رہ جاتی ہے- نظمیں جو لکھی گئیں بلوچی زبان میں اور ہم تک پہنچیں اردو قالب میں- سوچتا ہوں عکس اتنا جاندار ہے تو خود نظمیں اصل زبان میں کتنی جاندار ہوں گی
انسان اپنے سفر کی دھند میں پوشیدہ ہوسکتا ہے
اور ہاتھ میں تھامے چراغ میں بھی
مجھے تم سے پوچھنا تھا — مگر تم مسکرادی
میں نے دیکھا تمہاری مسکراہٹ
اور میرے پھپھولوں کا رنگ ایک سا ہے
تو میں رک گیا
لوگ تلاش کے بہانے
اپنے تمام رشتوں سے لاتعلق ہوگئے!
کہسار ہوں کہ جنگل اور سمندر
سب تمہاری ذات کے اجزا ہیں
میں تمہاری ذات میں سر پٹختا
خود کو ڈھونڈ رہا ہوں
اس سے پہلے پیچھے اگتی دھند
ہاتھ میں تھمے چراغ کی شہ رگ تک پہنچے
تم خود کو میرے دل کے پھپھولوں میں ڈھونڈو
اور میں خود کو تمہاری مسکراہٹوں میں
سفر کی دھند میں اور ہاتھ میں چراغ ہوکر بھی پوشیدہ ہونا، اور کسی کی مسکراہٹ اور اپنے دل کے پھپھولوں کا رنگ ایک سا دیکھنا اور پھر تلاش کے سفر میں اپنے پیچھے دھند کو اگتے ہوئے دیکھنا اور اس کا چراغ کی شہ رگ تک پہنچنے کا خوف بیان کرنا اور جس کی تلاش ہے اسے دعوت دینا کہ وہ اسے اس کے دل کے پھپھولوں میں ڈھونڈے اور خود وہ اسے اسکی مسکراہٹ میں تلاش کرے — ان مفاہیم کے ساتھ نظم کہنے والا آپ کو بار بار اپنا کلام پڑھنے پر مجبور کرے گا- چراغ کی شہ رگ جیسی ترکیب بھی آپ کو چونکا دے گی- یہ نظم بلوچی زبان میں کہی گئی اور اس کا اردو قالب ایک پنجابی بولنے والے اردو کے نوجوان ادیب نے تیار کیا-
بلوچستان کی خوش گلو شاعر و ادیب و آرٹسٹ نوشین قمبرانی ہیں- میں خود بھی ان سے استاد ادیب ڈاکٹر شاہ محمد مری کی ادارت میں شایع ہونے والے رسالے سنگت کے زریعے آگاہ ہوا- ان کی آواز کا جادو میں نے ساؤنڈ کلاؤڈ پر پانچ بلوچ شاعروں کی غزلوں کی ان کی گائیکی میں دریافت کیا- پہلے تو مجھے ان کی آواز پر ٹینا ثانی کی آواز کا دھوکہ ہوا تھا لیکن یہ تو اس سے بھی کہیں زیادہ جاندار تھی- آپ کو بھی موقعہ ملے تو ضرور سنیں-
یہ بلاگ لکھتے ہوئے بھی میرے کانوں میں نوشین قمبرانی کی آواز گونج رہی ہے جب وہ گارہی تھیں
چہ شراب ءَ سر نکشہ چہ گُل ءَ پدر نبے
لنک یہ ہے
یہ شاعر و ادیب ہیں، جنھوں نے ہمارے پنجابی نوجوان احسان اصغر کو منیر مومن کے بلوچی اشعار سنائے اور ان کا ترجمہ بھی- احسان اصغر کو بلوچی زبان کی صوتی آہنگ بہت بھایا اور اردو ترجمے نے ان کو تڑپا دیا- اس واقعے کے بعد اس نے بلوچی سیکھنے کا فیصلہ کرلیا اور بلوچی زبان سیکھ بھی لی- احسان اصغر نوشین قمبرانی کے احسان مند ہیں جن کے سبب وہ اپنے ہمسائے میں رہنے والی ایک بڑی آبادی کی زبان، ثقافت اور ادب سے روشناس ہوئے-
احسان اصغر نے بلوچی زبان سیکھنے کے بعد منیر مومن کی نظموں کا اردو ترجمہ کرنے کی ٹھان لی- اور پھر ان کی چالیس سے زیادہ نظموں کے اردو تراجم پر مشتمل ایک کتاب “گمشدہ سمندر کی آواز” میں ترتیب دی جسے عکس پبلیکیشنز لاہور نے شایع کیا ہے-
