ڈاک سے ملنے والے ووٹ گننے میں تاخیر معمول کی بات ہے۔
کئی ریاستوں میں الیکشن ڈے سے پہلے ڈاک کے ووٹوں کو نہیں گنا جاتا۔
وقت آتا ہے تو ہر لفافے کو کھولا جاتا ہے، ووٹ بھیجنے والے کے دستخط جانچے جاتے ہیں، موڑ کے رکھے گئے بیلٹ پیپر کو اسکین کرنے کے لیے کھولا جاتا ہے۔
بظاہر چند سیکنڈز یا ایک آدھ منٹ کی بات ہے لیکن دس کروڑ ووٹ ایسے شمار کرنا آسان نہیں۔
صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ الیکشن ڈے کے بعد ووٹوں کی گنتی نہ کی جائے۔
قاعدہ یہ ہے کہ بعض ریاستوں میں الیکشن ڈے کے تین دن، کہیں سات دن، ایک ریاست میں دس دن بعد تک ملنے والا ووٹ گنا جاتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے سپریم کورٹ جانے کا عندیہ دیا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ میں پاکستان کے برعکس جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر مقرر نہیں۔ جج مرتے دم تک کام جاری رکھ سکتا ہے۔
سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 9 ہے اور ان کا کسی پارٹی کی طرف جھکاؤ سب کو معلوم ہوتا ہے۔ جس پارٹی کا صدر ہوتا ہے، وہ ہم خیال جج کو سپریم کورٹ میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ واحد رکاوٹ یہ آسکتی ہے کہ جج کے نام کی سینیٹ سے منظوری لینی پڑتی ہے۔
صدر اور سینیٹ ایک ہی پارٹی کے ہوں تو انھیں آسانی ہوجاتی ہے۔
ابھی دو ماہ پہلے تک سپریم کورٹ میں کنزرویٹو اور لبرل ججوں کی تعداد چار چار تھی جبکہ چیف جسٹس کنزرویٹو ہونے کے باوجود کبھی ادھر، کبھی ادھر ہوجاتے تھے۔
ستمبر میں جسٹس گنزبرگ کا انتقال ہوگیا اور صدر ٹرمپ نے فوراً اپنی ہم خیال جج کو نامزد کردیا۔ سینیٹ میں ری پبلکنز کی اکثریت تھی اس لیے جج ایمی کونی بیرٹ کو منظوری مل گئی۔
اب سپریم کورٹ میں لبرل جج تین رہ گئے ہیں اور کنزرویٹو ججوں کی تعداد چھ ہوچکی ہے۔
اس لیے ڈیموکریٹس الیکشن سے پہلے نئے جج کی تقرری پر شور مچارہے تھے۔ اس عمل کو روکنے کی کوشش کررہے تھے۔
اگر صدارتی انتخاب کا معاملہ سپریم کورٹ جائے گا تو ایک بار پھر 2000ء والی صورتحال پیش آسکتی ہے جب سپریم کورٹ نے فلوریڈا میں ووٹوں کی گنتی رکوادی تھی اور جارج ڈبلیو بش صدر بن گئے تھے۔ ڈیموکریٹ امیدوار ایل گور زیادہ ووٹ لینے کے باوجود صدر نہیں بن سکے تھے۔
وہ فیصلہ دینے والوں کی اکثریت بھی کنزرویٹو ججوں پر مشتمل تھی۔ جن دو ججوں نے اختلافی رائے دی تھی، ان میں سے ایک حال میں انتقال کرنے والی جسٹس گنزبرگ تھیں۔
امریکی صدارتی انتخاب سے متعلق چند باتیں سمجھنے کی ہیں۔
ایک یہ کہ چالیس بیالیس ریاستوں میں پہلا ووٹ پڑنے سے پہلے ہی سب جانتے ہیں کہ کون سی پارٹی جیتے گی۔
مثلاً کیلی فورنیا روایتی طور پر ڈیموکریٹس اور کینٹکی ری پبلکنز کی ہے۔ ان کا نتیجہ آنے پر ایکسائیٹڈ ہونے کی ضرورت نہیں۔
دوم، ڈیموکریٹس کی زیادہ ریاستیں رقبے میں چھوٹی اور آبادی میں زیادہ ہیں۔ ری پبلکنز کی زیادہ ریاستیں رقبے میں بڑی اور آبادی میں کم ہیں۔ الیکٹورل ووٹ آبادی کے حساب سے ہوتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ نقشے کو سرخ دیکھ کر خوش یا پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
سوم، فی الحال بیشتر نتائج ادھورے ہیں۔ پرسینٹیج کے حساب سے ہیں۔ ڈاک کے ووٹ کم شمار ہوئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ پچاس فیصد گنتی میں ایک امیدوار کو سبقت ہو تو اگلے پچاس فیصد میں ہار جائے۔
فیصلہ سوئنگ اسٹیٹس کے سو فیصد نتائج سامنے آنے پر ہوگا۔
یاد رہے کہ 2016 میں دس کی دس سوئنگ اسٹیٹس صدر ٹرمپ نے جیتی تھیں۔ ان میں سے تین بھی بائیڈن جیت گئے تو بازی پلٹ جائے گی۔
وسکانسن میں ایک لاکھ ووٹوں کی گنتی باقی ہیں اور اس وقت بائیڈن کو 21 ہزار کی برتری ہے۔
مشی گن میں ساڑھے چار لاکھ ووٹوں کی گنتی باقی ہے اور بائیڈن کو 35 ہزار کی برتری ہے۔
نیواڈا میں 2 لاکھ ووٹ باقی ہیں اور بائیڈن کو 8 ہزار کی برتری ہے۔
یہ تین ریاستیں جیت کر بائیڈن صدر بن سکتے ہیں کیونکہ ان کے 270 الیکٹورل ووٹ ہوجائیں گے۔
پینسلوانیا میں گنتی بہت سست ہے اور ڈیموکریٹس کے گڑھ کئی علاقوں کے نتائج نہیں آئے۔ فلاڈیلفیا کے نصف ووٹ باقی ہیں۔
پینسلوانیا میں صدر ٹرمپ کو ساڑھے چار لاکھ ووٹوں کی برتری ہے لیکن 15 لاکھ ووٹوں کی گنتی باقی ہے۔
جو ووٹ باقی ہیں، وہ ڈاک سے بھیجے گئے تھے۔ ڈاک سے ملنے والے ووٹوں میں بائیڈن کا حصہ تین چوتھائی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر