شکیل نتکانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکن ایسٹبلشمنٹ چاہتی ہے کہ ٹرمپ ہار جائے۔ امریکہ میں ٹرمپ اور ایسٹبلشمنٹ اسی تضاد اور اختلاف کا شکار ہیں جس کا شکار پاکستانی ایسٹبلشمنٹ اور پاکستان کی حقیقی سیاسی جماعتیں ہیں یعنی وسائل کہاں خرچ ہونے چاہیں۔ اپنے پچھلے دور اقتدار میں ٹرمپ نے جنگوں کی حوصلہ شکنی کی اور کہا کہ وسائل جنگوں کی بجائے لوگوں پر خرچ ہوں گے۔
پاکستان میں معاشی بحران اور سیاسی جماعتوں کے خلاف ایسٹبلشمنٹ کے معاندانہ روئیے کے پیچھے بھی اسی سوچ کا اختلاف ہے۔ ایسٹبلشمنٹ چاہتی ہے کہ وسائل کا رخ صرف اس کی طرف رہے باقی لوگ بھوکے مرتے ہیں تو مر جائیں آٹا 45 روپے سے 85 روپے کلو ہوتا ہے تو ہو جائے یہ اس کا مسئلہ نہیں ہے برسر اقتدار سیاسی جماعت کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں عوام میں غیر مقبول ہو جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اب کوئی حقیقی جماعت ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ اقتدار کے حصول کے لیے کسی قسم کی سودے بازی کو تیار نہ ہے صرف مفاد پرست ٹولا اپنی خدمات ایسٹبلشمنٹ کو پیش کئے ہوئے ہے جس کو عوام سبق سکھانے کو تیار ہیں ۔
میرے خیال میں پاکستانی ایسٹبلشمنٹ اب زیادہ دیر حکومتی معاملات کو اپنے کنڑول میں نہیں رکھ سکے گی اور پیچھے ہٹ جائے گی اس کی بنیادی وجہ صرف پاکستانی ایسٹبلشمنٹ نہیں دنیا کی کوئی ایسٹبلشمنٹ اپنی عوام کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اب صورتحال یہی بن چکی ہے۔
پاکستانی سیاسی جماعتیں ہمیشہ سے ایسٹبلشمنٹ کے غلط فیصلوں کا بوجھ اٹھاتی آئی ہیں اور ہر قسم کے الزامات اپنے سر پر لیتی آئی ہیں لیکن اب انہوں نے مزید ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اب عوام ایسٹبلشمنٹ کو اپنے مسائل کی وجہ سمجھتے ہیں اب عوام اور ایسٹبلشمنٹ آمنے سامنے ہیں اور اگر ایسٹبلشمنٹ نے عوام سے جنگ کی تو شکست یقینی طور پر ایسٹبلشمنٹ کی ہو گی۔
باقی جہاں تک جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی بات ہے کوئی ایک آرمی جنرل بھی ایسا نہیں چاہیے گا کہ عوامی اجتماعات میں ان کا نام لے کر انہیں کسی بات کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جائے اس لئے اس لڑائی میں یہ دونوں جنرل اکیلے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں جنرل کتنی دیر تک عوامی غصے اور ناراضگی کا سامنا کر سکتے ہیں۔
نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے نے مردہ ن لیگ میں روح پھونک دی ہے کل جو لوگ پارٹی چھوڑنے کا سوچ رہے تھے اب اپنی سیاسی بقا کے لیے ن لیگ میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ استعفے آنے کو ہیں۔ ن لیگ کو توڑنے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو گی۔
اگلا سال الیکشن کا ہے اس کے بعد جو پارٹی بھی حکومت میں آئے گی معیشت کی بحالی کے لئے جہاں وہ انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرے گی تاکہ تجارت بحال ہو بلکہ وہ فوج کے بجٹ میں ایک بڑا کٹ لگائے گی اور وہ وسائل عوام پر خرچ کرے گی جیسا ٹرمپ امریکہ میں چاہتا ہے امریکہ میں ایسٹبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں میں جس اختلاف کی کھلم کھلا ابتدا ہونے جا رہی ہے ہمارے ہاں اس اختلاف کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے ۔
امریکی ایسٹبلشمنٹ اور امریکی سیاسی قوتوں کے درمیان محاذ آرائی شدت اختیار کرنے جا رہی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ ختم ہونے جا رہی ہے اور اس کے لئے ہمیں ٹرمپ کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اس نے واضح موقف اختیار کیا کہ وسائل جنگوں کی بجائے عوام پر خرچ ہوں گے جس کا اثر پاکستان پر یہ پڑا کہ پاکستان میں ایسٹبلشمنٹ کمزور اور سیاسی جماعتیں مضبوط ہوئیں۔ اگر ٹرمپ کو دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا تو وہنتائج ماننے سے انکار کر دے گا اگر جوبائیڈن جیت گیا تو بھی اس کے لئے بہت مشکل ہو جائے گا کہ وہ وسائل عوام پر خرچ کرنے کی بجائے جنگوں پر خرچ کرے کیونکہ ٹرمپ کی یہ بات تو امریکی عوام کو سمجھ آ ہی گئی ہے کہ وسائل عوام پر خرچ ہوں جنگوں پر نہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