میں جو بلوچ قوم کے ساتھ اپنے تعلق پہ فخر کرتا ہوں، اور کبھی کسی بلوچ کے سامنے میں بلوچستان کی لینڈ اسکیپ سے بے خبری کے باعث شرمندہ نہیں ہوا اور نہ ہی بلوچ قوم کی تاریخ بارے بے بہرہ نہیں نکلا لیکن سچی بات ہے کہ بلوچی زبان سے ناواقفیت نے بلوچی زبان کے ادب کو ہم سے چھپا رکھا ہے- احسان اصغر بہت ہی خوش قسمت ہے کہ وہ بلوچی زبان سے واقف ہی نہیں بلکہ اس زبان کے منظوم ادب کو اردو قالب دینے پر قادر ہے- اس نے منیر مومن کی نظموں کو اردو قالب میں ڈھال کر اردو پڑھنے والے حلقوں پر احسان کیا ہے-
منیر مومن “تنہائی” بارے اپنے تجربے کا بیان کچھ یوں کرتا ہے
دیکھتا ہوں دور کسی کاروان کا سایہ ظاہر ہوکر
پانی میں اترتا ہوا
وقتنے آنکھوں کے آگے حجاب قائم کرلیا
(ہائے کیسی لائن ہے)
یہ صبح و شام ، یہ شب و روز
سب پردہ نشین ہوگئے
میں نے شعر کی مٹّی اٹھائی
اور اپنے سکوت کا حسین بت بنایا
کوئی چمک نہ آہٹ نہ ہی دل
ان دنوں زندگی بس مشت بھر رینگتے وسوسوں کا نام ہے
دیکھتا ہوں دور کسی کاروان کا سایہ ظاہر ہوکر
پانی میں اترتا ہوا
میں بھی اپنے سکوت کا خوشنما بت
پانی میں ڈال دیتا ہوں تاکہ پانی ہوجائے
یہ پوری نظم پڑھنے کے قابل ہے، خاص طور پہ وہ لمحہ جہاں شاعر کی تنہائی کے سامنے آکر اس کا بیلی بیٹھ جاتا ہے اور شاعر کہتا ہے
بیلی! میری تنہائی کے سامنے مت بیٹھ
تو تو اتنا جانتا ہے
کہ تیری اس طرح دار خواہشن نے
مجھے ہر ایک سے الگ کردیا ہے
بخشی ہے ایک منفرد تنہائی
ایک اور نظم ہے جس کا عنوان ہے “نظموں کی بستی”
اس شہر کی سپاہ تتلیاں ہیں
اور محلات کی اینٹیں چراغ
ستارے یہاں آنکھوں میں گھونسلہ بناتے ہیں
یہ میری نظموں کی بستی ہے
یہاں تمناؤں کی آگ
تاحال روشن نہیں ہوئی
خام ہیں یہاں ابھی تک تمام منظر
لوگ پرندوں کی باتیں کرتے ہیں
اور خواب دن دیہاڑے گھومتے ہیں
زمانے نے اپنے بچوں کی شادی میں یہاں آنا چاہا
لیکن تونے آنکھ بند کرلی
اور وہ گلی میں کھوگیا
اس لیے ابتک یہاں
ہواؤں کے گریبان سلامت ہیں
اور تیری محبتوں کی مہک
میرے سرہانے خوابیدہ ہے
گمشدہ سمندر کی آواز میں ایک بھی آواز(نظم) ایسی نہیں ہے جسے پڑھنے کے بعد پھر پڑھنے کو دل نہ کرتا ہو- بہت سارے لوگ “خواب بدر” ہوتے ہوں گے لیکن خواب بدری کے تجربے سے منیر مومن گزرے تو اس کا احوال نظم کی صورت پڑھنے کی چیز ہے- شاعر کو اس کے بیلی نے مشورہ دیا کہ خوابوں کے درمیان سے وہ دونوں نکل جاتے ہیں تو کیا ہوا
میں نے آنکھیں بند کیں
رات لیپٹ کر چٹائی کے نیچے رکھ دی
اب میری دنیا محض دریچے تھی
اور دریچوں کی اس اور
رنگوں کا ایک مورچہ !
روز ایک نگری جل جاتی
روز نئی بستی بس جاتی ہے
عجائبات کا بازار قائم تھا
منیر مومن سسی کے وطن کیچ کے ایک گاؤں پیدارک میں 1966ء میں پیدا ہوئے اور آج کل سرکاری ملازم ہیں- معاصر بلوچی شاعری میں نمایاں مقام رکھتے ہیں- ان کی نظموں کا یہ اردو ترجمہ اردو خواں طبقے کو بلوچی زبان کے ادب میں دلچسپی لینے پر مجبور کردے گا-
کتاب عکس پبلیکیشنز فرسٹ فلور میاں چیمبرز ٹمپل روڑ لاہور سے حاصل کی جاسکتی اور اس کے لیے درج ذیل نمبر پہ رابطہ کیا جاسکتا ہے
وٹس ایپ نمبر 03042224000
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر